گریٹر اسرائیل کے اہداف و مقاصد

  • ۴۸۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ “ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر) یہ عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو”۔ صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح) ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔ دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوششیں کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔ بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔ بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ اسرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر ۱۹۸۶ میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹ کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما ۱۹۴۸/۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۸ کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کررہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں اور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
۲۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے)
۳۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
۴۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے) ارضِ اسرائیل کی توسیع
۵۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)

 

ظہور امام عصر عج، آخر الزمان اور صہیونیت کا انجام

  • ۶۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حقیقی و خالص اسلام کے مقابلہ پرجو فکر سب سے زیادہ وسیع پیمانہ پر مختلف میدانوں میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے وہ صہیونی فکر ہے۔
صہیونیوں کو سب سے زیادہ خطرہ اسلام کے ان حقیقی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے قرآن کے مستضعفین کی مستکبرین پرحکومت کے وعدہ [۱]کو پیش نظر رکھتے ہوئے استکبار کے خلاف عملی محاذ قائم کیا ہے اور جہاں وہ وعدہ الہی کے منتظر ہیں وہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اس وعدہ الہی کے مقدمات کو فراہم کرنے میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔
آج صہیونیت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی اسلام کے ان واقعی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے زمین کے مظلوموں کی وراثت قرار دئے جانے والے قرآنی وعدہ کو محض تلاوت کی حد تک نہ رکھتے ہوئے ساری دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کی ٹھانی جن پر ظلم ہو رہا ہے جنکو بڑی طاقتوں نے کمزور بنا کر انکا استحصال کیا ہے، کمزوروں کی زمین پر وراثت کے وعدہ پر ایمان لانے والے لوگ آج ساری دنیا کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ایک منجی بشریت کے منتظر ہیں اور اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی نہیں بیٹھے ہیں بلکہ انتظار کے واقعی مفہوم کو پیش کرتے ہوئے ہر اس جگہ مظلوموں کےساتھ کھڑے ہیں جہاں ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
اسی بنیاد پر صہیونیوں کی نظر میں سب سے زیادہ وہی لوگ کھٹک رہے ہیں۔ اور انہیں لوگوں کے خلاف چو طرفہ سازشیں ہو رہی ہیں جو خدا کے سچے وعدے پر یقین رکھتے ہوئَے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بنے دشمنوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، صہیونی بھی اسی لئے انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن کہہ رہے ہیں کہ جب عصر غیبت و انتظار میں ان چند گنے چنے لوگوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب انکا وہ منجی آ جائےگا جس کے انتظار میں یہ چشم براہ ہیں ۔
آج کا عرصہ کارزار صہیونیت اور منتظرین حقیقی کے درمیان ہے، یہی سبب ہے کہ جہاں دنیا کے مستضعفین و کمزور لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں صہیونیت ان تمام طاقتوں کی پشت پناہی کرتی نظر آ رہی ہے جو مظلوموں اور کمزوروں کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے یہ کمزور اپنے بل پر کھڑے ہوں۔ آج کمزوروں کی اٹھتی ہوئی آواز کو اگر مہدویت کا نام دیا جا سکتا ہے تو ان کمزوروں کو کچلنے والوں کو صہیونیت و وہابیت کی فکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو آج مہدوی فکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مظلوموں کو اپنے پیروں کھڑے ہونے دینا نہیں چاہتی اور اسی سبب عالمی سامراج کی حمایت کے چلتے دنیا کے مختلف گوشوں میں انکا قتل عام کیا جا رہا ہے اسکی ایک سامنے کی مثال یمن کی صورت حال ہے جہاں سعودی حکومت مسلسل قتل عام کر رہی ہے اور اسکی پشت پناہی امریکہ و اسرائیل کر رہے ہیں اور یمن ہی نہیں دنیا کے ہر اس علاقہ میں صہیونیت کے ہمراہ وہابیت کے نشان ظلم ملیں گے جہاں اسلامی تعلیمات کے سایہ میں اپنی خود مختاری کی بات ہوگی اور اس کی سب سے بڑی وجہ بیت المقدس کی طرف سے توجہ ہٹا کر سفیانیت کو بڑھاوا دینا ہے انہیں خوب معلوم ہے مہدویت وہ فکر ہے جس کے چلتے لوگوں میں ایک امید جاگتی ہے اور انہیں اپنے حق کے مطالبہ پر اکساتی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے مقابلہ پر جو فکر بھی ہو اسکی حمایت کی جائے اور تاریخی شواہد کی روشنی میں انہیں پتہ ہے مہدویت کے مقابلہ پر سفیانیت سامنے آئے گی جیسا کہ روایات سے واضح ہے، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی سخت ترین دشمن سفیانیت کی فکر ہوگی جسے مغرب کی حمایت بھی حاصل ہوگی اور یہودیوں کی بھی ،بلکہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو سفیانی کی حمایت ہی اس لئے ہے کہ ایک طرف تو انقلابی فکر کو دبایا جا سکے اور دوسری طرف اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ان لوگوں سے مقابلہ کیا جا سکے جو لشکر خراسانی اورناصران مہدی عج کی صورت بیت المقدس کی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جبکہ یہ وعدہ الہی ہے کہ ظلم و ستم کے پرستاروں کو اس بار کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ہے سورہ اسراء میں اسی بات کی طرف یوں اشارہ ملتا ہے:
وَقَضَیْنَآ اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا، فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۰ۭ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا، ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا،نْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۰ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا ـ(تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہوجائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں [۲]۔
امام صادق علیہ السلام }عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ{ ‘‘طاقت ور جنگجو بندوں’’ کے سلسلہ سے فرماتے ہیں :یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں خدا ظہور قائم عج سے قبل سامنے لائے گا اور یہ کسی دشمن اہلبیت کو نہیں پکاریں گے یہاں تک کے اسے واصل نار کر دیں گے [۳]
عیاشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے بعثنا علیکم عبادا لنا کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سے مراد ہمارا قائم عج ہے اور اسکے ناصر ہیں جو طاقت ور ہونگے[۴] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا میری جان آپ پر فدا ہو مولا یہ لوگ کون ہونگے آپ نے جواب میں تین بار فرمایا :یہ لوگ اہل قم میں سے ہوں گے ، اہل قم میں سے ہوں گے اہل قم میں سے ہوں گے [۵]
بظاہر موجودہ حالات اورظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات کے لب و لہجہ کو دیکھتے ہوئے بعید نہیں ہے کہ فریقین کی کتابوں میں موجود آخری دور کی جنگ میں مسلمانوں اور یہودی کی جنگ سے مراد یہی آخر الزمان کی جنگ ہو جس کے بارے میں یوں ملتا ہے کہ :قیامت نہیں آئے گی مگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک سخت جنگ چھڑے گی ، اور اس جنگ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا اور مسلمان سب کو ہلاک کر دیں گے یہاں تک کہ اگر انکا کوئی دشمن کسی پتھر یا درخت کے پیچھے بھی چھپ جائے گا تو درخت و پتھر سے آواز آئے گی تمہارا کھلا ہوا دشمن یہاں چھپا ہے اسے ہلاک کر دو [۶]۔
اس آخری دور میں جہاں یہودیوں کو انکے ظلم و ستم کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر ہلاک کرے گا وہیں یہ بھی ہے کہ ان میں سے تیس ہزار کے قریب اس وقت اسلام لے آئیں گے جب دیکھیں گے کہ انطاکیہ کی ایک غار سے توراۃ کو انجیل کو نکالا جائے گا اور صندوق مقدس کو طبریہ کی جھییل سے سامنے لایا جائے گا یہ وہ وقت ہوگا کہ یہودیوں کے لئے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا اور ان علامتوں کو دیکھ کر تیس ہزار یہودیوں اسلام قبول کر لیں گے [۷]۔
اسی انجام کا ڈر ہے جو اسرائیل کو لاحق ہے اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ بزعم خویش تو اپنے بچاو کی چارہ سازی کر رہا ہے لیکن در پردہ اپنی قبر کھود رہا ہے جبکہ وعدہ الہی حق ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ نہ اونچی اونچی دیواریں اسے تباہ ہونے سے روک سکتی ہیں نہ بکتر بند فولادی گاڑیاں نہ مرکاوہ ٹینک اور نہ ہی اپنے مان مانے طریقے سے فلسطینی حدود کی تعیین و فلسطینیوں سرحدوں کے اندر انہیں قید کر دینا وعدہ الہی سچ ہے اوراسکی سچائی ساری دنیا کے سامنے آ کر رہے گی فلسطین، شام، عراق و لبنان میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ اسی وعدہ الہی کی آہٹ ہے جس کے بموجب منجی آخر کے ظہور کے ساتھ ساتھ ہی انسانیت کے دشمن صہیونی اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔
حوالہ جات
[۱][۱] وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ, وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ…
۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں ۔۔۔ ۵- ۶ قصص
[۲] ۔ اسراء ، ۴-۷
[۳] تفسیر نورالثقلین، ج ۳، ص ۱۳۸٫
[۴] ایضا
[۵]۔ بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۱۶٫
[۶] ۔ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۱۷؛ معجم احادیث الامام المهدی، ج ۱، ص ۳۱۲
تفصیل کے لئے رجوع کریں بحارالانوار، ج ۵۱، ص ۲۵٫
۷ تفصیل کے لئے رجوع کریں. معجم احادیث الامام المهدی (علیه السلام)، ج ۱، ص ۳۴۴؛ الملاحم و الفتن، ص ۶۹٫:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صہیونی معاشرے میں بڑھتی دراڑوں کی حقیقت

