-
Tuesday, 21 July 2020، 12:18 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سرمایہ داری کے خلاف سوشل ازم کی جد و جہد ارتکاز دولت اور دولت کے پھیلاؤ کے تاریخی آہنگ کا ایک حصہ ہے۔ بلاشبہ نظام سرمایہ داری نے تاریخ میں بہت اہم تخلیقی کردار ادا کیا ہے۔ سرمایہ داروں نے اس نظام کے تحت لوگوں کی جمع پونجی منافع یا سود کے وعدے پر اکٹھی کر کے اسے پیداواری سرمائے کی شکل دی۔ یہ سرمایہ صنعت اور زراعت کو مشینی ذرائع استعمال کر کے ترقی دینے پر خرچ کیا گیا۔ سرمایہ دار نے اشیاء کی پیداوار اور تقسیم کاری کے عمل کو بہت بہتر بنایا جس کے نتیجے میں پیدا کرنے والوں سے صارفین تک اشیاء کا ایسا ہموار بہاؤ وجود میں آیا جس کی تاریخ میں پہلے مثال نہیں ملتی۔ علاوہ ازایں سرمایہ داروں نے شخصی آزادی کی روادارانہ تعلیمات کو اس دلیل کے تحت اپنے حق میں استعمال کیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والی صنعتوں کی نسبت جو کہ طلب و رسد کے قوانین سے بڑی حد تک مستثنیٰ ہوتی ہیں، کاروباری لوگ عوام کو بہتر خوراک، رہائش اور آسائشات و تفریحات فواہم کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کو محصولات اور قانونی پابندیوں سے قدرے آزادی مہیا کر دی جائے۔ آزادانہ سرمایہ کاری کے نظام میں مقابلے کی فضا اور ملکیت کا جوش و خروش انسانوں کی پیداواری صلاحیتوں اور جدت طرازی کو جلا بخشتے ہیں۔ صلاحیتوں کے تنوع اور ہنرمندی کے قدرتی انتخاب کے باعث تقریبا ہر طرح کی معاشی صلاحیت رکھنے والوں کو اس نظام میں جلد یا بدیر اپنا موزوں مقام اور مناسب معاوضہ مل جاتا ہے۔ پھر سرمایہ کاری کا عمل در حقیقت جمہوریت کے تابع ہوتا ہے کیونکہ جہاں تک اشیاء کی پیداوار یا خدمات کی فراہمی کا تعلق ہے یہاں ان کا تعین حکومتی احکام کے بجائے عوام کی طلب سے کیا جاتا ہے۔ مزید بر آں مقابلہ کی فضا کے باعث سرمایہ دار بہت زیادہ محنت کرنے اور اپنی مصنوعات کو ہر طور بہتر سے بہتر بناتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
اوپر کئے گئے ان دعووں میں بہت حک تک صداقت ہے، لیکن نظام سرمایہ داری کے حامی اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں کرتے کہ اگر یہ نظام اس قدر فطری اور بہتر ہے تو تاریخ صنعت کاروں کے تسلط، قیمتوں کی اجارہ داری، کاروباری فریب سازی اور بے محابا دولت کے باعث پیدا ہونے والی برائیوں کے خلاف بے شمار بغاوتوں اور وسیع پیمانے پر احتجاج سے کیوں بھری پڑی ہے؟
نظام سرمایہ داری کی یہ برائیاں زمانہ قدیم سے ہی موجود رہی ہیں کیونکہ انہی ردعمل کے طور پر بہت سے ملکوں میں اور کئی صدیوں سے سوشلسٹ تجربات ہو رہے ہیں۔ ہم نے پڑھا ہے کہ سمیریا میں تقریبا ۱۲۰۰ قبل مسیح میں ’’معیشت کا انتظام ریاست کے سپرد تھا، آبپاشی کے قابل ساری زمین حکومت کی ملکیت تھی، مزدوروں کو شاہی گوداموں میں جمع شدہ غلے سے راشن ملتا تھا اس وسیع سرکاری معیشت کے انتظام کے لیے درجہ بندی پر مبنی دفتری نظام قائم کیا گیا تھا۔ اور ساری وصولیوں اور راشن کی تقسیم کا حساب رکھا جاتا تھا ہزاروں کی تعداد میں مٹی کی تختیاں جن پر یہ حسابات درج تھے دار الحکومت اٗر(Ur) لاگاش (Lagash) اوراما (Umma) سے دستیاب ہوئی بیرونی تجارت بھی مرکزی انتظامیہ کے کنٹرول میں تھی۔
جاری
(اقتباس از کتاب تاریخ عالم کا ایک جائزہ تالیف ول ڈیورانٹ صفحہ ۷۴ ، ۷۵ )