-
Sunday, 5 April 2020، 04:47 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ “ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر) یہ عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو”۔ صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح) ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔ دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوششیں کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔ بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔ بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ اسرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر ۱۹۸۶ میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹ کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما ۱۹۴۸/۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۸ کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کررہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں اور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
۲۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے)
۳۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
۴۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے) ارضِ اسرائیل کی توسیع
۵۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)