  • ۴۷۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے اندر معاشرتی دراڑیں مختلف سطحوں پر اور مختلف پہلووں میں پائی جا رہی ہیں، جبکہ سیاسی مشینریاں بعض دراڑوں کو عمیق بنانے میں جیسے قومی دراڑ و شگاف اور مذہبی و سیکولر طبقے کے درمیان بڑھتی خلیج کے باقی رکھنے میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم چار طرح کے قابل ذکر شگاف صہیونی معاشرہ میں پائے جا رہے ہیں ، یہ شگاف حسب ذیل ہیں :
۱۔ اعراب و یہودیوں کے درمیان تاریخی اور قومی شگاف
۲۔ یہودیوں کے درمیان نسلی شگاف
۳۔ یہودیوں کے درمیان دینی شگاف
۴۔ صہیونی سماج میں طبقاتی شگاف
یہ وہ دراڑیں ہیں جو بعض جگہوں پر ایک دوسرے کی شدت کا سبب بن رہی ہیں اور صہیونی رژیم کی آبادی کی تقسیم اس بات کا سبب بنی ہے کہ ان دراڑوں میں اور بھی گہرائی پیدا ہو چنانچہ صہیونی صدر جوکہ ہرتزلیا کانفرنس ۲۰۱۵ء میں اس کانفرنس کے بنیادی و اصلی مقررین کے طور پر مدعو تھا خود اس نے ہی صہیونی معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر پائے جانے والی دراڑوں اور وہاںک کے آپسی اختلافات و تفرقوں کو ایک بڑے خطرہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ان دراڑوں اور تفرقوں کے وجود کا اعتراف کیا ۔ روئن ریولین نے اس کانفرنس میں کہا : گزشتہ ۹۰ کی دہائی میں اسرائیلی معاشرہ ایک بڑی اکثریت و چھوٹی اقلیت سے تشکیل پاتا تھا جس میں اکثریت کا تعلق صہیونیوں سے تھا جو کہ تین اقلتیوں ، مذہبی صہیونیوں، عربوں اور افراطی آرتھوڈکسوں حریدیوں کے ساتھ اسرائیل سماج کو تشکیل دیتا تھا ۔ شاید آج بھی اسرائیل میں بہت سے لوگ یہ سوچتے ہوں اور ذرائع ابلاغ اور اسرائیل نظام کے لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اسرائیلی سماج اب بھی اپنی پرانی حالت پر ہے ۔لیکن اس وقت سے لیکر اب تک حقیقت بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے فی الحال صورت حال یہ ہے کہ پہلے درجہ کے شہری سیکولر صہیونی ۳۸ فیصد قوم پرست و مذہبی۱۵ فیصد ۲۵ فیصد عرب اور ۲۵ فیصد افراطی آرتھوڈکس ہیں بہرحال آبادی کی بناوٹ کی تبدیلی ایک ایسی حقیقت ہے جو آج اسرائیل کے موجودہ چہرہ کو پیش کر رہی ہے اور اس موجودہ صورت حال میں حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور کوئی اقلیت چھوٹی نہیں ہے۔

 

یہود ستیزی کا ڈرامہ یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے بہانہ

  • ۴۰۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی موومنٹ کا اصلی مقصد ایک ایسی حکومت کی تشکیل تھا کہ جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودی یہودیوں کی نابودی سے فرار کرتے ہوئے وہاں پناہ لے سکیں لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہی ہے ، یہودیوں کا قتل عام اور یہود ستیزی تو ایک بہانہ تھا کہ یہودیوں کو اس کے ذریعہ ہجرت کرنے پر وادار کیا جا سکے اور اس کے ذریعہ صہیونی اہداف کو حاصل کیا جا سکے ۔
یہودیوں کی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے امریکی و یہودی کے ایک مشترکہ اجتماع میں اس سلسلہ سے کہا تھا : صہیونیت کے اصولوں میں سے ایک تمام یہودیوں کو اسرائیل لانا تھا ، ہم مختلف گھرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمار ی مدد کریں تاکہ ہم انکے بچوں کو اسرائیل لے جائیں البتہ یاد رہے کہ اگر وہ ایسا نہیں بھی کریں گے تو ہم زبردستی انہیں اسرائیل لے جائیں گے ،، ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اہداف کے امتداد میں یہودیوں کی اپنی رائے اور انکی اپنی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے .حتی بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کے بانیوں میں ایک ڈاکٹر ماگنس اس سلسلہ سے لکھتے ہیں : ہمارا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ صہیونزم کی تحریک دنیا میں یہودی ستیزی کے ختم ہونے کا سبب ہوگی لیکن آج ہم اس کا بالکل الٹا اثر دیکھ رہے ہیں ۔
صہیونیوں نے یہود ستیزی سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ہٹلر کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا ، ماریس ارنسٹ رفیوجی اور ملک بدری امور سے متعلق بین الاقوامی ادارہ روزولٹ کے نمائندہ اس بارے میں کہتے ہیں :
جب یہودیوں کے لئے میں جرمنی میں ایک امن و سکون کی جگہ تلاش کر رہا تھا اس وقت یہودی میرے اس کام کے خلاف تھے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے حتی شدت کے ساتھ میرے اوپر حملہ آور تھے ۔
صہیونیت کا نفاق اس وقت واضح ہوتا ہے جب آڈلف ایشمن نازیوں کا ایک سربراہ فلسطین جاتاہے اور یہود ایجنسی کے سربراہوں جیسے بن گارین ، ٹڈی کوکل وغیرہ سے ملاقات کرتا ہے جسکے بموجب ان لوگوں نے نازیوں سے ٹرانسفر کے توافق کے تحت ایک قرارداد پر بھی دستخط کئیے تاکہ وہ یہودی جو فلسطین ہجرت کر کے جانا چاہتے ہیں وہ اپنے سرمایہ کو منتقل کر سکیں جبکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہودیوں نے جرمنی پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں ۔
جوبات مسلم ہے وہ یہ کہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کی خاطر دنیا میں بہت سے یہودیوں کو صہیونزم کے جعلی یہود ستیزی کے ڈرامہ کا شکار ہونا پڑا ۔
Alison Weir
Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

انتظار کیوں اور کیسے؟

  • ۴۵۱

بقلم نجیب الحسن زیدی

جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالی الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لیے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام ع کی سلامتی کی دعاوں اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں بلکہ انسان اپنے وجود کے سلسلہ سے اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا، انسان طالب چین و سکون ہے ، اسے تحفظ چاہیے ، اسے امن چاہیے اسے مشکلوں سے نجات چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے۔
ادیان ومذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:
شک نہیں کہ ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے ؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے
اس لئے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے یہ بہت اہم اس لئے ہے کہ اس کے سلسلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔
عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال :
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئے گا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدو جہد نہیں کر پاتی۔
جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لیے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دیتا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتظار کہتے کسے ہیں؟
مفہوم انتظار
لغت میں انت‍ظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئے چشم براہ ہو نے کے بیان ہوئے ہیں ۔
انتظار روح کی ایسی کیفیت ہے جو انسان کی آمادگی کا سبب بنتی ہے جبکہ اس کے مخالف مفہوم مایوسی کا ہے جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنا ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا
انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورت حال سے راضی نہیں ہے اورظلم و جور کا مخالف ہے لہذا ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اوراپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے سے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے۔
اس لئے کہ ”انتظار“ ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو مگر ایک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے۔
ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے ۔ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔اسکا انداز مختلف ہے۔
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اورہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تواسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی منتظر نہیں ۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے ، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے اس لئے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جائے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی، کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے۔
جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فوجی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسوئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی سیاسی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔
البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اور آمادہ و تیار ہوں فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قومیت ،نسل پرستی و عصبیت کے، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں ہیں ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔ہم سب الگ الگ نسلوں ،خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس
اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کے باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ کیا ،یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا کے ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ ہے ،اس لئے کہ وہ حقیقی منتظر ہیں اور انہیں پتہ ہے کب کیا کرنا ہے ۔

 

سامراجیت کے لیے بہائیت کی بے لوث خدمات

  • ۶۵۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ بہائیت نے جو سامراجی نظام خصوصا برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں اس کی ایک مثال پہلی جنگ عظیم میں عثمانی بادشاہت کی سرنگونی کی غرض سے برطانیہ کے لیے جاسوسی تھی جس کے بدلے میں انہیں کافی مراعات ملیں۔
’شوقی افندی‘ کے بقول صہیونیت کی حاکمیت کے دوران بہائی اوقاف کے نام سے فلسطین میں ایک شاخ قائم کی گئی کہ جس سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ بہائیوں کے مقدس مقام کے نام پر دنیا بھر سے جو کچھ فلسطین آتا تھا وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس سے معاف ہوتا تھا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ صہیونی یہودی، فلسطین کو برطانیہ کے قبضے سے الگ کروانے سے پہلے سلطان عبد الحمید کے پاس گئے، اور انہیں مختلف وعدے دے کر ان کی رضایت کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور ان سے اس سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن چونکہ انہوں نے اس معاملے میں یہودیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا اسی وجہ سے ان سے اس سرزمین کی حاکمیت چھین لی گئی۔
سلطان عبد الحمید چونکہ بہائیوں اور انگریزوں کے باہمی پروپیگنڈوں سے آگاہ ہو گئے تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنی سلطنت کے خاتمے سے قبل بہائیوں کے سربراہ کے قتل اور اس کی نابودی کا حکم دے دیا۔ شوقی افندی اپنی کتاب ’قرن بدیع‘ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ عثمانی حکمران ’جمال پاشا‘ نے ’عباس افندی‘ کو جاسوسی کے جرم میں قتل کی دھمکی دی۔
اس بار بھی برطانیہ بہائیوں کی فریاد کو پہونچتا ہے اور ان کی خدمتوں کا صلہ دیتے ہوئے ’’لورڈ بالفور‘‘ فلسطین میں برطانیہ کے جنگی کمانڈر ’اللنبی‘ کو ایک خط کے ذریعے حکم دیتا ہے کہ ’عبد البہاء‘ (عباس افندی) اور اس کے خاندان کو فوج کی حمایت میں رکھے اور ہر طرح کے خطرے اور گزند سے محفوظ رکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے قیام کے بعد ’عباس افندی‘ کی خدمتوں کا بدلہ دیتے ہوئے اسی برطانوی جنرل نے انہیں (sir) کا لقب دیا۔
کچھ عرصے کے بعد جب عباس افندی فوت کر جاتے ہیں تو فلسطین میں برطانوی کمیشنر اور معروف صہیونی شخصیت ’سر ہربٹ ساموئل‘ برطانیہ کی جانب سے افندی کے خاندان کو تسلیت پیش کرتے ہیں اور بذات خود افندی کے تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔
عباس افندی کے بعد شوقی افندی بہائیت کی سربراہی کی لگام کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
ماخذ
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

اسرائیل کی تشکیل اور بہائیت و صہیونیت کے گہرے تعلقات

  • ۶۴۱

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائی فرقہ اگرچہ ابتدائے وجود سے ہی یہودیوں سے وابستہ تھا لیکن یہ گہرے تعلقات اس وقت وجود میں آئے جب یہ فرقہ ’روسی زارشاہی‘ سے جدا ہوا اور برطانوی سامراج سے جڑ گیا اور اس کے بانیان نے فلسطین میں سکونت اختیار کر لی۔ خیال رہے کہ فلسطین اس دور میں برطانوی قبضے میں تھا۔ ۱۹۴۸ میں برطانوی استعماری حکومت کی کوششوں اور فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی۔ ہم اس مختصر تحریر میں بہائیت اور صہیونیت کے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ ’میرزا حسین علی نوری‘ یا وہی ’بہاء اللہ‘ نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ خوشخبری اور بشارت دی تھی کہ یہودی حکومت تشکیل پائے گی اور سرزمین موعود یعنی فلسطین میں دوبارہ بنی اسرائیل کو عزت و سربلندی حاصل ہو گی۔ یہ دعویٰ اس قدر واضح تھا کہ حتیٰ اطالوی اخباروں نے بھی اس دور میں اس خبر کو شائع کیا۔
بہاء اللہ کے جانشین ’عباس افندی‘ اپنے باپ کی طرح بعض یہودی سربراہان جیسے ’اسحاق بن زوی‘ کے ساتھ ۱۹۰۹،۱۰ عیسوی کے دوران یعنی اسرائیل کی تشکیل سے ۴۰ سال قبل ملاقاتیں کرتے رہے اور ان کے مشوروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ وہ صہیونی ریاست کی تشکیل کے بارے میں اپنے ایک پیروکار ’حبیب مؤید‘ کے نام خطاب میں یوں پیش گوئی کرتے ہیں:
’’یہ فلسطین ہے، سرزمین مقدس، عنقریب یہودی قوم اس سرزمین پر واپس پلٹ آئے گی۔ اور داؤودی حکومت اور سلیمانی جاہ و حشمت قائم ہو گی۔ یہ اللہ کے سچے وعدوں میں سے ایک ہے اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ یہودی قوم اللہ کے نزدیک دوبارہ عزیز ہو گی اوردنیا کے تمام یہودی ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔ اور یہ سرزمین ان سے آباد ہو گی‘‘۔
عباس افندی روتھشیلڈ گھرانے سے بھی ملاقات کرتے تھے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے حبیب مؤید کے نام ایک اور خط میں لکھا: ’’مسٹر روتھشیلڈ جرمنی کے ایک ماہر نقاش ہیں۔ انہوں نے حضور مبارک کے تمثال کی تصویر کشی کی ہے اور مجھے دعوت دی ہے کہ میں اس تصویر کے نیچے چند کلمے لکھوں اور وہ اس کا جرمنی میں ترجمہ کر کے شائع کریں‘‘۔
نیز افندی کی زوجہ ’روحیہ ماکسل‘ اپنی کتاب ’’گوہر یکتا‘‘ جو ان کے شوہر کی سوانح حیات پر مبنی ہے میں عباس افندی اور صہیونی رہنما ’موشہ شارٹ‘ کے درمیان گہرے تعلقات کا راز فاش کرتی ہیں۔
عباس افندی نہ صرف صہیونیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے بلکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ مثال کے طور پر بہاء اللہ ایک عیسائی نامہ نگار کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہتے ہیں:
"کچھ دن پہلے، ’کرمل‘ اخبار کے مالک میرے پاس آئے، تو میں نے ان سے کہا کہ اب دینی اور مذہبی تعصب کے خاتمہ کا دور ہے، انہوں نے کہا: یہودی دیگر جگہوں سے آ رہے ہیں اور یہاں زمین خرید رہے ہیں، بینک کھول رہے ہیں، کمپنیاں کھول رہے ہیں، فلسطین کو لینا چاہتے ہیں، اور اس پر سلطنت کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا: یہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سرزمین میں حکومت کریں گے، یہ اللہ کا ارادہ ہے، کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آ پائے گا، دیکھیں سلطان حمید اس جاہ و حشمت کے ساتھ کچھ نہ کر سکے‘‘۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ بہائیوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تعلقات مرزا حسین علی کے دور سے ہی موجود تھے، لیکن عباس افندی کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی آئی۔ خیال رہے کہ عباس افندی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب صہیونی یہودی فلسطین میں یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے بھرپور جد و جہد کر رہے تھے۔
منبع: فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.

 

’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا صہیونی منصوبہ امت مسلمہ کے خلاف بھیانک سازش

  • ۵۶۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت کا “عظیم تر اسرائیل” کا منصوبہ اور اسے پورا کرنے کا عزم پوری امت مسلمہ کے خلاف ایک نہایت بھیانک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو اسرائیلی قومی دستاویزات اور پالیسیوں میں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران اور علمائے دین و دانشور اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ منصوبہ محض کتابی ہے یا صرف پروپیگنڈہ ہے وہ اپنے کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور عالمی صہیونیت کے لیڈر اس دعویٰ پر پوری ضد سے قائم ہیں۔ وہ عظیم تر اسرائیل کو اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں اور وقتا فوقتا اس کا برسر عام بھی اعلان کرتے ہیں۔ سپین کے مشہور میڈرڈ میں ۱۹۹۱ء میں جب اسرائیلیوں اور عربوں کے مابین “مشرق وسطیٰ کانفرنس” کو شروع ہوئے چھ دن گزرے تھے تو روزنامہ دی نیوز نے ۶ نومبر ۱۹۹۱ء کو یہ خبر شائع کی کہ “میڈرڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک شمیر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل اپنی حدود کو ضرور وسیع کرے گا۔ توسیع کا علاقہ جنوب میں مصر سے لے کر شمال میں ترکی تک ہے اور اس میں شام، عراق، سعودی عرب، لبنان اور کویت کا بیشتر حصہ شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ریاستی توسیع کا حق اسرائیل کو ہے اور امریکہ یا سوویت یونین کا اس معاملے میں کوئی حق نہیں۔
عظیم تر اسرائیل کے پرانے نقشے میں جو اسرائیلی رسالوں اور کتابوں میں اکثر ملتا ہے، مدینہ منورہ اسرائیلی حدود میں بتایا گیا ہے اب جدہ اور کچھ اور علاقے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلم دنیا کو تباہی میں دھکیلنا ہے۔ مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے ساتھ اضحاک شمیر کے اعلان کو ملا کر غور کریں تو عظیم اسرائیل کا فتنہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پروفیسر للّی انتھل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “دی زاٹسٹ کنکشن” یعنی مخصوص صہیونی بندھن “نیویارک ۱۹۷۸” میں اسرائیل کی علاقائی توسیع کی حرص کے بارے میں یہ فکر انگیز جملہ لکھا ہے۔ “علاقائی توسیع کے صہیونی عزائم کی کوئی حد نہیں” یہ تبصرہ اور پروفیسر گاروڈی کا تبصرہ کہ “صہیونی ریاست اب تک ہر وہ مقصد پورا کرتی رہی ہے جس کا عزم اس نے برملا کیا تھا۔ حالانکہ اس کے کئی مقاصد دیومالائی اور فرضی تھے دیوانہ پن اور قیاس پر مبنی تھے تمام مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ “عظیم تر اسرائیل” بنانے کی غرض سے اسرائیل نے ابھی تک اپنی ریاستی باؤنڈری یعنی زمینی حدود کو غیر متعین اور غیر واضح رکھا ہوا ہے جس طرح صہیونی لیڈروں نے دھوکے، دھشت گردی، حکمرانوں پہ دباؤ اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک فرضی دعویٰ پر اسرائیل قائم اور تسلیم کروایا انہیں ہتھکنڈوں سے وہ “عظیم تر اسرائیل” کو تسلیم کروانے اور قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا سنگین اور ناقابل تلافی غلطی کا ارتکاب ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا عظیم تر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اشد ضروری ہے کہ مسلم حکمران تدبر و حکمت سے کام لیں۔ ظلم و فریب سے بنی ہوئی جعلی اسرائیلی ریاست کو کسی قیمت پر قبول کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی قیمت پر اسلامی حکمرانوں کی صلاح میں نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں صہیونیت کے مہا منصوبے کے مطابق مسلم ممالک میں مزید طوفانی بحران اٹھنے والے ہیں ان کا سامنا کرنے کے لیے مسلم ممالک میں باہمی اتحاد اور ہر مسلم ملک میں حکام اور عوام کی یکجہتی بہت ضروری ہے۔ مسلم عوام کو اسرائیل کبھی بھی منظور نہیں ہو گا۔ کیونکہ قرآن کریم کی رو سے بھی اس صہیونی ریاست سے مسلمانوں کے تعلقات ممنوع ہیں۔
منبع: اسرائیل کیوں تسلیم کیا جائے، تالیف: محمد شریف ہزاروی

 

عیسائیوں پر یہودیوں کا تشدد

  • ۳۹۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’صہیونیسٹ کونسل آف امریکہ‘‘ کی تشکیل کے بعد اس کونسل نے صہیونیسٹ کے خفیہ بجٹ سے دو کمیٹیوں بنام ’’امریکی فلسطینی کمیٹی‘‘ (۱)اور ’’فلسطینی عیسائی کونسل‘‘(۲) کو جنم دیا تاکہ وہ اس طریقے سے امریکہ کے رہنے والے عیسائیوں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ دو کمیٹیاں پہلی عالمی جنگ سے قبل امریکہ کے ہزاروں عیسائی افراد کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
عیسائیوں کی صہیونی سیاستوں کے تئیں حمایت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ غریب اور فقیر عوام کی مدد کرنا چاہتے تھے اور چونکہ صہیونی ہمیشہ مختلف ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کی ابتر حالت کا ڈنڈھورا پیٹتے تھے اور ان کو ستم دیدہ اور مظلوم افراد ظاہر کرتے تھے کہ ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے سر چھپانے کے لیے مکان نہیں ہیں۔
ڈونالڈ نیف(۳) ۱۴ مئی ۱۹۴۸میں صہیونیوں کے عیسائی بستیوں پر کئے گئے حملے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’عیسائیوں کے بعض گروہ اس بات کی شکایت کرتے تھے کہ مئی کے مہینے میں صہیونیوں نے عیسائیوں کے کلیساؤں اور انسان دوستانہ اداروں پر حملہ کر کے سینکڑوں بچوں، بے سہارا لوگوں اور پادریوں کو تہہ تیغ اور زخمی کیا تھا۔ مثال کے طور پر ان عیسائی رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ بہت سارے بچوں کو یہودیوں کی طرف سے آرتھوڈوکس کاپیک کنونٹ( Orthodox Coptic Convent) نے گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
نیف ایک کیتھولک پادری کی زبان سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہودی فوجیوں نے ہمارے چرچ کے دروازوں کو جلا دیا اور چرچ کی تمام قیمتی اور مقدس چیزوں کو چرا لیا۔ انہوں نے اس کے بعد حضرت مسیح کے مجسموں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ یہ اس حال میں ہے کہ یہودیوں کے رہنماؤں نے اس سے قبل اس بات کی ضمانت دی ہوئی تھی کہ مذہبی عمارتوں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی نہیں کریں گے۔ لیکن ان کا کردار کسی بھی اعتبار سے ان کی گفتار کے مطابق نہیں تھا‘‘۔
مآخذ:
۱۔ amercan palestine committce
۲۔ chistian council on palestine
۳۔ Donald Neff بیت المقدس میں مجلہ ٹائمز کے سابق سربراہ

 

 

اسرائیل سیکولر طبقہ و مذہبی عناصر کے درمیان بڑھتی خلیج

  • ۴۱۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطینی سرزمینوں پر اسرائیل کے نام پر صہیونی حکومت میں پڑنے والی دراڑوں کی بنیاد پر یہ بات مشہور ہے کہ صہیونی معاشرہ میں آج مذہبی طرز فکر اور سکولرطبقہ کے درمیان شگاف کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ این مختلف قسم کی دراڑوں میں مذہبی خیالات کے حامل لوگوں اور سیکولیرزم کے حامیوں کے درمیان واضح پھوٹ اور انکے درمیاں بڑھتی قابل غور خلیج حکومت کے لیے بہت سے چلینجز کا سبب بنی ہے اور ایسے موضوعات کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے مشکلات و دشواریوں کے جنم لینے کا سبب ہیں ہم ان مختلف مشکلات و چیلنجز میں سے دو کو بیان کر رہے ہیں :
الف) دینی قوانین و دستورات کا مسئلہ :
آج بر سر اقتدار حکومت وقت اور لوگوں کے درمیان یہ سوال پایا جاتاہے کہ اقتدار یھود کے ہاتھ میں رہنا چاہیے یا پھر یہودیوں کے ہاتھ میں؟ یہ مشکل اس بات کا سبب بنی ہے کہ حکومت وقت کے سامنے ایک تشخص و اعتبار کا بحران سامنے آئےجبکہ حکومت وقت ایک طرف تو اس کوشش میں ہے کہ اپنے آپکو سیکولر طرز فکر کے حامل کے طور پر پیش کرے دوسری طرف حکومت کے ستونوں اور دین کے رول کے درمیان بہت سے اختلافات کا بھی اسے سامنا ہے ۔ چنانچہ صہیونی حکومت کی قانونی حیثیت اور اسکا اعتبار و جواز یہودیوں کی دینی میراث کے اعتبار سے ٹکرا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی صہیونی حکومت کا اعتبار و یہودیوں کی دینی میراث کا اعتبار آپس میں تناقض آمیز نظر آ رہی ہیں ، اسی طرح روایتی یہودی طرز فکر میں حکومت کے سلسلہ میں دین کی اولویت اس دکھاوے سے بر سر پیکار ہے جس میں حکومت کی جانب سے سیکولر طرز فکر کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات ہوتی ہے یعنی ایک طرف روایتی یہودی ہیں جو دین کی اولویت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت ہے جو سیکولرزم کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات کرتی ہے جسکی بنیاد پر یہ تناقض اور بھی واضح ہو کر ابھر رہا ہے اور اس سلسلہ سے مختلف تنقیدوں اور بحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ نظریاتی تناقضات اور آپسی ٹکراو اس وقت میدان عمل میں آگے کے راستہ کو اپنے لئیے بند پاتے ہیں جب صہیونی حکومت کے نسل پرستانہ و قوم پرستانہ طبقاتی سلسلوں کا سامنا یہودیوں کے قوم پرستانہ کلچر سے اشکنازیوں ، سفاردیوں اور آفریقی یہودیوں نیز فلسطینی کی سرزمینوں پر رہایش پذیر اعراب سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ دوسرے درجہ اور تیسرے درجہ کے یہودیوں اور وہاں رہایش پذیر عربوں کے اوپر حکومتی مشینریوں کی جانب سے ظلم روا رکھا جاتا ہے تو یہ ظلم اپنے آپ پہلے سے پائے جانے نظریاتی شگاف کو اور بھی دائمی و عمیق بنا دیتا ہے ۔
ب) چھوٹ اور امتیاز:
چاہے وہ دینی و مذہبی تنطیمیں اور پارٹیاں ہوں یا حریدی ہوں ان سبھی نے حکومتوں کے ساتھ اتحاد و جوڑ توڑ کر کے مذہبی خیال کے حامل افراد کے لیے بہت سے امتیازات حاصل کئیے ہیں اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اختلافات کے مزید بڑھنے کا سبب بنا ہے این اہم امتیازات میں ایک امتیاز یشیوا نامی مدارس کے تمام بچوں اور تمام مذہبی لڑکیوں کا فوج میں خدمت سے معاف ہونا ہے ۔
یہ فوج میں خدمت کا قانون وہ قانون ہے جس سے صہیونویوں کی جدید نسل بھاگ رہی ہے اور خاص کر حزب اللہ لبنان ، حماس اور جہاد اسلامی سے آخر کی ہونے والی چار لڑائیوں میں اسرائیل کو ملنے والی شکست کی بنیاد پر بعض جوانوں میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کی خدمت سے چھٹکارا چاہتے ہیں نتیجہ میں یہ شگاف بڑھتا جا رہا ہے ۔
علاوہ از ایں، بڑے اور وسیع گھرانوں یا کثیر العیال گھرانوں کی حکومت وقت کی طرف سے حمایت مذہبیوں کے درمیان عام ہے اور دینی مدارس و طلاب کی مالی مدد ایک اور ایسا امتیاز ہے جو سیکولر طبقہ کی اس اصل سے متضاد ہے جس کے بموجب تمام شہری برابر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں میں اس سلسلہ سے ہونے والے اعتراضات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ سیکولر و مذہبی طبقہ کے درمیان پائے جانے والے اس شگاف کے اور بھی اسباب ہیں جو اپنی جگہ لائق توجہ ہیں ۔