-
Monday, 20 July 2020، 01:02 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ وہابیت کی عمر ۳۰۰ سال سے بھی کم ہے، یہ جماعت فقہی اہل سنت کے دامن میں فقہی اور کلامی مکاتب کی پیدائش کے ایک ہزار سال بعد معرض وجود میں آئی ہے اور جو لوگ اس جماعت کی تخلیق کے پس پشت کردار ادا کررہے تھے، ان کے اپنے خاص مقاصد تھے۔ اس جماعت کی ۳۰۰ سالہ کارکردگی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو عالم اسلام کی سرحدوں سے باہر ہی تخلیق کیا گیا ہے اور عالم اسلام میں کچھ اشخاص نے تنگ نظریوں یا پھر بیرونی بازیگروں کی سازش کے ساتھ مل کر اس کو پروان چڑھایا ہے۔
کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ ـ منگولوں کے حملے کے بعد عظیم اسلامی تہذیب کے زوال کے ۵۰۰ سال بعد ـ ایک بار پھر عالم اسلام علمی اور سائنسی عروج کی راہ پر گامزن ہورہا تھا، اور اپنے سابقہ تجربات اور اپنی تازہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر نئی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ برطانوی استعمار اس حقیقت کو بخوبی سمجھ چکا تھا چنانچہ وہ مسلمانوں کی اس حرکت کو ابتداء ہی میں ناکارہ بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے یہاں وہابیت، بہائیت اور قادیانیت جیسی جماعتوں یا ایجنسیوں کی بنیاد رکھی اور مسلمانوں کو ان کے ساتھ مصروف کردیا اور کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اصل دشمن غاصب یہودی تھے جو انگریزوں کی سازش کے نتیجے میں گذشتہ ستر برسوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر قابض ہوئے ہیں لیکن وہابیت نے ابتداء میں خاموشی اختیار کرلی اور آج کے زمانے میں یہودیوں کے صف میں کھڑی نظر آرہی ہے کیونکہ مسلمان ـ اس کے خیال میں ـ اس قدر کمزور اور منتشر ہوئے ہیں کہ مزید چھپ کر وار کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اب نہ صرف کھل کر وار کررہی ہے بلکہ پورے عالم اسلام کی نمائندہ بن کر قبلہ اول کا سودا کررہی ہے چنانچہ موجودہ قبلہ کا تحفظ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔
وہابیت کا اصول مسلمانوں کی تکفیر اور مسلمانوں کو للکارنے پر استوار ہے اور اس کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا جائے، عالم اسلام کا چہرہ مخدوش اور داغ دار کیا جائے، دہشت گردی کو فروغ دیا جائے، چنانچہ وہ نہ تو اسلام کے بیرونی دشمنوں کی دشمن ہے اور نہ ہی اس کے پاس مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے سے کوئی فرصت ہے کہ بیرونی دشمنوں کو توجہ دے سکے جبکہ ان کے عقائد میں بھی بیرونی دشمن کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ ہر وقت امت مسلمہ کے اندر دشمنیوں کو پروان چڑھاتی ہے اور بیرونی دشمن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے؛ چنانچہ وہ نہ صرف دشمن کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتی بلکہ آج اعلانیہ طور پر دشمنوں کی صف میں کھڑی ہے اور یہودیوں اور صہیونیوں کے مد مقابل کھڑی حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی اور عالمی اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کے مد مقابل آکھڑی ہوئی ہے جبکہ بنی سعود، بنی نہیان اور بنی خلیفہ سمیت عرب ریاستیں اپنی دولت وہابیت کے مذموم مقاصد کے قدموں میں ڈھیر کر رہی ہیں۔
چنانچہ ایک وہابی تکفیری لکھاری پہلی مرتبہ یہودی ریاست کو شکست کی تلخی سے آشنا کرنے والی لبنانی مزاحمتی تنظیم “حزب اللہ” پر تنقید کرتے ہوئے اپنے مضمون کا عنوان “حزب الله الشیعی اللبنانی: حزب الله أم حزب الشیطان؟” (شیعہ لبنانی تنظیم حزب اللہ، حزب اللہ یا حزب الشیطان) قرار دیتا ہے اور اس کے ذیل میں جہاں تک ممکن ہے اس نے حزب اللہ اور سید حسن نصراللہ پر الزامات اور بہتانوں کی بوچھاڑی کردی ہے اور اپنے وہابی معمول کے مطابق بدزبانی سے سے کام لیا ہے۔ (۱) جبکہ حزب اللہ کا اپنا کردار ہے اور عرب اور مسلم دنیا میں کوئی بھی اس وہابی لکھاری کی بدزبانیوں کا اعتبار نہیں کرسکتا۔ لیکن ادھر یہودی ریاست ہر روز فلسطینیوں کا خون بہاتی ہے، شام میں خانہ جنگی کو ہوا دیتی ہے، اور لاکھوں انسانوں کے قتل کے اسباب فراہم کرتی ہے، لبنان پر حملے کرتی ہے اور فلسطین پر قبضہ کرکے قبلہ اول کو غصب کئے ہوئے لیکن آپ کو کہیں بھی کوئی وہابی یہودیوں کے اس ظالمانہ اور غاصبانہ کردار پر تنقید کرتا نہیں دکھائی دے گا بلکہ اس زمانے میں تو وہ باقاعدہ یہودیت اور صہیونیت کی صف میں کھڑے نظر آرہے ہیں جس سے وہابیت کی حقیقت پہلے سے کہیں زیادہ عیاں ہوتی ہے اور یہ صورت حال مسلمانوں کو اس جماعت کے سلسلے میں زیادہ غور کرنے اور اپنا فیصلہ سنانے کی دعوت دے رہی ہے۔
یہودی ریاست کے مظالم کے آگے خاموشی اور حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمت کی تنظیموں کے خلاف سازشوں کے علاوہ بھی کچھ مسائل ہیں جن سے یہودیت اور وہابیت کے باہمی ناطے کے متعدد ثبوت ملتے ہیں:
ایک موضوع ابن تیمیہ کا سلسلہ نسب ہے جس کی طرف مسلمان محققین نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے، اور اگر اس شخص کے نسب کو سمجھا جائے تو اس کے ظہور اور اس کی پیروی میں اس طرح کے فرقے کے ظہور کے محرکات کا بہتر ادراک کیا جاسکتا ہے۔ لفظ تیمیہ “تیما” سے ماخوذ ہے اور “تیما” مدینہ کے شمال میں واقع یہودی محلے کا نام تھا۔ (۲)
حقیقت یہ ہے کہ اس کے آباء و اجداد وہ لوگ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی تلاش کے لئے مدینہ کے شمال میں سکونت پذیر ہوچکے تھے، اور ابن تیمیہ حرانی کا سلسلۂ نسب بھی شمالی مدینہ کے یہودیوں سے جا ملتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ اور یہودیوں کے افکار اور عقائد کے درمیان اس قدر شباہتیں پائی جاتی ہیں۔
یہودیت اور وہابیت کے درمیان بعض شباہتیں
۱۔ اللہ کی جسمانیت
سلفیت کا بانی اور وہابیت کا سرچشمہ ابن تیمیہ کہتا ہے: “خدا کی کتاب اور رسول اللہ(ص) کی سنت نیز صحابہ کے کلام میں ایسی کوئی بات دیکھنے کو نہیں ملتی کہ خدا جسم نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ کی جسمانیت کی نفی کرنا یا اس کا اثبات کرنا، بدعت ہے اور کسی نے بھی اس کی جسمانیت کا نہ اثبات کیا ہے اور نہ ہی اسے ردّ کیا ہے”۔ (۳)
کتاب مقدس کی بنیاد پر یہودی عقیدہ: “تب موسی اور ہارون اور ناداب اور ابیہو بنی اسرائیل کے ۷۰ عمائدین کے ہمراہ پہاڑ کے اوپر گئے ٭ اسرائیل کے خدا کو دیکھا اور اس کے پاؤں تلے نیلم کے پتھر کا فرش تھا جو آسمان کی مانند شفاف تھا، اگرچہ اسرائیل کے بزرگوں نے خدا کو دیکھا لیکن خدا نے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور انھوں نے خدا کے حضور کھایا پیا”۔ (۴)
۲۔ خدا کا کرہ ارضی پر اتر آنا
ابن تیمیہ کہتا ہے: “خداوند متعال ہر شب جمعہ اس دنیا کے آسمان پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے: کیا کوئی ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی اجابت کروں؟ کیا کوئی ہے جو مغفرت طلب کرے اور میں اس کو بخش دوں؟ اور اللہ طلوع فجر تک دنیا کے آسمان پر بیٹھ کر یہی جملے دہراتا رہتا ہے”۔ وہ کہتا ہے: “جو شخص عرش سے خدا کے نزول کا انکار کرے، یا اس کی تأویل کرے، [اور دوسرا مطلب لے] وہ بدعتی اور گمراہ ہے”۔ (۵)
زمین والے آسمان یا کرہ ارضی اور اس کے مضافات میں خداوند سبحان کے نزول کے بارے میں ابن تیمیہ کے اس وہم کو مد نظر رکھتے ہوئے، کتاب مقدس کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں یہ جملے ملتے ہیں کہ جس وقت کہ ابراہیم ممرے کے بلوطستان میں سکونت پذیر تھے خداوند ایک بار پھر انہیں نظر آیا۔ واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے:
“پھر خداوند ممرے کے بلوطستان میں انہیں نظر آیا اور وہ دن کی گرمی میں اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھے تھے * انھوں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا کہ وہ تین مرد ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہ ان کو دیکھ کر خیمے کے دروازے سے اٹھ کر ان سے ملنے کے لئے دوڑے اور زمین تک جھک گئے۔ [یا اپنا چہرہ زمین پر رگڑا] * اور کہنے لگے کہ اے میرے آقا! اگر تو نے مجھ پر کرم کی نظر کی ہے تو اپنے خادم کے پاس رکنا * تاکہ تھوڑا سا پانی لایا جائے اور تو اپنے پاؤں دھو لینا اور اس درخت کے سائے میں آرام کرنا میں ابھی چلتا ہوں اور تیرے پاؤں دھونے کے لئے پانی لاتا ہوں”۔ (۶)
جزیرہ نمائے عرب کے مشہور مصنف اور محقق “ناصر آل سعید الشمری” (المعروف بہ ناصر السعید) (ولادت ۱۹۲۳ع – وفات ۱۹۷۹ع) اپنی کتاب “تاریخ آل سعود” میں وہابی فرقے کے بانی “محمد بن عبدالوہاب” کے بارے میں لکھتے ہیں: “محمد بن عبدالوہاب کا دادا “سلیمان قرقوزی” ایک یہودی تھا جس نے ترکی سے جزیرہ نمائے عرب کی طرف ہجرت کی تھی”، نیز وہ بنی سعود کے بارے میں ـ جن کی حکومت تین صدیوں سے قائم ہوئی ہے ـ لکھتے ہیں: “بنی سعود کے یہودی جد اعلی کا نام ـ جس نے اسلام ظاہر کیا ـ “مُردخائے بن ابراہیم بن موسی” تھا جو بصرہ کے یہودیوں میں سے تھا”۔ (۷)
فرقہ وہابیت اور یہودیت کے درمیان کے رشتوں ناطوں کے بارے میں ثبوت و شواہد بہت زیادہ ہیں جن سے غاصب یہودی ریاست کے ساتھ وہابیت اور سعودی حکمرانوں کے آج کی اعلانیہ ساز باز اور تعاون کے اسباب کو واضح کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ الشیعة هم العدو فاحذرهم، شحاتة محمد صقر، مکتبة دار العلوم، البحیرة (مصر)، ص ۱۵۴٫
۲۔ قاموس الکتاب المقدس، هاکس، مجمع الکنائس الشرقیة، سوم، مکتبة المشغل – بیروت بإشراف رابطة الکنائس الإنجیلیة فی الشرق الأوسط، ص ۲۲۸٫
۳۔ الفتاوى الکبرى لابن تیمیة، تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة الحرانی الحنبلی الدمشقی، دار الکتب العلمیة، اول، ۱۴۰۸هـ – ۱۹۸۷م، ج ،۵، ص ۱۹۲
۴۔ عهد قدیم، خروج، فصل ۲۴، آیات ۹، ۱۰ اور ۱۱۔
۵۔ مجموع الرسائل الکبری، ابن تیمیة، دار إحیاء التراث العربی، رساله یازدهم، صفحه ۴۵۱۔
۶۔ عہد قدیم، پیدائش، باب ۱۸ آیات ۱ تا ۵٫
۷۔ تاریخ آل سعود، ناصر السعید، ص ۳۵٫بی تا، بی جا، بی نا.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مترجم: فرحت حسین مہدوی
http://farsi.al-shia.org/