-
Friday, 3 April 2020، 01:08 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے اندر معاشرتی دراڑیں مختلف سطحوں پر اور مختلف پہلووں میں پائی جا رہی ہیں، جبکہ سیاسی مشینریاں بعض دراڑوں کو عمیق بنانے میں جیسے قومی دراڑ و شگاف اور مذہبی و سیکولر طبقے کے درمیان بڑھتی خلیج کے باقی رکھنے میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم چار طرح کے قابل ذکر شگاف صہیونی معاشرہ میں پائے جا رہے ہیں ، یہ شگاف حسب ذیل ہیں :
۱۔ اعراب و یہودیوں کے درمیان تاریخی اور قومی شگاف
۲۔ یہودیوں کے درمیان نسلی شگاف
۳۔ یہودیوں کے درمیان دینی شگاف
۴۔ صہیونی سماج میں طبقاتی شگاف
یہ وہ دراڑیں ہیں جو بعض جگہوں پر ایک دوسرے کی شدت کا سبب بن رہی ہیں اور صہیونی رژیم کی آبادی کی تقسیم اس بات کا سبب بنی ہے کہ ان دراڑوں میں اور بھی گہرائی پیدا ہو چنانچہ صہیونی صدر جوکہ ہرتزلیا کانفرنس ۲۰۱۵ء میں اس کانفرنس کے بنیادی و اصلی مقررین کے طور پر مدعو تھا خود اس نے ہی صہیونی معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر پائے جانے والی دراڑوں اور وہاںک کے آپسی اختلافات و تفرقوں کو ایک بڑے خطرہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ان دراڑوں اور تفرقوں کے وجود کا اعتراف کیا ۔ روئن ریولین نے اس کانفرنس میں کہا : گزشتہ ۹۰ کی دہائی میں اسرائیلی معاشرہ ایک بڑی اکثریت و چھوٹی اقلیت سے تشکیل پاتا تھا جس میں اکثریت کا تعلق صہیونیوں سے تھا جو کہ تین اقلتیوں ، مذہبی صہیونیوں، عربوں اور افراطی آرتھوڈکسوں حریدیوں کے ساتھ اسرائیل سماج کو تشکیل دیتا تھا ۔ شاید آج بھی اسرائیل میں بہت سے لوگ یہ سوچتے ہوں اور ذرائع ابلاغ اور اسرائیل نظام کے لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اسرائیلی سماج اب بھی اپنی پرانی حالت پر ہے ۔لیکن اس وقت سے لیکر اب تک حقیقت بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے فی الحال صورت حال یہ ہے کہ پہلے درجہ کے شہری سیکولر صہیونی ۳۸ فیصد قوم پرست و مذہبی۱۵ فیصد ۲۵ فیصد عرب اور ۲۵ فیصد افراطی آرتھوڈکس ہیں بہرحال آبادی کی بناوٹ کی تبدیلی ایک ایسی حقیقت ہے جو آج اسرائیل کے موجودہ چہرہ کو پیش کر رہی ہے اور اس موجودہ صورت حال میں حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور کوئی اقلیت چھوٹی نہیں ہے۔