خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حقیقی و خالص اسلام کے مقابلہ پرجو فکر سب سے زیادہ وسیع پیمانہ پر مختلف میدانوں میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے وہ صہیونی فکر ہے۔
صہیونیوں کو سب سے زیادہ خطرہ اسلام کے ان حقیقی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے قرآن کے مستضعفین کی مستکبرین پرحکومت کے وعدہ [۱]کو پیش نظر رکھتے ہوئے استکبار کے خلاف عملی محاذ قائم کیا ہے اور جہاں وہ وعدہ الہی کے منتظر ہیں وہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اس وعدہ الہی کے مقدمات کو فراہم کرنے میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔
آج صہیونیت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی اسلام کے ان واقعی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے زمین کے مظلوموں کی وراثت قرار دئے جانے والے قرآنی وعدہ کو محض تلاوت کی حد تک نہ رکھتے ہوئے ساری دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کی ٹھانی جن پر ظلم ہو رہا ہے جنکو بڑی طاقتوں نے کمزور بنا کر انکا استحصال کیا ہے، کمزوروں کی زمین پر وراثت کے وعدہ پر ایمان لانے والے لوگ آج ساری دنیا کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ایک منجی بشریت کے منتظر ہیں اور اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی نہیں بیٹھے ہیں بلکہ انتظار کے واقعی مفہوم کو پیش کرتے ہوئے ہر اس جگہ مظلوموں کےساتھ کھڑے ہیں جہاں ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
اسی بنیاد پر صہیونیوں کی نظر میں سب سے زیادہ وہی لوگ کھٹک رہے ہیں۔ اور انہیں لوگوں کے خلاف چو طرفہ سازشیں ہو رہی ہیں جو خدا کے سچے وعدے پر یقین رکھتے ہوئَے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بنے دشمنوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، صہیونی بھی اسی لئے انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن کہہ رہے ہیں کہ جب عصر غیبت و انتظار میں ان چند گنے چنے لوگوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب انکا وہ منجی آ جائےگا جس کے انتظار میں یہ چشم براہ ہیں ۔
آج کا عرصہ کارزار صہیونیت اور منتظرین حقیقی کے درمیان ہے، یہی سبب ہے کہ جہاں دنیا کے مستضعفین و کمزور لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں صہیونیت ان تمام طاقتوں کی پشت پناہی کرتی نظر آ رہی ہے جو مظلوموں اور کمزوروں کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے یہ کمزور اپنے بل پر کھڑے ہوں۔ آج کمزوروں کی اٹھتی ہوئی آواز کو اگر مہدویت کا نام دیا جا سکتا ہے تو ان کمزوروں کو کچلنے والوں کو صہیونیت و وہابیت کی فکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو آج مہدوی فکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مظلوموں کو اپنے پیروں کھڑے ہونے دینا نہیں چاہتی اور اسی سبب عالمی سامراج کی حمایت کے چلتے دنیا کے مختلف گوشوں میں انکا قتل عام کیا جا رہا ہے اسکی ایک سامنے کی مثال یمن کی صورت حال ہے جہاں سعودی حکومت مسلسل قتل عام کر رہی ہے اور اسکی پشت پناہی امریکہ و اسرائیل کر رہے ہیں اور یمن ہی نہیں دنیا کے ہر اس علاقہ میں صہیونیت کے ہمراہ وہابیت کے نشان ظلم ملیں گے جہاں اسلامی تعلیمات کے سایہ میں اپنی خود مختاری کی بات ہوگی اور اس کی سب سے بڑی وجہ بیت المقدس کی طرف سے توجہ ہٹا کر سفیانیت کو بڑھاوا دینا ہے انہیں خوب معلوم ہے مہدویت وہ فکر ہے جس کے چلتے لوگوں میں ایک امید جاگتی ہے اور انہیں اپنے حق کے مطالبہ پر اکساتی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے مقابلہ پر جو فکر بھی ہو اسکی حمایت کی جائے اور تاریخی شواہد کی روشنی میں انہیں پتہ ہے مہدویت کے مقابلہ پر سفیانیت سامنے آئے گی جیسا کہ روایات سے واضح ہے، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی سخت ترین دشمن سفیانیت کی فکر ہوگی جسے مغرب کی حمایت بھی حاصل ہوگی اور یہودیوں کی بھی ،بلکہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو سفیانی کی حمایت ہی اس لئے ہے کہ ایک طرف تو انقلابی فکر کو دبایا جا سکے اور دوسری طرف اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ان لوگوں سے مقابلہ کیا جا سکے جو لشکر خراسانی اورناصران مہدی عج کی صورت بیت المقدس کی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جبکہ یہ وعدہ الہی ہے کہ ظلم و ستم کے پرستاروں کو اس بار کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ہے سورہ اسراء میں اسی بات کی طرف یوں اشارہ ملتا ہے:
