تاریخ کی خونخوار ترین قوم کے خونخوار واقعات

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:

مصر
سنہ ۱۸۸۱ع‍ میں مصر کے شہر “پورٹ سعید” میں یہودیوں نے نہایت ہولناک ترین جرم کا ارتکاب کیا۔ ایک یہودی شخص قاہرہ سے پورٹ سعید آتا ہے، شہر کے مغرب میں ایک مکان کرائے پر حاصل کرتا ہے اور اسی علاقے میں رہائش پذیر ایک یونانی دکاندار کے ساتھ آنا جانا شروع کر دیتا ہے۔
ایک دن یہودی ایک آٹھ سالہ بچی کو لے کر یونانی دکاندار کے پاس پہنچتا ہے، اور شراب لے کر پینا شروع کر دیتا ہے اور بچی کو شراب نوشی پر آمادہ کرتا ہے۔ یونانی مرد حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ دوسرے روز ایک سر بریدہ لاش لوگوں کو ملتی ہے؛ آٹھ سالہ بچی نہایت درندگی سے قتل کی جاچکی تھی۔
شام
سنہ ۱۸۸۰ع‍ ایک شام کے شہر حلب میں ایک عیسائی لڑکی لاپتہ ہوئی۔ تلاش بسیار کے بعد لڑکی کی سربریدہ لاش برآمد ہوئی جس کے ارد گرد خون کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس فتل کے الزام میں “رفول انکوتا” نامی یہودی گرفتار ہوا جس نے اعتراف کیا کہ اس نے عید فصح کے لئے اس لڑکی کا خون حاصل کیا تھا۔
مورخہ ۵ فروری ۱۸۴۰ کو یہودیوں نے کیتھولک پادری المعروف بہ “فادر فرانسوا انطوان توما” کو اغوا کیا۔ وہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ایک یہودی بچے کے علاج کے لئے دمشق کے یہودی محلے میں چلا گیا تھا لیکن بیمار یہودی بچے سے ملنے کے بعد واپسی کے راستے میں کچھ یہودیوں نے اسے اغوا کیا اور پھر اس کو نہایت دردناک طریقے سے قتل کر کے اس کا خون عید فصح اور عید پوریم کے لئے حاصل کیا۔
علاوہ ازیں دمشق میں بہت سی چھوٹی بچیاں اغوا ہوئیں اور یہودیوں نے انہیں قتل کرکے ان کا خون جمع کیا۔ شاید ان وارداتوں میں سب سے مشہور واقعہ “ہینری عبدالنور” کی بیٹی کے قتل کا واقعہ تھا۔ یہودیوں نے ۷ اپریل ۱۸۹۰ع‍ کو ان کی بیٹی کو اغوا کیا اور اس کے والد نے اس کے غم میں مشہور قصیدہ لکھا۔
 
لبنان
یہودیوں نے سنہ ۱۸۲۴ع‍ میں “فتح اللہ صائغ” نامی شخص کو دعوت ضیافت دے کر اس کو قتل کیا اور اس کا خون عید فصح کے لئے جمع کیا۔ یہ عمل سنہ ۱۸۲۶ع‍ میں انطاکیہ اور ۱۸۲۹ع‍ میں حماہ میں دہرایا گیا۔
۱۸۳۴ع‍ میں ایک اس وقت کے شام کے شہر طرابلس میں ـ جو اس وقت لبنان کا حصہ ہے ـ ایک یہودی عورت نے جب یہودیوں کی خونخواری اور بےگناہ بچوں کا دردناک قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ دینی یہود سے برگشتہ ہو کر عیسائی ہوگئی اور “راہبہ کیترینا” کے نام سے مشہور ہوئی اور اسی نام سے دین نصاری پر دنیا سے رخصت ہوئی۔ اس خاتون نے یہودیوں کے انسانیت سوز جرائم اور انسانی خون بہانے کی یہودی پیاس کے سلسلے میں اہم یادداشتیں لکھیں اور ان یادداشتوں میں ان جرائم اور انسانیت پر ان کے مظالم کی تشریح کی ہے۔ اس کے بیان کردہ واقعات میں انطاکیہ، حماہ اور طرابلس کے واقعات بھی شامل ہیں جن میں یہودیوں نے دو عیسائی بچوں اور ایک مسلمان لڑکی کو قتل کرکے ان کا خون حاصل کیا۔
برطانیہ
سنہ ۱۱۴۴ع‍ میں نارویچ (Norwich) کے علاقے میں ایک ۱۲ سالہ بچے کی لاش ملی جس کے بدن کے مختلف حصوں میں شگاف ڈال دیئے گئے تھے اور ان سے خون نکالا گیا تھا۔ یہ یہودیوں کی عید فصح کا دن تھا جس کی وجہ سے نارویچ کے علاقوں کی نگاہ یہودیوں کی طرف گئی اور تمام مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، اور معلوم ہوا کہ اس بچے کے تمام قاتلین یہودی تھے۔ اس واقعے کی دستاویزات آج بھی برطانوی گرجوں میں موجود ہیں۔
علاوه بر این در سال ۱۱۶۰ع‍ میں ایک طفل کی لاش برطانیہ کے علاقے گلوسٹر (Glowcester) سے برآمد ہوئی جسے صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور اس کے بدن پر لگے متعدد زخموں سے اس کا پورا خون کھینچ لیا گیا تھا۔ ۱۲۳۵ع‍ میں چند یہودیوں نے ایک بچے کو نورویچ کے محلے سے اغوا کرکے چھپایا تاکہ مناسب موقع پا کر اس کو قتل کردیں اور اس کا خون کھینچ لیں۔ لیکن جس وقت اس کا ختنہ کررہے تھے اور قتل کے لئے تیار کررہے تھے، عوام نے قاتل یہودیوں کو قابو کرلیا اور بچے کو موت کے منہ سے باہر نکالا۔
یہودیوں نے ۱۲۵۵ع‍ میں برطانیہ کے رہائشی علاقے “لنکن” (Lincoln) سے ایک بچہ اغوا کیا۔ یہ عید فصح کے ایام تھے۔ یہودیوں نے بچے پر تشدد کیا، اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کا پورا خون کھینچ لیا۔ بچے کے والدین نے اپنے بچے کی لاش جوپین (Joppin) نامی یہودی کے گھر کے قریب واقع ایک کنویں سے برآمد کی۔ جوپین نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھیوں کا نام و نشان بھی بتا دیا۔ ۹۱ یہودی درندگی کی اس واردات میں ملوث پائے گئے اور ۱۸ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔
برطانیہ میں یہودیوں کی خونخواریاں ۱۲۹۰ع‍ تک جاری رہیں، یہاں تک کہ اس سال آکسفورڈ کے علاقے میں یہودیوں نے ایک عیسائی بچے کو قتل کیا اور اس کا خون کھینچ لیا۔ یہ جرم ایڈورڈ اول شاہ انگلستان (Edward I of England) کے تاریخی حکم پر منتج ہوا اور اس نے برطانیہ سے تمام یہودیوں کی جلا وطنی کا حکم دیا۔
سنہ ۱۹۲۸ع‍ میں برطانیہ کے شہر منچسٹر میں اوڈنیل (Odenil) نامی بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہ تھا۔ یہ واقعہ یہودیوں کی عید سے صرف ایک دن پہلے رونما ہوا تھا۔
مارچ ۱۹۳۲ع‍ میں عید فصح سے ایک دن پہلے، ایک بچے کی لاش ملی جس کو اسی انداز سے مارا گیا تھا اور اس واقعے میں کئی یہودیوں کو مجرم ٹہرایا گیا اور انہیں سزائیں ہوئیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ
یہودی لڑکی “ویکی پیلن” المعروف “ریچل” نے ۱۹۸۹ع‍ میں ایک ٹی وی اوپرا شو کے دوران اعتراف کیا کہ اس نے خود ایک شیرخوار بچے کو قربان کیا اور یہ کہ اس کام کے لئے خاندان کے اندر کچھ عورتوں کو بچے پیدا کرنا پڑتے ہیں لیکن ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کبھی بھی کسی یہودی بچے کو قربان نہ کیا جائے۔ (ویڈیو کلپ اور اردو متن کے لئے یہاں کلک کریں)
سال ۱۹۰۹ – ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے قریب “بوہیمی پارک” (Bohemian Grove) ان پر اسرار مقامات میں سے ہے جہاں کئی عشروں سے با اثر یہودی شخصیات، ماسونی لاجز کے اراکین اکٹھے ہوتے رہے ہیں اور اس میں دیوتاؤں کے لئے قربانی دینے کی رسومات عمل میں لائی جاتی رہی ہیں۔
بوہیمی پارک میں ہر سال جولائی کے مہینے میں بوہیمی کلب کے ممبران کی بیٹھک ہوتی ہے جو دو ہفتوں تک جاری رہتی ہے۔ جولائی سنہ ۲۰۰۰ع‍ میں ریڈیو کا ایک میزبان، آلکس جونز (Alex Jones) اپنے کیمرہ مین کے ہمراہ اس پر اسرار پارک میں پہنچا اور خفیہ طور پر یہاں منعقدہ رسومات کو فلمایا۔ اس بیٹھک میں سیاستدانوں اور اقتصادی شعبے کے نامی گرامی افراد شریک ہوتے ہیں اور علامتی طور پر ایک انسان کو چالیس فٹ اونچے سنگی “الو” کے لئے قربان کرتے ہیں۔ آلکس نے اپنی خفیہ تصویروں اور ویڈیو کلپس کو “اندھیرے راز؛ بوہیمیوں کا پارک” (Dark Secrets Inside Bohemian Grove) کے عنوان سے دستاویزی فلم کی شکل دی۔
 
فرانس
سنہ ۱۱۷۱ع‍ میں شہر بلوئس (Blois) میں عید فصح کے ایام میں ایک عیسائی بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ یہودیوں نے اس بچے کا خون اپنی دینی رسومات میں استعمال کرنے کے لئے نکال لیا تھا۔ پستی اور خونخواری کی اس واردات میں ملوث یہودیوں کو گرفتار کیا گیا اور کئی افراد کو پھانسی دی گئی۔ سنہ ۱۱۷۹ع‍ میں شہر پونتیوس (Pontois) میں ایک بچے کی لاش ملی جس کے خون کے آخری قطرے تک کو یہودیوں نے کھینچ لیا تھا۔
ادھر بریزین شہر میں ایک نوجوان عیسائی، چوری کے ایک ملزم آلکونتس دوف دور نامی شخص نے اغوا کرکے یہودیوں کو فروخت کیا۔
سنہ ۱۱۹۲ع‍ میں شہر بریزین (Braisne) میں ایگنس، کاؤنٹس آف دروکس (Agnes, Countess of Dreux)، نے ایک عیسائی نوجوان، جس پر وہ چوری اور قتل کا الزام لگا رہی تھی، کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جس کو یہودیوں نے سولی پر لٹکایا اور اس کا خون نکالا۔ فرانس کے بادشاہ فلپ نے ذاتی طور پر اس مقدمے میں شرکت کی اور مجرموں کو آگ میں جلا دیا۔
سنہ ۱۲۴۷ع‍ میں فرانس کے علاقے والاریاس (Valréas) میں ایک دو سالہ بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کی گردن، ہاتھوں اور پاؤں پر گھاؤ لگائے گئے تھے۔ یہودیوں نے اس روش سے بچے کا خون نکال لیا تھا۔ ملوث یہودیوں کو گرفتار کیا گیا اور انھوں نے اعتراف جرم کیا۔ یہودی دائرۃ المعارف کے مطابق، اس جرم کے نتیجے میں تین یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ سنہ ۱۲۸۸ع‍ میں بھی ایک بچے کی لاش یہودی آبادی کی طرف جانے والے راستے میں پڑی ملی۔ یہودیوں پر مقدمہ چلایا گیا اور ۱۳ یہودیوں کو آگ میں جلایا گیا۔ (یہودی دائرۃ المعارف)

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی