کس قوم کو “تاریخ کی خونخوارترین قوم” کا خطاب ملا؟

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ : یہودیوں اور خونریزیوں کے درمیان کا ناطہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہودی قوم کی درندگی، وحشی پن اور خونخواری کا اندازہ مقبوضہ سرزمینوں میں فلسطینیوں کے خلاف ان کے جاری اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہودی قوم کی تاریخ اور گذشتہ صدیوں میں ان کے کرتوتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تحریف شدہ دین اور تعلیمات کے عین مطابق، بنیادی طور پر، خونریزی اور خونخواری پر زور دیتے ہیں۔ یہودی بچہ [یہودی ماں کی کوکھ] سے پیدا ہوتا ہے تو اس کا ختنہ کیا جاتا ہے اور یہیں سے خونخواری کا آغاز ہوتا کیونکہ یہودی رابی [حاخام] عمل ختنہ سے نکلنے والے خون کو چوس چوس کر پی لیتے ہیں اور یہ سلسلہ “یہوہ” کے لئے انسانوں کی قربانی دینے، قربان ہونے والے انسان کے خون کو مٹھائیوں میں ملانے تک جاری رہتا ہے۔
 
ڈاکٹر “ایریک بسکوف” (Erich Bischoff) قوم یہود کے بارے میں لکھتے ہیں: “یہودی فلسفے اور اس کی تعلیمات میں ان اجنبیوں کا قتل جائز ہے جو حیوانات کے برابر ہیں اور یہ کشت و خون شرعی احکام کے دائرے میں ہونا چاہئے اور جو لوگ دین یہود کی تعلیمات پر یقین نہیں رکھتے، انہیں قربانی کے طور پر بڑے دیوتا کی خدمت میں پیش کرنا چاہئے”۔
رچرڈ فرانسس بورٹن (Richard Francis Burton) ـ جنہوں نے عرصہ دراز تک تلمود کی تعلیم حاصل کی ہے ـ اپنی کتاب “یہودی، خانہ بدوش اور اسلام” (The Jew, The Gypsy, and El Islam) مطبوعہ سنہ ۱۸۹۸ع‍] میں لکھتے ہیں: “تلمود کے مندرجات کے مطابق، یہودیوں کے درمیان دو خونی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کے ذریعے “یہوہ” کو خوشنود کیا جاسکتا ہے، ان میں سے ایک انسانی خون سے آلودہ روٹیوں کی عید ہے ـ جو در حقیقت وہی عید فصح ہی ہے ـ اور دوسری رسم یہودی بچوں کا ختنہ کرنے کی رسم ہے” جس سے نکلنے والے خون کو یہودی حاخام چوس چوس کر پی لیتے ہیں۔
 
غیر یہودی انسانوں کے قتل کے موضوع کی اہمیت کو دیکھ کر عرب مفکر “ڈاکٹر رفعت مصطفی” نے اس موضوع پر مطالعہ کرکے معلومات جمع کرلیں اور نہایت اہم مقالہ تالیف کیا۔ وہ کہتے ہیں: میں نے اس موضوع پر کام شروع کرنے کے بعد، اپنا ارادہ ترک کرلیا کیونکہ متعلقہ واقعات اور حادثات میں ابہام پایا جاتا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ واقعات درست ہیں۔ مجھے اس سلسلے میں کئی کتابیں ملیں اور کچھ ویب گاہوں میں جستجو کی اور کسی حد تک بھینٹ چڑھنے والے انسانوں سے آگہی حاصل کرلی۔ مصطفی کہتے ہیں: “مقالہ لکھنے کا کام مکمل کرنے کے بعد، بہت سوں نے مجھ پر مبالغہ آرائی کا الزام لگایا۔ لیکن میں نے وہ مآخذ ان افراد کے لئے بھجوا دیئے جن سے میں نے استناد کیا تھا اور وہ مقالے کی درستی کے قائل ہوئے”۔
 
رفعت مصطفی لکھتے ہیں کہ یہود وہ لوگ ہیں جو “انسانیت کے خونخواروں” کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: “میں نہیں سمجھتا ہم نے کبھی افسانوں کے سوا کہیں اور اس نام کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ شاید آپ کو اس ایک خیال یا گمان سمجھ لیں نہ کہ ایک حقیقی موضوع، لیکن آپ ہمارے ساتھ رہیں گے تو ہم ایسے لوگوں کو آپ سے متعارف کرائیں گے جو حقیقتا اس خطاب کے مستحق ہیں۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ خیال اور توہم کے بجائے عقل کو مطمع نظر قرار دیں اور افسانوں سے گذر کر حقیقت تک پہنچیں”۔
جی ہاں! یہ لوگ یہودی ہیں۔ وہی لوگ جن کا دین ان سے کہتا ہے کہ “جو لوگ دین یہود پر ایمان نہیں لاتے انہیں ہمارے دیوتا “یہوہ” کے لئے قربان ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں ہاں عید کی دو رسمیں ایسی ہیں جن خون بہایا جاتا ہے اور ہمارا یہ کام ہمارے دیوتا میں کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے؛ ان دو عیدوں میں سے ایک وہ عید ہے جس میں انسانی خون ملا کر کھانا تیار کیا جاتا ہے اور دوسری رسم ہمارے بچوں کا ختنہ کرنے کی ہے”۔
مقدس فطیرہ وہ ہے جس میں آٹے کو خون میں گوندھا جاتا ہے تا کہ “عید فصح” ـ یہودیوں کی ایک عید ـ کے لئے کھانا تیار کیا جائے۔ یہ خونخوارانہ اور وحشیانہ رسم یہودی کتاب مقدس کے حصے “تلمود” کے ذریعے ان تک پہنچی ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تحریف شدہ دین کی تعلیمات کی پیروی، پوری تاریخ کی ان تمام بدبختیوں کا سبب بنی ہے جن سے یہودی دوچار ہوئے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہودی ساحر جادوگری کے وقت انسانی خون استعمال کرتے تھے۔ تورات میں ایک صریح متن آیا ہے جس میں یسعیاہ قوم یہود سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے: ” آہ خطا کار گروہ۔ بد کرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا اِسرائیل کے قُدوس کو حقیر جانا اورگمراہ برگشتہ ہو گئے”۔ (سفر یسعیاہ، عہد قدیم، آیت ۴)
یہودی اپنی تعلیمات اور اسلاف سے ورثے میں ملنے والے جرائم کی رو سے بچوں کو قتل کرکے ان کا خون عید کے روز کی روٹی میں ملانے کی عادت رکھتے ہیں۔ یہودی مؤرخ برنارڈ لازار (Bernard Lazare) اپنی کتاب “یہودی دشمنی: تاریخ اور اسباب” (۱) میں اس یہودی رسم کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ماضی کے یہودی جادوگروں سے نسبت دیتا ہے۔
 

اگر آپ یہودی عبادتگاہوں اور کنیسٹوں کے بارے میں جان لیں اور ان چیزوں کو دیکھ لیں جو ان وحشیانہ جرائم کا سبب بنتی ہیں، تو خوف و ہراس سے دوچار ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی عبادتگاہیں ایسے خون سے آلودہ ہیں جو سابقہ زمانوں سے ان کے اندر بہایا گیا ہے۔ قدس شریف میں یہودی عبادتگاہیں ہندوستانی ساحروں کی عبادتگاہوں سے بھی زیادہ خوفناک ہیں کیونکہ یہ وہ عبادتگاہیں ہیں جن میں انسانوں کا قتل عام ہوا ہے۔ یہ جرائم ان تعلیمات کا نتیجہ ہیں جنہیں یہودی حاخاموں (رابیوں) نے وضع کیا ہے۔
یہودیوں کے جرائم کا پھیلاؤ خطرناک اور سنجیدہ ہوا تو “قربان ہونے والے اور یہودی” (victims and “the Jews”) نامی موضوع وسیع سطح پر زیر بحث آیا۔
یہودی اپنی دو مقدس عیدوں میں انسانوں کو قربان کرکے اور انسان کے خون میں تیار کردہ غذا کھانے کھاکر ہی خوش ہوا کرتے ہیں۔ پہلی عید کا نام پوریم (Feast of Purim) ہے جو ہر سال مارچ کے مہینے میں منائی جاتی ہے اور دوسری “عید فصح” (۲) ہے جو ہر سال اپریل کے مہینے میں منائی جاتی ہے۔
عید پوریم میں بھینٹ چڑھائے جانے والے عام طور پر بالغ نوجوانوں میں سے چنے جاتے ہیں۔ بیچارے نوجوان کو قتل کرکے اس کا خون خشک کیا جاتا ہے اور ذرات میں تبدیل کرتے ہیں اور اسے فطیرہ کے خمیر (اس روز کے طعام) میں ملا دیتے ہیں اگر کچھ باقی رہ جائے تو اگلے سال کی عید کے لئے رکھ لیتے ہیں۔
 
یہودی غیر یہودیوں کے خون سے عید فصح کے دن کے کھانا تیار کرتے تھے
لیکن عید فصح کے دن قربان ہونے والے عام طور پر نابالغ اور ۱۰ سال سے کم کے بچے ہوتے ہیں۔ ان کا خون بھی اسی انداز سے خشک کیا جاتا ہے اور اسے فطیرے میں ملا دیا جاتا ہے گوکہ بعض اوقات وہ بچوں کا تازہ خون استعمال کرتے ہیں۔
 
قربان ہونے والے انسان کا خون جاری اور اکٹھا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک اوزار سوئیوں والا ڈرم ہے۔ یہ ڈرم قربانی بننے والے انسان کے جسم کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اندر بےشمار نوکیلی سوئیاں ہوتی ہیں۔ جب قربان ہونے والے نوجوان یا بچے کو مار جاتا ہے تو سوئیاں چاروں اطراف سے اس کے بدن میں چبھ جاتی ہیں اور اس طرح اس کے پورے بدن کا خون بیک وقت باہر آنا شروع ہوجاتا ہے اور اسی اثناء میں یہودی مختلف برتنوں میں خود اکٹھا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان کو بکرے کی طرح ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اسے بزعم خویش پاک کردیتے ہیں۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ یہودی نوجوان یا بچے کی کئی رگوں کو کاٹ دیتے ہیں تا کہ ان سے خون ابلے۔ اور پھر اس خون کو ایک برتن میں جمع کرتے ہیں اور اس حاخام کے سپرد کرتے ہیں جو خون انسان سے تیار کئے جانے والے کھانے “فطیر مقدس” کی تیاری کا ذمہ دار ہوتا ہے تا کہ “یہوہ” نامی دیوتا ـ جو بنی نوع انسان کے خون کا پیاسا ہے!!! ـ کو اپنے سے راضی و خوشنود کرے۔
شادی میں مرد اور عورت، شام کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں اور ایک رات اور ایک دن کا مکمل روزہ رکھتے ہیں جس کے بعد حاخام کتان کا ایک ٹکڑا غیر یہودی شخص کے خون میں ڈبو دیتا ہے اور پھر اسے جلا کر راکھ کردیتا ہے اور راکھ کو انسانی خون کے لئے مختص برتن میں ڈال دیتا ہے، اور ابلا ہوا انڈا اس میں لڑھکا دیتا ہے، اور دلہا دلہن کو کھلا دیتا ہے۔ (۳)
ختنہ کی رسم میں حاخام اپنی انگلیاں خون بھرے شراب کے کے برتن میں ڈال دیتا ہے اور پھر اپنی انگلیاں بچے کے منہ میں دے دیتا ہے اور بچے سے مخاطب ہوکر کہا ہے: “تیری زندگی کا دارومدار تیرے خون پر ہے۔۔۔”۔
 
یہودیوں کے لئے تلمود کا حکم ہے: “غیر اسرائیلی صالح اور نیک انسانوں کو قتل کرو”، نیز اس کا حکم ہے: “جس طرح کہ مچھلی کا پیٹ چیرنا جائز ہے، انسان کا پیٹ کھولنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خواہ یہ عمل روز شنبہ کے کے بڑے والے روزے کے دن ہی کیوں انجام نہ دیا جائے”۔ بعدازاں اس جرم کے لئے اخروی ثواب کے بھی قائل ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں: “جو بھی کسی غیر یہودی کو قتل کرے اس کی پاداش یہ ہے کہ جنت الخلد میں رہے اور چوتھی منزل پر سکونت پذیر ہو”۔ [اب ذرا یہودی نواز تکفیریوں کے ہاں کے فتاوی پر نظر ڈالی جائے تو مشابہت بالکل عیاں ہے: جو ایک غیر سنی مسلمان کو قتل کرے ۔۔۔ اور ہاں یہی لوگ اس طرح کا فتوی اسلام و ایمان کے بدترین دشمن “یہود” کے بارے میں نہیں دیتے!]۔
ویسے تو یہودی اپنے بہت سی معلومات اور بہت سے اعداد و شمار بالخصوص اپنے اندرونی یہودی عبادات و رسومات کو ـ جو انسانیت سے متصادم ہیں ـ کو چھپا دیتے ہیں؛ یہاں تک برطانیہ کا نظام حکومت یہودی تعلیمات کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے جہاں کی رازداریاں دنیا بھر میں مشہور ہیں تو یقینا یہودی بھی اپنے بہت سے اعمال اور درندگی اور خونخواری پر مبنی افعال کو چھپائے رکھتے ہیں لیکن جو کچھ ابھی تک فاش ہوا ہے اس کے کچھ نمونے حسب ذیل ہیں:
بعض رپورٹوں کے مطابق، بچوں کے قتل اور یہودی عیدوں میں ان کے خون کے استعمال کے سلسلے میں اب تک ۴۰۰۰ وارداتیں طشت از بام ہوئے ہیں۔
جن واقعات اور وارداتوں کی طرف اس رپورٹ میں اشارہ کیا جارہا ہے وہ ان واقعات کے عشر عشیر سے بھی کم ہیں جو در حقیقت ان وحشی قوم کے ہاتھوں انجام کو پہنچتے ہیں۔ یہاں مذکورہ تمام واقعات “دائرۃ المعارف یہودیت” سے منقول ہیں جن کے آخر میں ماخذ کا بھی ذکر ہوا ہے۔
قربان ہونے والے شخص کی ضروری خصوصیات:
۱۔ عیسائی ہو۔ (یہودیوں کا کہنا ہے کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں!)
۲۔ بچہ ہو اور سن بلوغت سے نہ گذرا ہو۔
۳۔ ایسے نیک اور صالح عیسائی والدین کا فرزند ہو، جو کبھی زنا کے مرتکب نہ ہوئے ہیں اور شراب کے عادی نہ ہوں۔
۴۔ بچہ ہو، جس نے شراب نوشی نہ کی ہو اور اس کا خون خالص اور پاکیزہ ہو۔
۵۔ اگر عید کے روز کے فطیر مقدس میں ملا خون ایک پادری کا ہو تو یہ (یہودیوں کے معبود) یہوہ کے نزدیک زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے اور یہوہ اس سے زیادہ خوشنود ہوتا ہے۔ اور یہ خون تمام عیدوں کے لئے قیمتی اور پسندیدہ ہے۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی