امریکہ کے زوال کے مراحل

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہر معاشرے کے لوگ جب تک کہ محسوس کرتے ہیں کہ حکمران نظام ان کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہے، اس کا ساتھ دیتے ہیں اور دیوالیہ پن کی حقیقت تسلیم کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ امریکہ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ انہیں ابھی تک یقین ہے کہ معاشی صورت حال جتنی بھی خراب ہو، امریکہ پھر بھی عسکری مہم جوئیوں اور دوسری اقوام کے سرمائے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے اور موجودہ نظام کے تحفظ کو یقینی بناسکتا ہے۔ ۱۷ سال قبل جب افغانستان میں امریکی مداخلت کو امریکہ میں وسیع مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تو افغانستان میں لیتھیم (Lithium) کے ذخائر کی دریافت کی خبر نے ان مخالفتوں اور احتجاجات کا خاتمہ کردیا۔ اس زمانے میں کہا گیا کہ امریکہ کو افغانستان میں ملنے والے لیتھیم کے ذخائر کی قیمت ۱۰۰۰ ارب ڈالر ہے۔ اس زمانے میں اوباما انتظامیہ نے عوامی تنقید کے جواب میں موقف اپنایا کہ “اگر ہم افغانستان کو چھوڑ کر چلے جائیں تو چین یا ہندوستان ان ذخائر پر قبضہ کرنے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کرے گا” اور یوں احتجاجات کا سلسلہ رک گیا۔
امریکہ پر واجب الاداء قرضہ اس ملک کی مجموعی ملکی پیداوار یا خام ملکی پیداوار (Gross Domestic Product) سے کہیں زیادہ ہے لہذا وہ جتنی بھی تیزرفتاری سے ان قرضوں کو ادا کرے، یا ادائیگی کبھی بھی ممکن نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں جو بھی نئی حکومت برسراقتدار آئے گی اسے موجودہ حالت محفوظ رکھنے کے لئے سابقہ حکومت سے کہیں زیادہ قرضے لینا پڑیں گے۔ چنانچہ امریکی عوام کے لئے بالکل عیاں ہے کہ عرصہ گذرا ہے کہ یہاں کی حکومتیں دیوالیہ اور بےبس ہوچکی ہیں۔ لیکن جب تک کہ امریکی عوام اس یقین تک نہیں پہنچیں گے کہ ان کا عسکری نظام مزید کسی کامیاب کاروائی اور نتیجہ خیز مہم جوئی کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ اس نظام کی نسبت پرامید رہیں گے اور کوئی اعتراض و تنقید نہیں کریں گے۔
اس وقت بعض ریاستوں سے خودمختاری کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ریاست کالیفورنیا کا دعوی ہے کہ اس ریاست کی زیادہ تر آمدنی، ٹیکس کی صورت میں وفاقی حکومت کے خزانے میں ڈالا جارہا ہے اور کالیفورنیا کے عوام خودمختاری کی صورت میں یہ آمدنی اپنی ریاست میں خرچ کرسکتے ہیں۔ گوکہ عملی طور پر ان میں سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی؛ لیکن چھوٹی سی عسکری شکست امریکہ کی شکست و ریخت کی رفتار میں اضافہ کرسکتی ہے۔
فرض کریں کہ خلیج فارس میں امریکہ کوئی مہم جوئی کرے اور ایران امریکہ کے ایک طیارہ بردار جہاز اور کئی جنگی جہازوں کو ڈبو دے اور امریکہ کو [بےآبرو ہوکر] خلیج فارس سے نکلنا پڑے؛ یا چین کے جنوبی سمندر میں امریکہ اور چین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں امریکہ ان جھڑپوں کو اپنے فائدے میں انجام کو نہ پہنچا سکے یا پھر یورپ میں روس اور نیٹو کے درمیان جنگ ہوجائے اور امریکہ اس جنگی مہم جوئی سے عہدہ برآ نہ ہوسکے اور نقصان اٹھائے؛ اور امریکی عوام اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان کی جنگی مشین حالات کا توازن اپنے حق میں بدل دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی؛ تو رو بہ زوال امریکی سلطنت کے ڈھیر ہوجانے کے عمل کی رفتار میں شدید اضافہ ہوجائے گا۔ اس صورت میں امریکہ کی تمام ریاستیں اتحاد سے الگ ہوکر، ان قرضوں اور ریاست ہائے متحدہ کی تمام عالمی ذمہ داریوں سے فرار ہونے اور جان چھڑانے کی کوشش کریں گی اور ہر ریاست اپنی فکر میں لگ جائے گی۔ امریکی عوام بھی جب جان لیں گے کہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے اور نہ ان کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہے اور نہ ہی پانے کے لئے، تو وہ بھی صبر و تحمل کا دامن چھوڑ کر غیر مہذبانہ رویوں کا آغاز کریں گے [جن کے لئے انہیں پہلے سے کمپنیوں کی سرکار نے تیار کر رکھا ہے]۔
مالیاتی زوال
مالی طور پر انہدام اور ویرانی (Financial Collapse) یہ ہے کہ ڈالر عالمی لین دین کی بنیاد نہ رہے اور دوسرے ممالک امریکہ کے ساتھ لین دین کے لئے ضروری رقم کریڈٹ فراہم نہ کریں۔ امریکہ ابھی تک زیادہ تر رکازی ایندھن (Fossil fuel) سمیت بیشتر اشیائے صرف دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے اور یہ واقعہ رونما ہونے کی صورت میں امریکی صنعتیں ـ بشرطیکہ جبری بندش کا شکار نہ ہوں ـ ان درآمدای اشیاء کی فراہمی سے عاجز ہونگی؛ اور نقل و حمل کا نظام ایندھن کی عدم فراہمی کی وجہ سے معطل ہوجائے گا جبکہ امریکی عوام اپنی گاڑیوں سے شدید طور پر وابستہ ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ نامی ملک عرصے سے دیوالیہ ہوچکا ہے اور دوسرے ممالک اس کے ماضی کے پیش نظر اس سے خوفزدہ ہیں اور اس کے زر مبادلہ کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔
معاشی تباہی (Economic breakdown)
اگلا مرحلہ اقتصادی یا معاشی شکست و ریخت اور زوال و ویرانی (Commercial Collapse) ہے جس کا آغاز مالی زوال اور درآمدات رک جانے کے بعد، امریکی حکمران رفتہ رفتہ اپنے عوام کو ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہوا پائیں گے کہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات کی فراہمی کی طاقت کھو چکے ہیں؛ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں عوام اس تصور اور یقین کو کھو جائیں گے کہ جو کچھ بھی وہ چاہتے ہیں اپنی مالی صلاحیت کی سطح کے مطابق، بازار سے خرید سکتے ہیں۔
سیاسی ویرانی (Political collapse)
مالی اور معاشی ویرانی کے ساتھ ہی، لوگ اپنے حکومتی نظام کے لئے کسی قسم کے اعتبار کے قائل نہیں رہیں گے اور کوئی چیز بھی انہیں قابو نہیں کرسکے گی۔ بعض ریاستوں میں افراتفری اور انارکی کا آغاز ہوگا اور کچھ ریاستیں خودمختاری اور علیحدگی کا اعلان کریں گے۔
سماجی سقوط (Social collapse)
اقتصادی اور سیاسی سقوط اور زوال کے ساتھ، بدامنی، افراتفری اور انارکی کی فضا وسیع سے وسیع تر ہوجائے گی۔ اس مرحلے میں قانون نافذ کرنے والے نیز سماجی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرے میں نظم و ضبط قائم رکھیں، غریبوں اور ناداروں کو اشیاء خورد و نوش پہنچا دیں، بچوں اور معمر اشخاص کا خیال رکھیں لیکن ان اداروں کے پاس کے ذخائر رفتہ رفتہ ختم ہوجائیں گے اور یہ ادارے حالات قابو رکھنے کی صلاحیت کھو جائیں گے۔ تمام انسان ـ خواہ وہ اپنے معاشرے کے انتظام پر معترض ہی کیوں نہ ہوں ـ معاشرے کے اندر رہنے کو پہاڑوں اور صحراؤں میں بھٹکتے پھرنے پر ترجیح دیتے ہیں اور انہیں معاشرے سے بہت سارے فوائد ملتے ہیں۔ لیکن معاشرے کے ناکارہ بننے اور اس کے بعد کے مرحلے کے آغاز کے ساتھ، معاشرہ خود ایک خطرے کی صورت اختیار کرتا ہے اور افراد ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں؛ [جبکہ امریکی معاشرے کو پہلے ہی مختلف قسم کے تفکرات سے دوچار کرکے تنہائی سے دوچار کیا گیا ہے اور اس صورت حال کے لئے پہلے سے ماحول تیار ہے]۔
اخلاقی زوال (Moral and Cultural collapse)
اس مرحلے میں گھرانے اور خاندان کا مفہوم پھیکا پڑ جاتا ہے اور والدین بچوں کی دیکھ بھال کو ترک کردیتے ہیں [جس کے لئے ہمجنس بازی اور شادی کے بغیر پارٹنر کے ساتھ زندگی گذارنے کے گرے ہوئے اور غیر اخلاقی قوانین کے ذریعے پہلے سے رکھی جا چکی ہے]، لوگ بوڑھوں کی دیکھ بھال کو یکسر چھوڑ جاتے ہیں اور اگر انہیں کھانے کی اشیاء ملیں تو انہیں دوسروں کے درمیان تقسیم نہیں کیا کرتے۔ لوگ جب اس مرحلے میں داخل ہوجائیں تو وہ انسانوں کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ وہ عملا وحشی جانوروں کے زیادہ قریب ہونگے۔
امریکہ کے بہت سے چھوٹے اور درمیانی درجے کے شہری مذہبی اور معتقد ہیں جو شاید کبھی بھی سماجی اور اخلاقی زوال سے دوچار نہ ہوں، لیکن دوسرے عوام اور بڑے شہروں کے بارے میں یہ خوش فہمی بےجا ہوگی اور ممکن ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے زیادہ تر معاشروں کو ان تمام مراحل سے گذرنا پڑے اور یہی بات ان کی فنا اور نابودی کا سبب بنے گی۔
اخلاقی اور ثقافتی زوال اور انسانوں کا مسخ ہوجانا
قرآن کی تین آیات [سورہ بقرہ، آیت ۶۵؛ سورہ مائدہ، آیت ۶۰؛ سورہ اعراف، آیت ۱۶۰ میں ان قوموں کو عذاب الہی کا وعدہ دیا گیا ہے جو اس کے غضب کے لائق ٹہرتے ہیں، وہ جو مسخ ہوکر بندروں اور سوروں میں تبدیل یا ظالموں کی غلامی پر مجبور ہوئیں۔ سماجی اور اخلاقی و ثقافتی زوال در حقیقت ایک لحاظ سے وحشی حیوانوں میں تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ انسان کا تعارف اس کے برتاؤ اور طرز سلوک سے ہوتا ہے اور جب انسان کا طرز عمل وحشی جانوروں کی طرح ہوگا تو گویا وہ مسخ ہوچکا ہے اور وحشی جانور بن چکا ہے۔
اس مضمون میں ڈمیٹری اورلوف (Dmitry Orlov) کی کتاب “زوال کے پنجکانہ مراحل” سے استفادہ کیا گیا ہے۔
shakeri.net

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی