’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا صہیونی منصوبہ امت مسلمہ کے خلاف بھیانک سازش

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت کا “عظیم تر اسرائیل” کا منصوبہ اور اسے پورا کرنے کا عزم پوری امت مسلمہ کے خلاف ایک نہایت بھیانک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو اسرائیلی قومی دستاویزات اور پالیسیوں میں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران اور علمائے دین و دانشور اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ منصوبہ محض کتابی ہے یا صرف پروپیگنڈہ ہے وہ اپنے کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور عالمی صہیونیت کے لیڈر اس دعویٰ پر پوری ضد سے قائم ہیں۔ وہ عظیم تر اسرائیل کو اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں اور وقتا فوقتا اس کا برسر عام بھی اعلان کرتے ہیں۔ سپین کے مشہور میڈرڈ میں ۱۹۹۱ء میں جب اسرائیلیوں اور عربوں کے مابین “مشرق وسطیٰ کانفرنس” کو شروع ہوئے چھ دن گزرے تھے تو روزنامہ دی نیوز نے ۶ نومبر ۱۹۹۱ء کو یہ خبر شائع کی کہ “میڈرڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک شمیر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل اپنی حدود کو ضرور وسیع کرے گا۔ توسیع کا علاقہ جنوب میں مصر سے لے کر شمال میں ترکی تک ہے اور اس میں شام، عراق، سعودی عرب، لبنان اور کویت کا بیشتر حصہ شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ریاستی توسیع کا حق اسرائیل کو ہے اور امریکہ یا سوویت یونین کا اس معاملے میں کوئی حق نہیں۔
عظیم تر اسرائیل کے پرانے نقشے میں جو اسرائیلی رسالوں اور کتابوں میں اکثر ملتا ہے، مدینہ منورہ اسرائیلی حدود میں بتایا گیا ہے اب جدہ اور کچھ اور علاقے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلم دنیا کو تباہی میں دھکیلنا ہے۔ مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے ساتھ اضحاک شمیر کے اعلان کو ملا کر غور کریں تو عظیم اسرائیل کا فتنہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پروفیسر للّی انتھل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “دی زاٹسٹ کنکشن” یعنی مخصوص صہیونی بندھن “نیویارک ۱۹۷۸” میں اسرائیل کی علاقائی توسیع کی حرص کے بارے میں یہ فکر انگیز جملہ لکھا ہے۔ “علاقائی توسیع کے صہیونی عزائم کی کوئی حد نہیں” یہ تبصرہ اور پروفیسر گاروڈی کا تبصرہ کہ “صہیونی ریاست اب تک ہر وہ مقصد پورا کرتی رہی ہے جس کا عزم اس نے برملا کیا تھا۔ حالانکہ اس کے کئی مقاصد دیومالائی اور فرضی تھے دیوانہ پن اور قیاس پر مبنی تھے تمام مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ “عظیم تر اسرائیل” بنانے کی غرض سے اسرائیل نے ابھی تک اپنی ریاستی باؤنڈری یعنی زمینی حدود کو غیر متعین اور غیر واضح رکھا ہوا ہے جس طرح صہیونی لیڈروں نے دھوکے، دھشت گردی، حکمرانوں پہ دباؤ اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک فرضی دعویٰ پر اسرائیل قائم اور تسلیم کروایا انہیں ہتھکنڈوں سے وہ “عظیم تر اسرائیل” کو تسلیم کروانے اور قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا سنگین اور ناقابل تلافی غلطی کا ارتکاب ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا عظیم تر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اشد ضروری ہے کہ مسلم حکمران تدبر و حکمت سے کام لیں۔ ظلم و فریب سے بنی ہوئی جعلی اسرائیلی ریاست کو کسی قیمت پر قبول کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی قیمت پر اسلامی حکمرانوں کی صلاح میں نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں صہیونیت کے مہا منصوبے کے مطابق مسلم ممالک میں مزید طوفانی بحران اٹھنے والے ہیں ان کا سامنا کرنے کے لیے مسلم ممالک میں باہمی اتحاد اور ہر مسلم ملک میں حکام اور عوام کی یکجہتی بہت ضروری ہے۔ مسلم عوام کو اسرائیل کبھی بھی منظور نہیں ہو گا۔ کیونکہ قرآن کریم کی رو سے بھی اس صہیونی ریاست سے مسلمانوں کے تعلقات ممنوع ہیں۔
منبع: اسرائیل کیوں تسلیم کیا جائے، تالیف: محمد شریف ہزاروی

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی