-
Wednesday, 22 July 2020، 01:54 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
بابل میں ۱۷۵۰ قبل مسیح میں حمورابی (Hammrurabi) کے ضابطہ قانون کے مطابق چرواہوں اور کاریگروں کی اجرتیں اور جراحی کے لیے طبیبوں کے معاوضے مقرر تھے۔
مصر کے بادشاہوں ٹال میز (Ptolemies) کے دور حکومت میں زمین ریاست کی ملکیت تھی اور حکومت زراعت کا انتظام چلاتی تھی۔ کسانوں کو اس امر کی ہدایات کی جاتی تھیں کہ انہوں نے کونسی زمین جوتنی ہے، کیا فصل اگانی ہے، اس فصل کی باقاعدہ پیمائش ہوتی اور اس کا سرکاری کھاتوں میں اندراج کیا جاتا۔ حکومت نے تیل، نمک، پیپرس اور کپڑے کی پیداوار اور فروخت کو بھی قومیا لیا تھا۔ دیگر تمام تجارت حکومت کے تابع اور اس کے کنٹرول میں تھی۔ اکثر خوردہ تجارت کا انتظام بھی حکومت کے کارندوں کے ہاتھ میں تھا جو حکومت کی پیدا کردہ اشیاء فروخت کرتے تھے۔
بنکاری پر حکومت کی اجارہ داری تھی لیکن انتظام نجی فرموں کے سپرد تھا۔ پیداوار فروخت اور قانونی دستاویزات کی تحریر پر ٹیکس نافذ تھے۔ قابل ٹیکس آمدنیوں اور معاہدوں سے باخبر رہنے کے لیے حکومت نے ذاتی آمدنی اور جائیداد کے اندراج کے ایک پیچیدہ نظام کے علاوہ منشیوں اور کاتبوں کا ایک جم غفیر رکھا ہوا تھا۔ اس نظام کے محاصل نے ٹالمیز کی سلطنت کو اپنے وقت کی امیر ترین ریاست بنا دیا۔
روم میں بھی ڈٓایا کلیشن (Diocletion) کے دور حکومت میں کچھ عرصہ سوشلسٹ نظام رائج رہا، عوام میں بڑھتی ہوئی غربت اور بے چینی اور وحشیوں کے حملے کے فوری خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نے ۳۰۱ء میں ایک حکم کے ذریعے اشیاء کی چور بازاری کی ممانعت کر دی۔ تمام اہم اشیاء اور خدمات کے لیے زیادہ سے زیادہ قیمتیں اور معاوضے مقرر کر دئے گئے۔ بے روزگاروں کو کام مہیا کرنے کے لیے وسیع پیمانہ پر رفاہ عام کی تعمیرات شروع کر دی گئیں۔ غریبوں کے لیے مفت یا کم قیمت پر مہیا کرنے کا انتظام کیا گیا۔ حکومت جو کہ پہلے ہی معدنیات، قیمتی پتھروں اور نمک کی کانوں کی مالک تھی اب بڑی صنعتوں اور کارگاہوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔
پال لوئیس کے بقول ہر بڑے شہر میں ریاست نے ایک ایسے طاقتور آجر کی حیثیت اختیار کر لی جو بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے صنعت کاروں کے مقابلے میں پر لحاظ سے بہتر پوزیشن میں تھی۔
معاشی طور پر لوگوں پر قابو پانا ڈٓایا کلیشن کی وسعت پذیر، مہنگی اور بدعنوان افسر شاہی کے لیے بہت کڑا مرحلہ ثابت ہوا۔ اس وسیع کاروبار سلطنت جو کہ فوج، عدلیہ، رفاہ عامہ کی تعمیرات اور خیرات و بخشش پر مبنی تھا، کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس قدر زیادہ ٹیکس لگائے گئے کہ لوگوں کو کام کرنے اور کمانے کی کوئی رغبت نہ رہی اور ٹیکس بچانے کے نت نئے طریقے تلاش کرنے والے وکلاء اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے قوانین بنانے والے وکلاء کے درمیان ایک تباہ کن جنگ شروع ہو گئی۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کی خاطر ہزاروں رومی باشندوں نے ملک سے فرار ہو کر وحشیوں کے پاس پناہ لے لی۔ اس فرار کو روکنے اور ٹیکسوں کے قوانین میں نرمی پیدا کرنے کی خاطر حکومت نے احکامات جاری کر دئیے۔ جن کے تحت تمام قرضوں اور ٹیکسوں کی مکمل ادائیگی تک ہر کسان اپنے کھیت اور ہر کاریگر اپنی دوکان سے منسلک رہنے کا پابند تھا اس پابندی اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر قرون وسطیٰ کے زرعی غلاموں کے نظام کا آغاز ہوا۔
جاری
(اقتباس از کتاب تاریخ عالم کا ایک جائزہ تالیف ول ڈیورانٹ صفحہ ۷۶ ، ۷۸ )