-
Sunday, 29 March 2020، 10:32 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطینی سرزمینوں پر اسرائیل کے نام پر صہیونی حکومت میں پڑنے والی دراڑوں کی بنیاد پر یہ بات مشہور ہے کہ صہیونی معاشرہ میں آج مذہبی طرز فکر اور سکولرطبقہ کے درمیان شگاف کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ این مختلف قسم کی دراڑوں میں مذہبی خیالات کے حامل لوگوں اور سیکولیرزم کے حامیوں کے درمیان واضح پھوٹ اور انکے درمیاں بڑھتی قابل غور خلیج حکومت کے لیے بہت سے چلینجز کا سبب بنی ہے اور ایسے موضوعات کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے مشکلات و دشواریوں کے جنم لینے کا سبب ہیں ہم ان مختلف مشکلات و چیلنجز میں سے دو کو بیان کر رہے ہیں :
الف) دینی قوانین و دستورات کا مسئلہ :
آج بر سر اقتدار حکومت وقت اور لوگوں کے درمیان یہ سوال پایا جاتاہے کہ اقتدار یھود کے ہاتھ میں رہنا چاہیے یا پھر یہودیوں کے ہاتھ میں؟ یہ مشکل اس بات کا سبب بنی ہے کہ حکومت وقت کے سامنے ایک تشخص و اعتبار کا بحران سامنے آئےجبکہ حکومت وقت ایک طرف تو اس کوشش میں ہے کہ اپنے آپکو سیکولر طرز فکر کے حامل کے طور پر پیش کرے دوسری طرف حکومت کے ستونوں اور دین کے رول کے درمیان بہت سے اختلافات کا بھی اسے سامنا ہے ۔ چنانچہ صہیونی حکومت کی قانونی حیثیت اور اسکا اعتبار و جواز یہودیوں کی دینی میراث کے اعتبار سے ٹکرا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی صہیونی حکومت کا اعتبار و یہودیوں کی دینی میراث کا اعتبار آپس میں تناقض آمیز نظر آ رہی ہیں ، اسی طرح روایتی یہودی طرز فکر میں حکومت کے سلسلہ میں دین کی اولویت اس دکھاوے سے بر سر پیکار ہے جس میں حکومت کی جانب سے سیکولر طرز فکر کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات ہوتی ہے یعنی ایک طرف روایتی یہودی ہیں جو دین کی اولویت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت ہے جو سیکولرزم کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات کرتی ہے جسکی بنیاد پر یہ تناقض اور بھی واضح ہو کر ابھر رہا ہے اور اس سلسلہ سے مختلف تنقیدوں اور بحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ نظریاتی تناقضات اور آپسی ٹکراو اس وقت میدان عمل میں آگے کے راستہ کو اپنے لئیے بند پاتے ہیں جب صہیونی حکومت کے نسل پرستانہ و قوم پرستانہ طبقاتی سلسلوں کا سامنا یہودیوں کے قوم پرستانہ کلچر سے اشکنازیوں ، سفاردیوں اور آفریقی یہودیوں نیز فلسطینی کی سرزمینوں پر رہایش پذیر اعراب سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ دوسرے درجہ اور تیسرے درجہ کے یہودیوں اور وہاں رہایش پذیر عربوں کے اوپر حکومتی مشینریوں کی جانب سے ظلم روا رکھا جاتا ہے تو یہ ظلم اپنے آپ پہلے سے پائے جانے نظریاتی شگاف کو اور بھی دائمی و عمیق بنا دیتا ہے ۔
ب) چھوٹ اور امتیاز:
چاہے وہ دینی و مذہبی تنطیمیں اور پارٹیاں ہوں یا حریدی ہوں ان سبھی نے حکومتوں کے ساتھ اتحاد و جوڑ توڑ کر کے مذہبی خیال کے حامل افراد کے لیے بہت سے امتیازات حاصل کئیے ہیں اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اختلافات کے مزید بڑھنے کا سبب بنا ہے این اہم امتیازات میں ایک امتیاز یشیوا نامی مدارس کے تمام بچوں اور تمام مذہبی لڑکیوں کا فوج میں خدمت سے معاف ہونا ہے ۔
یہ فوج میں خدمت کا قانون وہ قانون ہے جس سے صہیونویوں کی جدید نسل بھاگ رہی ہے اور خاص کر حزب اللہ لبنان ، حماس اور جہاد اسلامی سے آخر کی ہونے والی چار لڑائیوں میں اسرائیل کو ملنے والی شکست کی بنیاد پر بعض جوانوں میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کی خدمت سے چھٹکارا چاہتے ہیں نتیجہ میں یہ شگاف بڑھتا جا رہا ہے ۔
علاوہ از ایں، بڑے اور وسیع گھرانوں یا کثیر العیال گھرانوں کی حکومت وقت کی طرف سے حمایت مذہبیوں کے درمیان عام ہے اور دینی مدارس و طلاب کی مالی مدد ایک اور ایسا امتیاز ہے جو سیکولر طبقہ کی اس اصل سے متضاد ہے جس کے بموجب تمام شہری برابر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں میں اس سلسلہ سے ہونے والے اعتراضات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ سیکولر و مذہبی طبقہ کے درمیان پائے جانے والے اس شگاف کے اور بھی اسباب ہیں جو اپنی جگہ لائق توجہ ہیں ۔