سی آئی اے پر عدم اعتماد کے اسباب

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ماضی میں مرکزی جاسوسی ادارہ (CIA) وفاقی ادارہ تفتیش (FBI)، قومی سلامتی ایجنسی (NSA) پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
ہلسنکی (Helsinki) میں ٹرمپ ـ پیوٹن ملاقات کے بعد، ٹرمپ کو روسی صدر کے سامنے اپنے ہی ملک کے سراغرساں اداروں پر تنقید کی بنا پر ذرائع ابلاغ کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ نے بھی ماضی میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور این ایس اے پر تنقید کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکی سرکاری اداروں میں اعتماد کا خاتمہ ہورہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کیا کسی قسم کا کوئی اعتماد ان اداروں میں موجود تھا؟
یہاں ہم ایسے دس حقائق بیان کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے سی آئی پر اعتماد ممکن نہیں رہتا اور یہ کہ جو کچھ بھی سی آئی اے یا کسی بھی جاسوسی ادارے نے آج تک کہا ہے، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
۱۔ آپریشن پیپر کلپ
(۱) (۲) سنہ ۱۹۴۵ع‍ میں اتحادیوں نے دیکھا کہ جرمنی دو محاذوں میں پیشقدمی کررہا ہے، امریکہ نے امریکہ کی “مشترکہ انٹیلی جنس مقاصد ایجنسی (Joint Intelligence Objectives Agency [JIOA])” نے دوسری عالمی جنگ کے بعد، سی آئی سی (Counterintelligence Corps) کی فورسز کے ذریعے “آپریشن پیپیر کلپ Operation paperclip” کے دوران جرمنی کے ۱۶۰۰ سائنس دانوں، انجینئروں اور ٹیکنیکل عملے کو خفیہ طور پر جرمنی سے امریکہ منتقل کیا۔ یہ لوگ جرمنی کی راکٹ اور کیمیاوی ٹیکنالوجی کے ماہرین اور ان میں سے متعدد افراد کا تعلق ہٹلر کی نازی جماعت سے تھا۔ ان میں ایسے افراد بھی تھے جو زندہ انسانوں پر مختلف قسم کے تجربات کرنے کے ماہر تھے۔ ان لوگوں کو امریکی تجربہ گاہوں میں غیر روایتی اسلحہ بنانے کے کام پر لگایا۔ واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے وقت جرمنی کو راکٹ سازی میں ساری دنیا پر برتری حاصل تھی۔ جنگ کے بعد جرمنی کے سائنسدانوں کو اپنے اپنے ملک میں لے جانے کے لیے امریکا اور روس کے بھی دوڑ سی لگ گئی تھی۔
۲۔ نارتھ ووڈز کاروائی
سی آئی کو جن اہم الزامات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک “جھوٹے جھنڈوں کے حملوں” سے عبارت ہے۔ سی آئی اے اور امریکی وزارت دفاع کے مشترکہ حملوں کا مقصد تھا کہ اپنے امریکی شہریوں اور فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرکے ان کا الزام کیوبا کے سر تھونپ دیا جائے اور یوں کیوبا کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جائے۔ کینڈی نے اس زمانے میں اس منصوبے کو ویٹو کردیا لیکن آج پچاس سال بعد امریکہ میں جان ایف کینڈی (John F. Kennedy) جیسا کوئی عاقبت اندیش شخص نہیں ہے جو نفسیاتی مریضوں کے منصوبوں کو ویٹو کرے۔
۳۔ سیلواڈور آلیندے کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۷۰ع‍ میں لاطینی امریکی ملک کے عوام نے سیلواڈور آلیندے (Salvador Allende) کو اپنے راہنما کے طور پر منتخب کیا۔ وہ جنوبی امریکی میں منتخب ہونے والے پہلے سوشلسٹ صدر تھے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن (Richard Nixon) نے فوری طور ان کے خلاف معاشی جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ بےاثر رہی اور آلیندے نے ۱۹۷۳ کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت کی نشستوں میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرلیں۔ جس پر امریکی سی آئی نے جنرل آگسٹو پنوشے (Augusto Pinochet) کے ذریعے فوجی بغاوت کروائی۔ پنوشے ایک فاشسٹ آمر تھے جنہوں نے ہزاروں ہموطنوں کا قتل عام کیا لیکن مغربی حکام اس کو پسند کرتے تھے۔
۴۔ ڈاکٹر مصدق کے خلاف بغاوت:
سنہ ۱۹۵۳ع‍ میں ایران کے وزیر اعظم محمد مصدق ایک سوشل ڈموکریٹ شخص تھے جنہوں نے برطانوی ـ ایرانی تیل کمپنی کی آمدنی کی ایران کو پلٹانے کا مطالبہ کیا اور کسی حد تک ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ ایران کے تیل پر بیرونی تسلط کم کیا جائے۔ برسراقتدار آنے کے چند مہینے بعد ہی سی آئی کے کی کاروائی آجاکس ( Operation Ajax) اور فوجی بغاوت کے ذریعے محمد مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا اور ملک کے تمام معاملات شاہ ایران محمد رضا پہلوی کے سپرد کئے گئے۔
۵۔ آپریشن ماکنگ برڈ:
آپریشن ماکنگ برڈ (Operation Mockingbird) سی آئی کا وسیع و عریض منصوبہ تھا جو ۱۹۵۰ع‍ کی دہائی کے آغاز سے ہی ذرائع ابلاغ پر تسلط پانے کی غرض سے شروع ہوا تھا۔ منصوبے کے تحت پورے ملک کے اخبارنویسوں کو قابو میں لانا اور انہیں تربیت دینا اور ان کے ذریعے امریکی حکومت کی تشہیری مہم کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ خفیہ منصوبہ ۱۹۷۶ میں طشت از بام ہوا تو اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی نے دعوی کیا کہ سی آئی کا ذرائع ابلاغ، اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورکس نیز ریڈیو سروسز سے کوئی تعلق نہیں ہے!!
۶۔ لوگوں کی گفتگو چپکے سے سننا
لوگوں کے مکالمات کو چپکے سے سننے (Eavesdropping) کا مسئلہ آج کل امریکہ میں [بھی اور امریکیوں کے ذریعے دنیا بھر میں بھی] اٹھا ہوا ہے اور اکثر و بیشتر ذرائع اس کے بارے میں بات کررہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی (NSA) پوری دنیا کے لوگوں کی باہمی گفتگؤوں کو چپکے سے سن رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ ایڈورڈ سنوڈن (Edward Snowden) نے اس امریکی جرم کو فاش کردیا ہے۔ جب یہ بات سامنے آئی تو این ایس اے اور سی آئی کے نمائندوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ حتی جب امریکی کانگریس میں عوامی نمائندوں نے ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی تو پھر بھی جھوٹ بولتے رہے۔ جب ان کا جھوٹ ثابت ہوا تو انھوں نے اپنے جھوٹ کے لئے جواز پیش کرنا شروع کیا؛ حالانکہ جھوٹ کی توجیہ اور اس کا جواز فراہم کرنا پھر بھی جھوٹ ہی ہے۔ اس وقت بھی کوئی بھی ایسی دستاویز موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ امریکہ اور دنیا میں امریکی ایجنسیوں کے توسط سے لوگوں کی باتیں سننے اور ان کی جاسوسی کرنے کا عمل رک بھی گیا ہے یا نہیں!
۷۔ صحرائی طوفان آپریشن کے لئے ایک لڑکی کا استعمال
سنہ ۱۹۹۰ع‍ میں امریکہ نے صدام کو کویت پر چڑھ دوڑنے کی اجازت دی، کویت پر صدام کا قبضہ ہوا، امریکہ نے اپنی اصل سازش منظر عام پر لاکر عراق پے حملہ کرنے کے لئے بہانہ بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس دوران امریکی ٹیلی ویژن چینلوں میں اچانک ایک نوجوان نرس کو روتے بلبلاتے دکھایا گیا جو کہہ رہی تھی کہ “عراقی سپاہی کویت میں گھس آئے تو انھوں نے ہسپتالوں کا رخ کیا، بیماروں کو قتل کیا، یہی نہیں بلکہ انھوں نے انکیوبیٹرز (incubators) تک کو توڑ دیا اور ان میں موجود بچوں تک کو ہلاک کر ڈالا”۔ بہرصورت امریکہ نے حملہ کیا، کویت سے عراقی افواج کو بھاگنا پڑا اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ لڑکی کوئی نرس نہیں تھی بلکہ امریکہ میں کویتی سفیر “سعود بن ناصر الصباح” کی ۱۵ سالہ بیٹی نیرہ بنت ناصر الصباح تھی جس کو ایک منصوبے کے تحت اور امریکی رائے عامہ کو جنگ کے لئے ہموار کرنے کے لئے ایک کردار سونپا گیا تھا تا کہ صدام کے خلاف “صحرائی طوفان Desert Storm” نامی کاروائی کا آغاز کیا جاسکے۔
۸۔ کو انٹیل پرو
کو انٹیل پرو (COINTELPRO) ـ جو “کاؤنٹر انٹلیجنس پروگرام Counter Inteligence Program” کا مخفف ہے ـ امریکی وفاقی تفتیشی ادارے (FBI) کے جوابی جاسوسی (Counter Intelligence) پروگراموں کو کہتے ہیں۔ اس سلسلے کے پروگرام ایف بی آئی کے خفیہ اور کبھی غیر قانونی منصوبوں میں شامل تھے جو اس ادارے نے اندرون ملک سیاسی اداروں کی جاسوسی کرنے اور ان کے اندر تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں غیر معتبر بنانے کی غرض سے نافذ کئے۔ ان اندرونی اداروں میں انسانی حقوق سے متعلق ادارے، سوشلسٹ تنظیمیں، جنگ ویت نام کے نقادین، کمیونسٹ پارٹی، ماحولیات سے متعلق تنظیمیں اور حقوق نسوان سے متعلق تنظیمیں (Feminist organizations) شامل تھیں۔ کو انٹیل پرو کا مقصد ذرائع ابلاغ کو جعلی رپورٹوں اور جعلی معلومات فراہم کرکے بائیں بازو کے کارکنوں اور تنظیموں کو ناکارہ بنانا تھا۔ ہم سب کو یاد ہے کہ امریکی سینٹر “رینڈ پال Rand Paul” کو ایک “غدار” اور برطانوی لیبر پارٹی کے راہنما “جیریمی کوربین Jeremy Corbyn” کو یہود دشمن (anti-Semitist) قرار دیا گیا۔
۹۔ منصوبہ “ایم کے الٹرا
“منصوبہ ایم کے الٹرا Project MKUltra” انسان کا ذہن بدلنے کے سلسلے میں سی آئی اے کا خفیہ اور غیر قانونی تحقیقاتی منصوبہ تھا۔ امریکی حکومت کا یہ سرکاری منصوبہ سنہ ۱۹۵۳ سے شروع ہوکر ۱۹۷۳ تک جاری رہا۔ اس پروگرام میں عمل تنویم (Hypnotism) اور القاء یا امالۂ جرم (Crime Induction)، تشدد (Torture) کے بارے میں تحقیق، زبانی طور پر ہراساں کرنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں مطالعہ شامل ہے؛ گوکہ ہمارے پاس ان جرائم اور اقدامات کے بارے میں دقیق اور صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
۱۰۔ عراق کی جنگ
سنہ ۲۰۰۳ع‍ کی جنگ اگر خطرناک ترین اور خفیہ ترین کاروائی نہ ہو تو کم از کم شرمناک ترین اور گستاخانہ ترین ضرور ہے۔ ایک جنگ جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے آغاز کی گئی جبکہ سب جانتے تھے کہ ایسے ہتھیار موجود ہی نہیں ہیں لیکن سب نے مل کر جھوٹ بولا۔ صدر نے جھوٹ بولا، نائب صدر نے جھوٹ بولا، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے جھوٹ بولا۔ انھوں نے عوام سے بھی اور اقوام متحدہ سے بھی جھوٹ بولا۔ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ عراقی مارے گئے۔ انھوں نے پیسہ کمانے اور عراق اپنے قابو میں لانے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے اس جنگ کا آغاز کیا۔
ہم امریکیوں کا حکمران طبقہ ایسے نفسیاتی مریضوں اور جنگی مجرموں سے بھرا ہوا ہے جو عوام کو ذرہ برابر بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اپنے بچہ گانہ اور شیطانی سازشوں کو بار بار دہراتے ہیں۔ انھوں نے لیبیا اور عراق پر بھی جنگیں مسلط کردیں۔
ہمارے جمہوری ادارے جھوٹ بولتے ہیں، تا کہ کہیں کسی جنگ کا آغاز کرسکیں۔ وہ اپنے کرتوتوں کے بارے میں سوچتے نہیں ہے، یہ رویہ وہ ایران، شمالی کوریا اور روس کے ساتھ بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف سچائی سے عاری ہیں بلکہ انھوں نے سچ کا ستیاناس کردیا ہے۔
بقلم: رانیا خالق (امریکی فری لانسر، قلمکار اور سیاسی نظریہ پرداز
فارسی ترجمہ: محترمہ مریم فتاحی
اردو ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی