-
Thursday, 23 July 2020، 02:19 AM
-
۴۰۰
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب لیگ ایسا ادارہ ہے جو تقریبا 75 سال قبل عرب دنیا کی اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کیا گیا۔ اس عرب ادارے کے قیام کے بعد، اس کے عہدیداروں نے اعلان کیا کہ عرب ممالک کی علاقائی سالمیت کا تحفظ اور ان کے اتحاد کی حفاظت اس کے اہم مشن میں سے ایک ہے۔
تاہم، پچھلی دہائی یا اس سے زیادہ عرصے میں، عرب لیگ نہ صرف اپنے بیان کردہ اہداف میں سے کسی کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ، بلکہ اس کے برخلاف ، اپنے اہداف کی قطعی مخالف سمت حرکت کرتی رہی ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران ، عرب لیگ کی غیر موثر سرگرمیوں کی وجہ سے ، ہم شام ، عراق ، یمن ، لیبیا ، سمیت عرب دنیا کے مختلف حصوں میں شدید بحرانوں کے ظہور کا مشاہدہ کرتے آ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ، فلسطین کے مسئلے پر عرب لیگ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس مسئلے کے پیچیدہ ہونے کا باعث بنا ہے۔
مسئلہ فلسطین صرف ایک مشغلہ ہے!
عرب لیگ کا فلسطینی مسئلے کو فراموش کرنا ، تنظیم کے عہدیداروں کا اسلامی دنیا اور عرب دنیا کے ساتھ گذشتہ برسوں میں سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ عرب لیگ نے اب تک غاصب صہیونی حکومت کے ذریعے چھینے گئے فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ یونین مقبوضہ علاقوں میں ہونے والی پیشرفت اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کے مخالفانہ اقدامات پر صرف زبانی اور بے سود موقف اختیار کرنے پر اکتفا کرتی رہی ہے۔
بہت سارے ماہرین اور سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطین کا مسئلہ عرب لیگ کے لئے محض ایک مشغلہ بن گیا ہے ، اس طریقے سے کہ یونین کے ممبران وقتا فوقتا فلسطینیوں کے خلاف صیہونی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے چند بیانات جاری کر دیتے ہیں ، لیکن عملی طور پر بے دفاع فلسطینی لوگوں کے خلاف اقدامات کو روکنے کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے۔
فلسطین کے مسئلے پر عرب لیگ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو دیکھ کر صہیونیوں نے فلسطینیوں کے خلاف مزید جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ عرب لیگ ، بحیثیت عربی ادارہ فلسطینی عوام کے خلاف صہیونیوں کی غنڈہ گردی کو روکنے کی ضروری صلاحیتوں کی حامل ہے۔
لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں صہیونی اقدامات کے مقابلے میں عرب لیگ کی رضامندی در حقیقت ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا اصلی مقصد تل ابیب کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ گویا عرب لیگ یہ کہنے سے دریغ نہیں کرتی ہے کہ وہ فلسطین میں "دونوں ریاستوں کے سمجھوتہ حل" پر یقین رکھتی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی حمایت
دوسری طرف ، وہ بات جس کی وجہ سے عرب لیگ کے عمومی افکار کو صیہونیت کے مفادات کی حمایت میں دیکھا جاتا ہے نہ کہ فلسطین کی ، یہ ہے کہ یہ یونین حالیہ برسوں میں صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے ممبروں کے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کے خلاف خاموش رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان چند موارد میں جن میں عرب لیگ نے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کے خلاف اپنی زبان کھولی ہے ، ہم نے دیکھا ہے کہ ان موارد میں بھی صرف زبانی اور سرسری موقف اپنایا ہے، اور کبھی کوئی ٹھوس فیصلہ یا قرارداد منظور نہیں کی جو عالم اسلام کے مفاد میں ہو۔
اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ ایک طرح کی "دوہری پالیسی" عرب لیگ کی حکمت عملیوں پر حاکم ہے، جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی حمایت کا دعوی کرتی ہے، اور دوسری طرف اپنی خاموشی سے صیہونیت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جواز فراہم کرتی ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ اس طرح کی پالیسی نے مذکورہ یونین کے بارے میں عالم اسلام کی نفرت کو دوگنا کردیا ہے۔
خود عرب لیگ کے عہدیدار بخوبی واقف ہیں کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مقصد فلسطین کے مسئلے کا خاتمہ ہے۔ تاہم ، وہ ایسے معاملات پر ردعمل ظاہر کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہی چیز سبب بنی ہے کہ عرب لیگ فلسطین سے زیادہ صیہونیت کے مفادات کی حامی ہو۔