وَقَضَیْنَآ اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا، فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۰ۭ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا، ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا،نْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۰ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا ـ(تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہوجائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں [۲]۔
امام صادق علیہ السلام }عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ{ ‘‘طاقت ور جنگجو بندوں’’ کے سلسلہ سے فرماتے ہیں :یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں خدا ظہور قائم عج سے قبل سامنے لائے گا اور یہ کسی دشمن اہلبیت کو نہیں پکاریں گے یہاں تک کے اسے واصل نار کر دیں گے [۳]
عیاشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے بعثنا علیکم عبادا لنا کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سے مراد ہمارا قائم عج ہے اور اسکے ناصر ہیں جو طاقت ور ہونگے[۴] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا میری جان آپ پر فدا ہو مولا یہ لوگ کون ہونگے آپ نے جواب میں تین بار فرمایا :یہ لوگ اہل قم میں سے ہوں گے ، اہل قم میں سے ہوں گے اہل قم میں سے ہوں گے [۵]
بظاہر موجودہ حالات اورظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات کے لب و لہجہ کو دیکھتے ہوئے بعید نہیں ہے کہ فریقین کی کتابوں میں موجود آخری دور کی جنگ میں مسلمانوں اور یہودی کی جنگ سے مراد یہی آخر الزمان کی جنگ ہو جس کے بارے میں یوں ملتا ہے کہ :قیامت نہیں آئے گی مگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک سخت جنگ چھڑے گی ، اور اس جنگ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا اور مسلمان سب کو ہلاک کر دیں گے یہاں تک کہ اگر انکا کوئی دشمن کسی پتھر یا درخت کے پیچھے بھی چھپ جائے گا تو درخت و پتھر سے آواز آئے گی تمہارا کھلا ہوا دشمن یہاں چھپا ہے اسے ہلاک کر دو [۶]۔
اس آخری دور میں جہاں یہودیوں کو انکے ظلم و ستم کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر ہلاک کرے گا وہیں یہ بھی ہے کہ ان میں سے تیس ہزار کے قریب اس وقت اسلام لے آئیں گے جب دیکھیں گے کہ انطاکیہ کی ایک غار سے توراۃ کو انجیل کو نکالا جائے گا اور صندوق مقدس کو طبریہ کی جھییل سے سامنے لایا جائے گا یہ وہ وقت ہوگا کہ یہودیوں کے لئے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا اور ان علامتوں کو دیکھ کر تیس ہزار یہودیوں اسلام قبول کر لیں گے [۷]۔
اسی انجام کا ڈر ہے جو اسرائیل کو لاحق ہے اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ بزعم خویش تو اپنے بچاو کی چارہ سازی کر رہا ہے لیکن در پردہ اپنی قبر کھود رہا ہے جبکہ وعدہ الہی حق ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ نہ اونچی اونچی دیواریں اسے تباہ ہونے سے روک سکتی ہیں نہ بکتر بند فولادی گاڑیاں نہ مرکاوہ ٹینک اور نہ ہی اپنے مان مانے طریقے سے فلسطینی حدود کی تعیین و فلسطینیوں سرحدوں کے اندر انہیں قید کر دینا وعدہ الہی سچ ہے اوراسکی سچائی ساری دنیا کے سامنے آ کر رہے گی فلسطین، شام، عراق و لبنان میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ اسی وعدہ الہی کی آہٹ ہے جس کے بموجب منجی آخر کے ظہور کے ساتھ ساتھ ہی انسانیت کے دشمن صہیونی اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔
حوالہ جات
[۱][۱] وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ, وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ…
۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں ۔۔۔ ۵- ۶ قصص
[۲] ۔ اسراء ، ۴-۷
[۳] تفسیر نورالثقلین، ج ۳، ص ۱۳۸٫
[۴] ایضا
[۵]۔ بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۱۶٫
[۶] ۔ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۱۷؛ معجم احادیث الامام المهدی، ج ۱، ص ۳۱۲
تفصیل کے لئے رجوع کریں بحارالانوار، ج ۵۱، ص ۲۵٫
۷ تفصیل کے لئے رجوع کریں. معجم احادیث الامام المهدی (علیه السلام)، ج ۱، ص ۳۴۴؛ الملاحم و الفتن، ص ۶۹٫:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