خواتین کے ذریعہ جاسوسی سے لیکر خواتین کے جنسی استحصال تک صہیونی حکومت اور اسکی کار گزاریاں

  • ۳۷۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “خاتون ایجنٹس عام طور پر اپنا کام چپ چاپ کر سکتی ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایجنٹ پینولپی کو ’اریکا چیمبرز‘ کے فرضی نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کا فلسطینی گروپ بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامی کے قتل میں ہاتھ تھا، جو ۱۹۷۲ کے میونخ اولپمکس میں ۱۱ اسرائیلی ایتھلیٹس کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔
میونخ میں ہونے والی ہلاکتوں کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے آپریشن کی منظوری دی جس کے تحت موساد کے ایجنٹس کو بلیک ستمبر کے ارکان کی تلاش اور انھیں اپنے کیے پر سزا دینا تھی۔ قتل کی پانچ ناکام کوششوں کے بعد سلامی بلآخر چار محافظوں سمیت مارے گئے۔ ۱۹۷۹ میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ان کے اپارٹمنٹ کے باہر بم دھماکے کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔
ایجنٹ پینولپی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بم دھماکہ کیا اور اس مقصد کے لیے وہ سلامی کے فلیٹ کے قریب ایک سادہ زندگی گزار رہی تھیں اور یہاں تک خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ایک بوائے فرینڈ بھی تھا۔
دھماکے کے بعد ایجنٹ پینولپی غائب ہو گئیں لیکن اپنا سامان پیچھے چھوڑ گئیں، جس میں اریکا چیمبرز کے نام سے ایک برطانوی پاسپورٹ بھی تھا۔”[۱]
یہ مذکورہ بالا اقتباس کسی اسرائیل مخالف ادارہ یا صہیونیت کے خلاف کام کر رہی کسی فلسطین نواز تنظیم کا نہیں بلکہ یہ بی بی سی ورلڈ سرویس کی اس رپورٹ سے ماخوذ ہے جسے بی بی سی نے دنیا کی خطرناک ترین خواتین پر پیش کیا ہے ، اس رپورٹ میں بی بی سی نے کچھ خطرناک ترین خواتین کی خطرناک کہانیوں کو پیش کیا ہے ، جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں کس طرح بعض خطرناک خواتین جاسوسی جیسے خطرناک کاموں کو انجام دیتی ہیں اور پھر انکا انجام کیا ہوتا ہے، صہیونی حکومت میں خواتین کو کس رخ سے دیکھا جاتا ہے اور کس طرح اپنے مقاصد کے تئیں انکا استعمال ہوتا ہے اگر یہ جاسوسی والی رپورٹ گنگ بھی ہو اور یہ بتانے کے لئے کافی نہ ہو کہ خواتین کا کس طرح استحصال ہوتا ہے تو بی بی سی ہی کی آج ہی کی ایک اور رپورٹ ملاحظہ ہو :
“اسرائیل میں پولیس نے ایک بڑے وکیل کو جنسی روابط کے عوض عدالتی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس وکیل کا نام نہیں ظاہر کیا گیا اور نہ ہی کیس کے بارے میں کوئی معلومات دی گئی ہیں۔ عدالت نے ان معلومات کو منظرِ عام پر آنے کی اجازت نہیں دی۔
لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا تعلق خواتین کی ایک عدالت کی جج کی تعیناتی سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک عدالت میں مرد جج کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں تقرری کے معاملے کی بھی چھان بین کی جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل اوی چائی مینڈی بلٹ نے اس کیس میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے مرکزی ملزم سے دوستی بتائی ہے۔
اسرائیل کے وزیر قانون ایالیت شاکید اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایستر حیوت کا اس کیس میں گواہی دینے کے لیے سمن جاری ہوگیا ہے۔
ایالیت شاکید اور چیف جسٹس ایستر حیوت جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیٹی کے ممبر ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لہؤؤ فورس کے اینٹی کرپشن یوٹن نے اس معاملے پر دو ہفتے قبل تحقیقات شروع کی تھیں۔ انھیں عدالتی تقرریوں میں بے ضابطیگیوں کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ ملی تھی۔
جس کے بعد بدھ کی صبح کو ایک مرد وکیل کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ خواتین کی عدالت کی ایک جج اور ایک خواتین وکیل سے بھی اس بارے میں تفتیش کی گئی ہے۔ پولیس نے سرچ آپریشن کر کے بہت سی دستاویزات بھی اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔
اسرائیلی جریدے یدویوتھ آھرونوتھ کے مطابق اسرائیل بار اسوسیئیشین کے یروشلم آفس پر بدھ کے روز چھاپا مارا گیا۔
اسرائیل کے وزیر قانون ایالیت شاکید اور چیف جسٹس ایستر حیوت نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی تحقیقات مکمل کر کے سچائی تک ضرور پہنچیں گے۔
دونوں صاحبان نے اسرائیلی عدالتوں میں تقرری کے سسٹم میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کے الزامات کی تردید کی ہے”[۲]۔
یہ وہ رپورٹ ہے جسے محض بی بی سی نے نہیں پیش کیا ہے بلکہ دنیا کے معتبر ترین کہلائے جانے والے اخباروں نے بشمول اسرائیل ٹائمز و ہآرتض نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے [۳]
اس تازہ رپورٹ کے پیش نظر کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ ایک ایسی حکومت جو سارے یہودیوں کے لئے خود کو سرزمین موعود کے طور پر پیش کرتی ہے، ایک ایسی سرزمین جو یہودیوں کی وعدہ گاہ ہے ، ایسی سرزمین جہاں پر یہودیوں کی وراثت کی حفاظت کی بات کی جاتی ہے خود وہاں خواتین کا حال کیا ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں تقرری جب جسم فروشی اور سیکس کے عوض ہونے لگے تو عدالتی کاروائیوں میں دخیل خواتین کے لئے کیا ضمانت ہے کہ وہ ضمیر فروشی نہیں کریں گی ، اور اگر کوئی خاتون جج کسی منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے تو اسکے ساتھ کیا کچھ نا انصافی نہیں ہوگی اور جو اپنے ضمیر کو بیچ دے وہ پھر اسکے فیصلہ میں انصاف کی خو کیا ہوگی ، یہ سب سوالات ہر ایک کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں ۔ اپنی نوعیت کا یہ عجیب و غریب ماجرا صہیونی حکومت سے متعلق ہے شاید اسی لئے معاملہ ذرا ٹھنڈا ہے خدا نخواستہ یہی رپورٹ مشرق وسطی کے کسی ملک کی ہوتی تو سارے دنیا کے میڈیا کی سب سے پہلی خبر یہی ہوتی لیکن کیا کیا جائے کہ معاملہ اسرائیل کا ہے ۔اور جب اسرائیل کا معاملہ ہو تو پھونک پھونک کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے چاہے عدل و انصاف کا گلا ہی کیوں نہ گھٹ رہاہو لیکن تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی اظہار خیال ہونا چاہیے یہی نام نہاد صہیونی صحافت کا منشور ہے ۔
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-45650679
[۲] ۔https://www.bbc.com/urdu/world-46899091،https://www.bbc.com/news/world-middle-east-46892112
[۳] ۔ https://www.middleeasteye.net/news/senior-israeli-lawyer-detained-over-suspicions-sexual-bribery-2081958263
https://www.washingtonpost.com/local/crime/sex-offense-law-in-maryland-has-loophole/2012/06/16/gJQAWdoohV_story.html?utm_term=.eff4fd705bfd
https://www.haaretz.com/israel-news/.premium-israeli-police-arrest-26-suspects-for-indecent-acts-and-sexual-harassment-of-minors-1.6589648
https://www.washingtonpost.com/nation/2018/10/08/should-police-be-able-have-sex-with-person-custody-rape-alle
https://www.timesofisrael.com/senior-lawyer-held-on-suspicion-of-promoting-judge-in-exchange-for-sex/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل کی نئی آرزو اور ہندوستان

  • ۳۷۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مدت سے ہندوستان، وسیع پیمانے پر اسرائیلی یہودیوں کی ہجرت کے مسئلہ سے دوچار ہے، اور یہ ہجرت کبھی کبھار اس طرح ہوتی ہے کہ جب حکومتی کی جانب سے لازمی سپاہی کے عنوان سے فوجی خدمت ختم ہو جاتی ہے تو یہ لوگ ہندوستان کا رخ کرتے ہیں ۔
چنانچہ ہندوستان کی طرف کوچ کر کے پہنچنے والے اسرائیلی معاشرہ میں سابقہ فوجی ملازمت کرنے والوں کی تعداد دیگرطبقات سے زیادہ ہے ۔
ان مہاجرین کی منزل غالبا شمالی ہند کا علاقہ ہماچل پردیش ہوتا ہے جو ہندوستان کے شمال اور کشمیر کے جنوب میں واقع ہے، یہودیوں کا یہاں پر وجود اس قدر سنجیدہ اور اثر بخش ہے کہ بعض قبائل اس علاقے میں طویل عرصہ سے اپنی رہائش کا دعوی کرتے ہیں اور خود کو دنیا میں بے گھر و بکھرے یہودیوں کے باقی ماندہ رفیوجیوں کے بچے کھچے لوگوں میں مانتے ہیں ۔
اس ہجرت کا قابل غور پوائنٹ یہ ہے کہ یہودیوں کے روحانی پیشوا و رابی جب اس مسئلہ کا سامنا کرتے ہیں تو دو الگ الگ قسم کے افعال دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو یہودیوں کو یہودی آداب و رسوم ، دینی و شرعی آداب و احکام کی پابندی اور یہودی طور طریقوں کو سکھانے کے ساتھ انہیں اس بات کا شوق دلاتے ہیں کہ اپنی وعدہ گاہ کی طرف پلٹ جائیں جسے بصورت اسرائیل وہ لوگ سرزمین موعود سمجھتے ہیں، اسکے مقابل ایسے بھی یہودی روحانی پیشوا ہیں جنکی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یہودی ہندوستان ہی کے سرزمین پر رہیں اور اسی لئے اسرائیل سے یہودیوں کی ہندوستان میں ہجرت کی کوششیں بھی کرتے ہیں ۔
ہندوستان میں یہودیوں کی ہجرت اور وہاں پر انکی رہائش ملک کے لئے یوں تو خطرے کی بات نہیں ہے لیکن جو چیز خطرناک ہے ان یہودیوں کے ذریعہ ہماچل پردیش میں تیزی کے ساتھ منشیات کے دھندے کو پھیلانا ہے، چونکہ نشہ آور چیزوں میں موٹا اور بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے لہذا انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے کاموں کا نیٹ ورک تیزی کے ساتھ وسیع کر دیا ہے ، اور دکان، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کھول کر یہ غیر ملکی اور غیر مقامی لوگوں کو منشیات بیچتے ہیں ۔
ہندوستان ٹائمز اس بارے میں لکھتا ہے : ہندوستان کی طرف ہجرت کر کے آنے والے یہودی بغیر حکومتی قوانین کا لحاظ کئے اور بغیر نئی دہلی کی اجازت کے اپنے پیشے اور بزنس میں مشغول ہیں جبکہ دیکھا جائے توانکا اصل کام منشیات کی کھیتی خاص کر بھانگ کی پیداوار ہے جسے یہ لوگ تجارت کے پردے میں یورپین ممالک ، اور اسرائیل منتقل کرتے ہیں ۔
شاید سوال ہو کہ انکے غیر قانونی کاموں کے باوجود قانونی مراکز انکے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے ،تو اسکا جواب یہ ہے کہ جب انہیں اپنے کاموں میں کوئی قانونی مشکل نظر آتی ہے اور وہ قانون کے شکنجے میں خود کو گھرا دیکھتے ہیں تو بڑی بڑی رشوتیں دے کر نہ صرف یہ پلیس سے جان چھڑاتے ہیں بلکہ دیہاتوں کی پوری پوری پنچایت اور پورے دیہات کو بھی خاموش کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بہت ہی آسانی کے ساتھ زمینوں اور پلاٹوں کو خریدتے ہیں حتی بعض علاقوں میں انکی اتنی ہی دادا گیری ہے کہ مقامی لوگوں کو داخل ہونے تک کی اجازت نہیں دیتے ۔
یہاں پر شاید یہ بات لائق توجہ ہو کہ ایک رپورٹر ہزار جتن اور حیلے بہانے بنا کر یہودیوں کے ان ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تو اس نے مکمل بے یقینی کی کیفیت میں جو دیکھا وہ سب کچھ عجیب تھا اس نے دیکھا کہ ان علاقوں میں زبردست و شاندار قسم کے لاکچری (luxury) گھر بنے ہوئے ہیں ، شاپنگ مال ہیں اور ایسے خرید و فروش کے مراکز ہیں جن میں آسانی کے ساتھ منشیات کی خرید و فروش ہوتی ہے [۱] ، جبکہ علاقے کی زمینوں پر منشیات کی کھیتی ہوتی ہے اور مخصوص قسم کے کارخانوں میں اسے پیک کر کے دیگر علاقوں میں اسمنگل یا جاتا ہے[۲]۔
ہندوستان میں یہودیوں کی فعالیت کے پھیلنے اور بڑھ جانے کے باوجود، ہندوستان و صہیونی حکومت کی نزدیکیاں بڑھ رہی ہیں ، مشترکہ تجارتی و اقتصادی سرگرمیاں ، اور صہیونی عہدے داروں کے ہندوستان کے مسلسل اسفار ،یہ سب مل جل کر ایک نئے معنی پیدا کر رہے ہیں ، لہذا اس موضوع کے سلسلہ سے تجزیہ کرنے والے تجزیہ نگاروں کو اس بات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ صہیونی حکومت ہندوستان سے قربت کے چلتے مخصوص و بلند اہداف نظر میں رکھے ہوئے ہے، مثلا جوہری توانائی کے حامل ایک مسلمان ملک کی حیثیت سے پاکستان کی ابھرتی طاقت سے پنہاں مقابلہ[۳] ، ایران و ہندوستان کے تعلقات پر اثر انداز ہونا[۴] ، اپنی صنعتی مصنوعات کے لئے خام مواد کی ضرورت کو پورا کرنا، مشرق وسطی میں اپنی سر گرمیوں کے سلسلہ سے ہندوستان کی حمایت کا حصول یا پھر اسے خاموشی پر وادار کرنا [۵]یہ وہ ساری چیزیں ہیں جنہیں صہیونی حکومت کے بلند اہداف کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے ۔
حواشی:
۱ ۔– https://www.newstatesman.com/world-affairs/2013/01/why-are-there-so-many-israeli-ex-soldiers-india.
۲ ۔ https://www.mashreghnews.ir/news/759840
۳ ۔ https://www.tasnimnews.com/fa/news/1394/01/31/716554.
۴۔ فصلنامه تحقیقات سیاسی بین المللی دانشگاه آزاد اسلامی واحد شهرضا، بررسی روابط استراتژیک هند با اسرائیل و تاثیر آن بر جمهوری اسلامی ایران، محمود کتابی، یدالله دهقان، مهدی کاظمی، شماره پانزدهم، تابستان ۱۳۹۲، ص ۱۷-۱٫
۵ ۔ http://www.afghanpaper.com/nbody.php?id=144751.

 

مشرقی ممالک کا عروج اور یورپی معیشت کا زوال

  • ۳۶۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق: جن دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے، ایران کے خلاف ایک نیا تشہیری ڈرامہ رچانے کے لئے، اپنے وزیر خارجہ مائیک پامپیو کو مغربی ایشیا کے دورے پر روانہ کیا، قدیم براعظم (ایشیا) کے مشرق میں چینی حکمران امریکہ کی معاشی بالادستی کی آخری زنجیریں توڑنے کے لئے شدید محنت میں مصروف تھے۔ وہ عالمی معیشت کے منظومے میں “یوآن” کو “ڈالر” کے متبادل کے طور پر تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔
وہ ـ جو حال ہی میں امریکہ کے ساتھ محاصل (Tariffs) کی جنگ سے چھٹکار پا چکے ہیں ـ اپنی آرزوئیں بڑی احتیاط کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن دنیا کے اقتصادی راہنما کچھ زیادہ صراحت کے ساتھ اس موضوع کو بیان کرتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے برطانوی مرکزی بینک کے سربراہ مارک کارنی (Mark Joseph Carney) نے کہا کہ “توقع کی جاتی ہے کہ [چینی] یوآن امریکی ڈالر کے لئے سنجیدہ رقیب کے طور پر ابھر آئے اور عالمی تجارت میں اصلی اور بنیادی زر مبادلہ میں تبدیل ہوجائے۔
یہ بہرحال ایک پیش گوئی ہے، لیکن دوسری طرف سے روس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کم کرنا شروع کردیئے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے ممالک امریکہ پر مزید اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ روس کے مرکزی [یا اسٹیٹ] بینک نے حال ہی میں اعلان کیا کہ روس نے زر مبادلہ میں سے ڈالر کے ذخائر کو پہلی مرتبہ کافی حد تک کم کردیا ہے اور ۱۰۰ ارب ڈالر کو یورو، چینی یوآن اور جاپانی ین میں تبدیل کردیا ہے۔
چین عالمی اقتصادی چوڑیوں کو فتح کررہا ہے اور روس بھی حالیہ چند برسوں کے دوران مغربی ایشیا اور افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں اچھی خاصی کامیابیاں حاصل کرچکا ہے۔ چین کا جنوب مغربی پڑوسی ملک “بھارت” بھی اپنی معیشت کو تیزرفتاری سے ترقی دے رہا ہے اور ماہرین کے تخمینوں کے مطابق سنہ ۲۰۳۰ع‍ تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی دوسری معیشت قرار پائے گا۔
یہ تبدیلی البتہ ناقابل تصور اور ناپیش بیں (Unpredictable) نہیں تھی۔ امریکہ کی قومی سراغرساں کونسل (National Intelligence Council) کے ۲۳۵ صفحات پر مشتمل تزویری تشخیص (یا Strategic evaluation) کے مطابق، ـ جس میں عالمی اقتصادی مستقبل کی پیش گوئی کی گئی ہے ـ چین پر عالمی معیشت کے مرکز قطب کے طور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
امریکی قومی سراغرساں کونسل نے سنہ ۱۹۹۷ع‍ سے اب تک ـ ہر چار سال ایک بار ـ غیر درجہ بند اور غیر خفیہ، تزویری تشخیصی رپورٹیں پیش کی ہیں، جن میں اگلے ۲۰ سالہ معاشی پیش بینیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تزویری تشخیصی رپورٹ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اعلی حکام کو پیش کی جاتی ہے تا کہ وہ اس کی بنیاد پر سوچ بچار اور منصوبہ بندی کریں۔
حالیہ تزویری تشخیصی رپورٹ میں ـ جو ۲۰۱۷ع‍ میں شائع ہوئی ہے ـ بھارت اور روس کے مستقبل پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ چنانچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چین، اور اس کے ساتھ معاشی روابط منظم کرنے، کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا تھا، تاہم چین کی دیوقامت معیشت کے آگے امریکی طاقت کی تنزلی نے انہیں چند قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ یہ تزویری تشخیص ـ جو “ترقی کا تضاد” (Paradox of Progress) کے عنوان سے شائع ہوئی ہے ـ کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کی معیشت ـ خواہ سست رفتار ہی کیوں نہ ہو ـ ترقی کرے گی۔
اس تشخیص کے مطابق، چین اور روس مستقبل میں زیادہ طاقتور ہوجائیں گے۔ یہ دونوں طاقتیں ـ باوجود اس کے، کہ ان کی مادی ترقی میں کمی آئے گی ـ اپنے اثر و رسوخ کی حدود کو وسعت دینے کے درپے ہیں اور اپنی پالیسیوں کو اس انداز سے ترتیب دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ دنیا والے بآسانی سمجھ لیں کہ یہ دونوں ممالک اپنے اطراف کے ممالک میں امریکہ کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ روس وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے درپے رہے گا، چین سستا ایندھن وصول کرنے کے لئے کوشاں ہوگا اور بھارت، جو اپنی معاشی ترقی کے بموجب مزید طاقتور ہورہا ہے، اپنے مفادات کو ان علاقوں میں تلاش کرے گا اور ماسکو ـ واشنگٹن تعلقات کی سمتوں کا تعین کرے گا۔ بلقان کی حدود نیز یورپ کے دوسرے علاقوں میں روس کے اثر و رسوخ نے براعظم یورپ میں روس کے خلاف جذبات کو تقویت پہنچائی ہے۔ روس ایک طرف سے جتا رہا ہے کہ گویا وہ بین الاقوامی تعلقات کے درپے ہے اور دوسری طرف سے مغربی اداروں کو کمزور کرکے اس علاقے کی جمہوریت میں کچھ ایسے راہنماؤں کو بر سر اقتدار لانے کی کوشش کررہا ہے، جو امریکہ کے خلاف مزاحمت اور واشنگٹن کے ساتھ تقابل کو تقویت پہنچائیں گے۔
کیا عوام بھی اقتصادی رونق کا مزہ چکھ لیں گے؟
اس تزویری تشخیصی رپورٹ کے مطابق، اگلے اگلے برسوں میں عالمی معیشت، بڑی معیشتوں کے زیر اثر، پہلے سے زیادہ مالیاتی دباؤ، عدم استحکام اور عدم اطمینان کا سامنا کرے گی۔ یہ واقعات و حوادث خاص طور پر چین اور بھارت کی معیشت کے زیر اثر نمودار ہونگے، کیونکہ ان ممالک کی معیشت ـ خواہ ان کی رفتار اگلے برسوں میں کم ہی کیوں نہ ہو ـ دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرے گی۔ اس صورت حال نے انضمامِ وسائل اور اشتمال معیشت اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کے سلسلے میں شک اور تذبذب میں اضافہ کر لیا ہے۔ مستقبل میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں ـ یعنی چین اور یورپی اتحاد ـ کو افرادی سرمائے کی تکمیل کے سلسلے میں سنجیدہ چیلجوں کا سامنا ہوگا، جس کی وجہ چین میں یہ ہے کہ عرصہ دراز سے وہاں خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلے میں “ایک دہائی، ایک بچہ” کی پالیسی ہے [اور یورپ کے زیادہ تر ممالک میں آبادی میں مسلسل کمی ہورہی ہے]۔ عالمی تجارت کی مزید آزادی ممالک میں قدامت پسندانہ جذبات مشتعل ہونے کا سبب بنے گی جس کے نتیجے میں ممالک اتحادوں سے پسپا ہوں گے۔
چونکہ چین مصنوعات کی مانگ کا رو بہ ترقی مرکز ہوگا، لہذا ممالک چین کے ساتھ سمجھوتہ کریں گے، چین کو مصنوعات کی ٹرانزٹ اور منتقلی کے بھاری اخراجات کی وجہ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ نقصانات عدم پیداوار کی صورت میں ظاہر ہونگے اور چونکہ چین نے پیداوار کے لئے وسیع سرمایہ کاریاں کی ہیں، یہ ملک عدم پیداوار کی وجہ سے مقروض ہوجائے گا اور اس کی منڈیوں میں عدم توازن میں اضافہ ہوگا اور چینی معیشت کی عظمت کی بنا پر، یہ عدم توازن چین پر بہت بڑے اخراجات مسلط کرے گا، جس کی وجہ سے عالمی اتار و چڑھاؤ دیکھنے میں آئے گا؛ اسی بنا پر مصنوعات کی منتقلی کے اخراجات میں کمی چین کے لئے حیاتی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ جب چین کو معاشی نقصان کا سامنا ہوگا، اس ملک کے اندر زندگی کا معیار درہم برہم ہوجائے گا، سماجی استحکام متاثر اور کمزور ہوگا اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طاقت میں کمی آئے گی۔
چین کی آبادی بڑھاپے کا شکار ہے، اور آبادی کا بڑھاپا اس بات کا سبب ہوگا کہ یہ ملک سبکدوشی کے قوانین کو نرم کرے اور صحت و حفظان صحت کی خدمات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات عمل میں لائے؛ اور یہی مسئلہ بھی مزید پیچیدگیوں کا سبب بنے گا۔
چین پیداوار کے اخراجات میں اضافہ کرکے، یا حکومتوں کو ٹرانزٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلا کر نیز نقل و حمل کے ڈھانچے کو بہتر بناکر، مصنوعات کی منتقلی کے اخراجات کم کرسکتا ہے۔
یورپی معیشت میں فنی اوزاروں کی سطح عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ بریگزٹ (Brexit) یعنی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی سیاسی چیلنجوں کا سبب بنے گی؛ یونان، اطالیہ اور ہسپانیہ کے قرضوں کا مسئلہ بھی یورپی اتحاد کی مالیاتی زری پالیسیوں پر اثر انداز ہوگا۔ یورپ میں آزاد تجارتی نظام اور اقتصادی لبرلیت کے خلاف اٹھنے والی صدا بہت طاقتور ہوجائے گی۔ یورپ کے اندر عالمی اقتصاد میں ضم ہونے کی خواہش ماضی کی طرح طاقتور نہیں ہے۔
بھارت اپنی عظیم آبادی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کامیابیوں کی بنا پر عالمی سطح پر اقتصادی ترقی کی استعداد رکھتا ہے؛ لیکن اس کو توانائی، نقل و حمل اور پیداواری ڈھانچے کے لحاظ سے اپنی قوت میں اضافہ کرنے پڑے گا۔ بھارت افرادی قوت کے لحاظ سے چین کی نسبت کم مسائل سے دوچار ہوگا تاہم اسے موجودہ زمانے میں روزگار کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے بنیادی تعلیم اور اعلی تعلیم کے شعبے پر زیادہ کام کرنا پڑے گا۔
افریقہ میں اقتصادی ترقی کے امکانات کے سلسلے میں امیدیں پائی جاتی ہیں لیکن سیاسی لحاظ سے ان علاقوں میں نسلوں کے درمیان کے عبوری دور کے سلسلے میں تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ افریقہ میں کام کاج کے قابل افراد قوت کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے جو آئندہ دو دہائیوں میں ایک عظیم اقتصادی فائدہ سمجھی جاتی ہے۔
عالمی معیشت کے اشتمال (Integration) کو ایسی تحریکوں کی طرف سے خطرہ لاحق ہے جو عالمی تجارت اور آزاد منڈی کے خلاف اٹھ چکی ہیں۔ عالمی تجارتی ادارے (World Trade Organization [WTO]) کو بعض ممالک کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے جو تجارت کو محدود کرنا چاہتے ہیں یا بحرالکاہل کے آرپار شراکت داری (ٹی ٹی پی) (۱)، سے متعلق مفاہمتوں کی مخالفت کررہے ہیں۔
ٹیکنالوجی مستقبل میں بارآوری (Productivity) کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی لیکن یہ ہمیشہ سے مزدوروں کی پریشانی کا سرچشمہ بھی ہے۔ چنانچہ جب بارآوری کی بات ہوتی ہے تو ٹیکنالوجی کی ترقی ہی کلیدی اور حیاتی سمجھی جاتی ہے؛ خصوصا ان ممالک میں جہاں اقتصادی ترقی کے تحفظ کے لئے افرادی قوت اور انسانی سرمایہ کم پڑ جاتا ہے یا ایک ہی حالت میں باقی رہتا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ، تحقیق اور ترقی، قوانین و ضوابط، انتظامی روشیں، تعلیم و تربیت وغیرہ بھی اہم ہیں جن کے لئے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اندر کی طرف نگاہ
اگرچہ شمالی امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسی صنعتی جمہوریتوں اپنے متوسط طبقے کے اندر فلاح و بہبود کے احساس کے تحفظ کی کوشش کررہی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ عوامیت (Populism) نیز مقامیت (Localism) کے محرکات کو بھی معتدل بنانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ ان ممالک میں اندر کی طرف نگاہ، گذشتہ دہائیوں کی مہنگی بیرونی مہم جوئیوں کی جگہ لے لےگی۔ [اور یہ ممالک اندرونی معاملات سلجھانے کو ترجیح دیں گے]۔ یہ امکان یورپی اتحاد میں دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہوگا اور یورپی حکمرانی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرے گا اور اتحاد کے اندرونی چیلنجوں کو نمایاں کرے گا۔
یورپی اتحاد کے اندرونی اختلافات، آبادی سے متعلق مسائل اور اقتصادی پالیسیوں کا ناکامیاب نفاذ، ایک عالمی کردار کے طور پر یورپ کی پوزیشن کو خطرے میں ڈالے گا۔ اگلے پانچ سالوں میں، اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے یا بریگزٹ سائے میں، یورپی روابط کی تعمیر نو کا اہتمام کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے یورپی اتحاد کمزور اور اس کے نتیجے میں بحر اوقیانوس کے آر پار [امریکہ ـ یورپ] تعاون کھوکھلا پڑ جائے گا۔ دوسری طرف سے پناہ گزینی کے خلاف پائے جانے والے جذبات عوامیت پسندی {Populism) کو فروغ دیں گے، جس کی وجہ سے یورپ کے سیاسی راہنماؤں کی اندرونی حمایت میں کمی آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.fdn.ir/news/25053
۱۔ Trans-Pacific Partnership [TPP]، ایک مفاہمت نامہ جس میں [چین کے سوا] بحر الکاہل کے ۱۲ ممالک شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کیا عربوں کی پیشانی پر احمق کندہ ہے؟

  • ۳۸۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تنظیم آزادی فلسطین (Palestine Liberation Organization – PLO [1] کی ورکنگ کمیٹی کے جنرل سکریٹری صائب عریقات [۲] نے حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائک پامیو کے ذریعہ قاہرہ کی یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کے سلسلہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ” کیا آپ کو عربوں کی پیشانی پر احمق لکھا ہوا نظر آتا ہے؟ تنظیم آزادی فلسطین (Palestine Liberation Organization – PLO کے رہنما مائک پامیو کی جانب سے مصر کی قاہرہ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کے اس حصہ پر تنقید اور طنز کر رہے تھے جس میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ” انکا ملک علاقے میں خیر و نیکی کا سرچشمہ ہے” ۔
ایسنا کی رپورٹ کے مطابق صائب عریقات نے مصر کی ایک یونیورسٹی میں امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر کی گرفت کی جس میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ انکا ملک علاقے میں اچھائیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے، صائب عریقات نے امریکہ کے خطے میں خیرو برکت کے سرچشمے والی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو عربوں کے ماتھوں پر احمق لکھا ہوا نظر آتا ہے؟
القدس العربی کی تحریر کے مطابق پامئیو نے قاہرہ میں ایک امریکن یونیورسٹی میں اس بات کا دعوی کیا تھا کہ انکا ملک علاقے میں نیکیوں کا سرچشمہ ہے اور امریکہ اور اسرائیل کے درمیان صلح کو تحقق بخشے گا ۔
عریقات نے اپنے بیان میں آگے چل کر کہا کہ امریکہ کے صدر جمہوریہ ڈونالڈ ٹرنپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا پائتخت قرار دینا، فلسطینیوں پناہ گزینوں اور رفیو جیز کے مسئلہ کو مذاکرات سے حذف کرنے پر اصرار، بیت المقدس میں امریکن قونصل خانے کو بند کرنا، واشنگٹن میں اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR ) کے دفتر کو [۳]کو بند کرنا ، صہیونی شہری تعمیرات کو مقبوضہ فلسطین میں قانونی اور جائز قرار دینا ، یہ تمام وہ چیزیں ہیں جنہوں نے امریکہ کی جانب سے صلح کے تحقق کے امکان کو از حد کم کر دیا ہے ۔
تنظیم آزادی فلسطین (Palestine Liberation Organization – PLO کی ورکنگ کمیٹی کے جنرل سکریٹری نے امریکی وزیر خارجہ کی گفتگو کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا :”جو کچھ قابض صہیونیوں کی جانب سے جنگی جرائم کی صورت میں انجام پا رہا ہے ،اسکی توصیف ہرگز اپنے دفاع کے طور پر نہیں ہو سکتی ، (جنگی جرائم اور اپنے دفاع میں ٹکراو پایا جاتا ہے ہرگز دفاعی انداز جنگی جرائم کے ارتکاب کا سبب نہیں بنتا)۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکومت نے فلسطینیوں کی تمام مدد روک دی ہے یاامداد پر پابندی لگا دی ہے اس میں جزوی طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کو امداد پہنچانے والے ادارے UNRWA [4]کی امداد ، ہسپتالوں کی امداد کی فراہمی شامل ہے جسے اب بند کر دیا گیا ہے، علاوہ از ایں فلسطین کے قومی دستور کی نابودی کے مقصد تحت اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں فلسطین کے حق میں ووٹنگ کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دینا اور باختری کنارے [۵]سے غزہ پٹی[۶] اور بیت المقدس کوعلیحدہ کرنے کی کوششیں اور وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ فلسطین کی جانب سے کی جانے والی پیشکش صلح قائم نہیں کر سکتی ، یہ تمام باتیں وہ ہیں جنکا تسلسل کبھی بھی صلح کے وجود میں آنے کا سبب نہیں ہو سکتا (جبکہ امریکہ انہیں باتوں پر مصر ہے) چنانچہ ۲۰۱۷ دسمبر کے مہینے میں ٹرنپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کے پائتخت کے طور پر متعارف کراتے ہوئے اسے قانونی حیثیت بخش دی۔ جسکی بنیاد پر فلسطین کی قیادت نے امریکیوں کے ساتھ گفت وشنید وتبادل خیال کو روک دیا، اور امریکہ کی فلسطین میں امن و صلح کے مراحل میں مستقل طور پر نظارت کو مسترد کرتے ہوئے، مختلف فریقوں کو صلح فلسطین کے سلسلہ میں متحرک ہونے کی دعوت دی ۔
https://www.isna.ir/news/97102211382/%D8%B9%D8%B1%DB%8C%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%AE%D8%B7%D8%A7%D8%A8-%D8%A8%D9%87-%D9%BE%D8%A7%D9%85%D9%BE%D8%A6%D9%88-%D8%B1%D9%88%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D8%B9%D8%B1%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%D9%84%D9%85%D9%87-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D9%82-%D9%86%D9%88%D8%B4%D8%AA%D9%87-%D8%B4%D8%AF%D9%87
حواشی:
[۱]تنظیم آزادی فلسطین، جسے عربی اور انگریزی میں با الترتیب منظمة التحریر الفلسطینیة) اورPalestine Liberation Organization – PLO) کہا جاتا ہے ایک تنظیم ہے جو ایک آزاد فلسطین کے قیام کے کیے ۱۹۶۴ء میں بنی۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: https://www.nytimes.com/1964/05/29/archives/arabs-create-organization-for-recovery-of-palestine.html
[۲] ۔ حرکت فتح سے متعلق، فلسطینی سیاست مدار اور پی ایل او کی اسٹرینگ اور مانیٹرنگ کمیٹی کے سربراہ ، میڈریڈ کانفرنس میں فلسطینی وفد کے اعلی عہدے دار ۔
[۳] ۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین (UNHCR ) دسمبر ۱۹۵۰ء میں قائم کیا جانے والا اقوام متحدہ کا ذیلی دفتر ہے جو بین الاقوامی سطح پر مہاجرین کی حفاظت اور امداد کا ذمہ دار ہے۔ مہاجرین کی امداد و حفاظت کے لیے یا تو کوئی حکومت باضابطہ درخواست دائر کرتی ہے یا پھر اقوام متحدہ اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر یہ کام سر انجام دیتی ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف مہاجرین کے فلاح، حفاظت اور امداد کا کام سر انجام دیتا ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں مہاجرین کی دوبارہ آبادکاری کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، یاد رہے کہ اس ادارے کا کام کلی طور پر فلاحی ہے۔ اس ادارے کا مرکزی دفتر سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں قائم ہے
[۴] ۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ۱۹۴۹ میں قائم ہونے والا ایسا ادارہ جسکا کام خطے میں فلسیطنیی پناہ گزینوں کو امداد پہچانا اور انکے لئے کام تلاش کرنا ہے جسے { United Nation Relife and Work Agency for palestine Refugeesian in the Near East) کہا جاتا ہے
Dowty, Alan (2012), Israel/Palestine, Polity, p. 243, ISBN 9780745656113،
[۵] ۔ مغربی کنارہ (عربی: الضفة الغربیة‎، انگریزی: West Bank) دریائے اردن کے زمین بند جغرافیائی علاقے کو کہا جاتا ہے جو مغربی ایشیا میں واقع ہے
[۶] ۔ مصری سرحدوں سے متصل فلسطین کا ایسا علاقہ جس کواسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امریکہ ہمیشہ سے زیادہ بےبس / طاقت کے اظہار کے لئے لفاظیوں کا سہارا

  • ۳۸۹

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ نے جارج ڈبلیو بش (باپ) کے زمانے سے مشرق وسطی میں قبضہ گری اور فوجی مداخلت کی پالیسی اپنا رکھی ہے جو خطے کے ممالک کے لئے بدبختیوں اور امریکہ کے لئے بھی عظیم ترین جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنی ہوئی ہے؛ چنانچہ اوباما نے بش کی تباہ کاریوں کے ازالے کی کوشش کی اور اسی مقصد سے اس نے عراق اور افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا آغاز کیا، لیبیا، یمن اور شام میں مداخلت سے امریکہ کو دور رکھنا چاہا اور نیٹو اور یورپی اتحادیوں کی صف اول سے دور رہنے کی کوشش کی۔
اوباما امریکی معاشی رونقیں بحال کرنے اور اپنے ملک کو نئی فوجی مہم جوئیوں سے دور رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے، انھوں ںے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منعقد کیا اور کئی عشرے سرد جنگ اور پابندیوں کے بعد، کیوبا کے ساتھ امن و آشتی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ لیکن “پراپرٹی ڈیلر” اور “جائیداد بنانے والے” ٹرمپ نے ـ جو امریکہ کی رائج جماعتی رویوں کے برعکس، مشکوک مقبولیت کے ساتھ ریپلکن پارٹی کی چھتری تلے، ناقابل یقین انداز سے وائٹ ہاؤس کے تخت نشین بن گئے ہیں ـ ڈیموکریٹ اوباما اور ریپبلکن جارج بش کی پالیسیوں سے متصادم پالسیاں اپنا رکھی ہیں، یہاں تک کہ وہ سمجھے بوجھے بغیر بولتے ہیں اور جانچے پرکھے بغیر عمل کرتے ہیں، اور ان کا ہر کام بدنظمیوں کا باعث بنتا ہے اور یوں وہ اوباما انتظامیہ کی حصولیابیوں کو ضائع کرچکے ہیں۔
مال اندوز ٹرمپ، یورپ میں اپنے سب سے قریبی اتحادیوں کے ساتھ لڑ پڑے ہیں، نیٹو پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور یورپی اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ انہیں دستخط شدہ خالی چیک (Blank checks) دےدیں، جس کی وجہ سے یورپی حکمران بھی ناراض ہوئے ہیں اور “مستقل یورپی فوج” کی تشکیل اور امریکی معاشی معاملات سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔
ٹرمپ اپنے قریب ترین عرب اتحادی “سعودی عرب” کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں اور اس کو “شیر دار” گائے کا لقب دیتے ہیں کیونکہ وہ ریاض کے ساتھ سینکڑوں ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے کہتے ہیں کہ “اگر امریکہ کی حمایت نہ ہو تو سعودی دو ہفتوں تک بھی اپنا اقتدار محفوظ نہیں رکھ سکیں گے”، جبکہ سعودیوں نے حالیہ کئی عشروں سے کئی سو ارب ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے خرید لیا ہے۔ صورت حال اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ غاصب یہودی ریاست ـ جو علاقے میں امریکی مداخلتوں کا اصل سبب ہے اور جس کی حفاظت واشنگٹن کی حفاظت سے بھی زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے ـ آج اپنے سلامتی کے لئے ماسکو کی طرف دیکھنے لگی ہے، کیونکہ جو کچھ شام میں وقوع پذیر ہوا ہے اس کی امریکہ کو توقع نہ تھی۔
اس مرحلے میں، جبکہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو کھو رہا ہے اور ٹرمپ کے ناگہانی فیصلے سب کو حیرت زدہ کرتے ہیں، واشنگٹن کے رقیب ممالک ـ خصوصا روس، چین اور یورپی اتحاد کے رکن ممالک اپنے سیاسی، اقتصادی، اور فوجی مفادات کے حصول کے لئے ـ ترکی اور افریقی ممالک میں قدم جمانے لگے ہیں جبکہ یہ ممالک ماضی قریب میں امریکہ کے زیر تسلط تھے۔ عرب ممالک بھی ـ جو کہ امریکہ کے مدار میں گردش کررہے ہیں ـ شام کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے درپے ہیں، اگرچہ بعض عرب حکمران ابھی تک دمشق کی حکومت کے خاتمے کے پرانے نعرے دہرا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ نے ٹرمپ کے دور میں اپنے آپ کو اپنے اتحادیوں سے دور اور تنہا کردیا ہے اور اپنے رقیب ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے، اب اس پر کم ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے اور ناقابل پیشگوئی (Unpredictable) ہوچکا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے روایتی اتحادی امریکہ سے مایوس ہوکر اپنے آپ کو دوسری علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے برابر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ وائٹ ہاؤس کے غیر سنجیدہ تخت نشین کے عجیب و غریب اقدامات اور ناگہانی فیصلوں سے زیادہ متاثر نہ ہوں۔
وزیر خارجہ مائیک پامپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا بیک وقت دورہ مشرق وسطی یہاں کے ممالک اپنے ساتھ ملانے اور یہ بتانے کے لئے شورع ہوا کہ “امریکہ بدستور ایک طاقتور ملک ہے” لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی امریکی حکام آپ بییتیاں بیان کرنے لگتے ہیں اور لفاظیوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکی طاقت شدت سے کم ہورہی ہے، امریکہ سستی اور بیماری کا شکار ہوچکا ہے اور ماضی کی طرح مشرق وسطی میں جیسا چاہے، پینترے بازیاں نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ علاقے کی دو جڑواں ریاستوں کے بنیامین نیتن یاہو اور محمد بن سلمان بھی جتنا روسی صدر پیوٹن پر اعتماد کرسکتے ہیں، اتنا وہ ٹرمپ پر اعتماد نہیں کرسکتے؛ کیونکہ پیوٹن جانتے ہیں کہ انہیں کیا کہنا چاہئے اور کیسا رویہ اپنانا چاہئے لیکن ان کے امریکی ہم منصب ان اوصاف سے عاری ہیں کیونکہ ان کے فیصلوں کا اعلان یا تو ٹوئیٹر یا ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ہوتا ہے یا پھر وہ اپنی بیٹی ایوانکا یا داماد کوشنر کی تجویز پر فیصلے اور اعلانات کرتے ہیں؛ جبکہ وہ اپنے ذاتی کاروبار کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور وائٹ ہاؤس میں کسی اہم اجلاس کے دوران بھی اپنے کاروباری اور اقتصادی منصوبوں کے لئے کسی ضامن اور کفیل (sponsor) کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: احمد المقدادی العالم نیوز چینل
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اسرائیل میں ہم جنس پرستی کا رواج

  • ۴۴۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہم جنس پرستی ایک ایسی وبا ہے جو عرصہ دراز سے بشریت کے دامن گیر ہو چکی ہے لیکن کچھ سالوں سے یہ وبا بہت تیزی سے انسانی معاشروں میں پھیلتی جا رہی ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد اس کی طرف کھچی چلی آ رہی ہے۔ اسرائیل بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جو معرض وجود میں آنے کے بعد تو کچھ عرصے تک اس عمل کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیتا رہا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد حالات میں تبدیلی آ گئی اور گزشتہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے دی گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل ہم جنس پرستی کا سب سے بڑا اڈہ اور حامی بن چکا ہے۔(۱) یہاں تک کہ ہم جنس پرست سیاحوں کے لیے کلب اور مخصوص پارک بنائے گئے ہیں اور سالانہ وافر مقدار میں پیسہ اس طریقے سے  کمایا جاتا ہے(۲)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں یہودیوں کی عملی زندگی پر اگر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حیوانی اور نازیبا عمل ان کی زندگیوں میں نظرنہیں آتا اسی وجہ سے یہودیوں کی مقدس کتاب “تلمود” میں اس موضوع کے سلسلے سے کوئی گفتگو نہیں ملتی۔ حتیٰ میلاد مسیح سے قبل بھی اس معاشرے میں ’’ہلنی‘‘ اور ’’یہودی‘‘ نامی دو ثقافتیں موجود تھیں اور یہودی کافی حد تک ہلنی ثقافت سے متاثر تھے اور ہلنی ثقافت میں ہم جنس پرستی کھلے عام پائی جاتی تھی اس کے باوجود اس دور کے یہودی اس بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ ایسے حال میں تھا کہ جناب لوط، جناب بلیعال اور بنیامین کے زمانے میں یہ عمل گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا اور اس گناہ کے مرتکب ہونے والے کو پھانسی کی سزا دی جاتی تھی۔
لیکن اسرائیل میں مذہبی گروہوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود، ہم جنس پرست یہودیوں نے “ماگنوس ہرشفیلڈ” کی سرپرستی میں پہلا گروہ تشکیل دیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ۱۹۷۷ میں پہلی بار تل ابیب میں ہم جنس پرستوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اور نتیجہ میں دو دہائیوں سے کم عرصے میں یہ عمل قانونی شکل اختیار کر گیا۔ اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد فلسطین کے مقدس شہر القدس میں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ آرتھوڈوکس یہودی کہ جو دوسرے یہودیوں کی نسبت زیادہ مذہبی تھے کی مخالفت کے باوجود، اصلاح طلب یہودی ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہونے لگے اور انہوں نے اپنے رابی اور معبد بھی الگ کر لئے۔
در حقیقت اسرائیل میں یہ انحرافی فکر سنہ ۱۹۸۸ کی طرف پلٹی ہے جب کینیسٹ نے آرتھوڈوکس ربیوں کی مخالفت کے باوجود ہم جنس پرستی کی سزا کے قانون کو منسوخ کیا۔ اس ماجرے کے بعد اس موضوع پر عبرانی اور انگریزی زبان میں مختلف جریدے چھپنے لگے۔ حکومت وقت نے اس جماعت کی حمایت کے لیے مختلف طرح کے دیگر قوانین جیسے ’’ ہم جنس شادی کو سرکاری حیثیت دینا، منہ بولا بیٹا لینے کو جواز فراہم کرنا، انہیں سرکاری نوکریاں دینا، ہم جنس جوڑوں سے مربوط حقوق کی حمایت کرنا جیسے وراثت کا حق، راشن کارڈ کی منظوری، ہم جنس پرستوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کی روک تھام، وغیرہ وغیرہ منظور کئے۔
دین اور انسانیت مخالف اس اقدام نے یہودی مذہبی سماج خصوصا آرتھوڈوکس جماعت کو انتہائی غضبناک کیا۔ وہ ہم جنس پرستی کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور اس عمل کے مرتکب ہونے والے افراد کو جانوروں کے برابر سمجھتے ہیں۔ ایک آرتھوڈوکس ربی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا: ’’پہلے تل ابیب سیکولر افراد کے اجتماع کا مرکز اور قدس دیندار یہودیوں کا پایتخت تھا لیکن اب ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ فساد کے آلات اور غیر اخلاقی جرائد کے فروخت کی دکانیں اب پورے قدس حتیٰ دیوار گریہ کے پاس بھی دیکھنے کو ملتی ہیں‘‘۔
مذہبی یہودیوں کے عقیدے کے مطابق، ہم جنس پرستی غضب الہی کا سبب اور عذاب الہی کا باعث ہے۔ مثال کے طور پر ’’شلومو بنیزری‘‘ کہ جو کینیسٹ میں ’’شاسی‘‘ پارٹی کے رکن اور صہیونی ریاست کے سابق وزیر بھی ہیں اس بارے میں کہتے ہیں: مجھے ایسے زلزلے کا انتظار ہے جو پورے اسرائیل کا نابود کر دے چونکہ حکومت ہم جنس پرستی کو رواج دے رہی ہے اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کر ری ہے‘‘۔
یہ ناراضگیاں بعض اوقات پرتشدد کاروائیوں کا سبب بھی بنیں اور بعض اوقات موت کا۔ ۲۰۰۵ میں ہونے والی ہم جنس پرستوں کی ریلی میں ایک آرتھوڈوکس یہودی نے ریلی پر حملہ کیا اور ایک آدمی کو ہلاک اور دسیوں کو زخمی کر دیا۔ ایسے واقعات متعدد بار اس جیسی ریلیوں میں رونما ہوتے رہے ہیں.
مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چہ ہم جنس پرستی ایک عوامی جماعت کا مطالبہ تھا لیکن یہودیوں کی مذہبی اکثریت کے باوجود کیوں اسرائیل پر حاکم نظام نے اس انحرافی ٹولے کی حمایت کی اور اس نازیبا فعل کو قانونی قرار دیا؟
ہم جنس پرستی کی حمایت میں اسرائیلی حکومت کے دلائل
۱۔ اسرائیلی حکومت ہمیشہ سے فلسطین کے مقامی لوگوں کے ساتھ ناروا رویہ اپناتی رہی ہے جو اس بات کا سبب بنی کہ اسرائیل دنیا میں ایک نفرت بھرے چہرے کے عنوان سے پہچانا جائے۔ علاوہ از ایں، مقامی فلسطینی اس رژیم کے نسل پرستانہ اور طبقاتی اختلافات پر مبنی رویے کی وجہ سے رنج و الم اٹھا رہے ہیں۔ یہ امور اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی حکومت ان مشکلات کو حل کرنے اور اپنے ناروا کردار پر پردہ ڈالنے نیز اپنے جمہوری چہرہ کو ظاہر کرنے اور عالمی دباو سے خود کو نجات دلانے کے لیے ہم جنس پرستی کی حمایت کرے۔
۲۔ یہودی معاشرے اور سیاسی نظام میں سیکولر فکر کے پھیلنے کی وجہ سے مذہبی افکار بے حد متاثر ہوئے اور ساتھ ساتھ دینی اور اخلاقی ادارے بھی کمزور ہوتے گئے۔ البتہ اس درمیان اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اسرائیلی سیاسی گروہ بھی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ مذہبی اور سیکولر گروہوں میں تعادل برقرار کرنے کے لیے جہاں مذہبی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں وہاں ہم جنس پرستی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
۳۔ یہودی ریاست کی زیادہ تر توجہات مذہب کے بجائے قومیت پر ہیں لہذا یہ بات بھی باعث بنی ہے کہ دینی اور مذہبی حدود سے باہر نکل کر اسرائیلی حکومت، یہودی معاشرہ کے ہر مطالبے کو پورا کرے بھلے وہ مخالف دین و شریعت ہی کیوں نہ ہو۔
۴۔ ہم جنس پرستی کے رواج کی ایک وجہ اسرائیلی معاشرے کی مختلف النوع تشکیل بھی ہے جو مختلف ملکوں سے ہجرت کر کے آئے ہوئے یہودی باشندوں سے تشکیل پائی ہے۔ لہذا اس معاشرے میں پائے جانے والے افراد مختلف مزاج، مختلف ذوق اور الگ الگ ثقافت کے مالک لوگ ہیں۔
۵۔ اسرائیلی عہدیداروں کی ہم جنس پرستی کی نسبت غفلت اور اس ناشائستہ اور نازیبا عمل کے مرتکب ہونے والوں کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے بھی دھیرے دھیرے یہ بیماری معاشرے میں پھیلتی گئی اور جب لوگوں کی کثیر تعداد اس کا شکار ہو گئی تو اسرائیلی حکومت کو اسے قانونی شکل دینا پڑی۔
۶۔ اور اہم ترین عامل اس بیماری کے پھیلاو میں خود اس کا قانونی جواز ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سیکولر معاشرہ بلکہ مذہبی معاشرہ بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
حواشی
۱ – https://www.yjc.ir/fa/news/4870797
۲- https://www.farsnews.com/news/13911201001077
۳- Magnose Hiresfield
۴- صفاتاج، مجید، دانشنامه صهیونیسم و اسرائیل، ج۶، تهران، آروَن، چاپ اول: ۱۳۸۸، ص۸۰۷-۷۹۴٫
تحریر: میلاد پورعسگری

 

اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں، یہودی بھاگ جائیں گے

  • ۴۵۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیلی مؤرخ بینی مورس (Benny Morris בני מוריס) ـ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ ۱۹۴۸ع‍ کے یوم نکبہ (Nakba Day) کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے بارے میں منصفانہ موقف اپناتا رہا ہے ـ نے یہودی ریاست کے اخبار “ہاآرتص” (Haaretz) سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینیی اپنی پوری سرزمین کی آزادی اور صہیونیت کی بیخ کنی کے عزم کے پابند ہیں۔
موریس نے زور دے کر کہا کہ کوئی علاقائی تصفیہ ممکن نہیں ہے اور کسی صورت میں بھی ملکوں کو تقسیم کرکے امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
موریس نے مزید کہا: جہاں تک یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کا تعلق ہے، تو میں نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آج بحر اور نہر (بحیرہ روم اور دریائے اردن) کے درمیانی علاقوں (یعنی سرزمین فلسطین) میں عربوں کی آبادی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے، اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے تمام علاقے اور شہر و دیہات، تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہے، وہ واحد ریاست میں بدل رہے ہیں جہاں عربوں کی اکثریت ہوگی؛ جبکہ اسرائیل “یہودی ریاست” کہلوانے پر اصرار کررہا ہے؛ لیکن جس حالت میں ہم ایک مقبوضہ سرزمین کے عوام پر مسلط ہوئے ہیں، جن کو کسی طرح کے حقوق نہیں دیئے گئے ہیں اس حالت کو اکیسویں صدی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا؛ اور اگر پھر ان کو ان کے حقوق دیئے جائیں تو اس صورت میں یہ ریاست یہودی ریاست نہیں رہے گی۔
انھوں نے کہا: اس سرزمین میں مشرق وسطی کی عرب اکثریتی ریاست قائم ہوگی اور اس ملک میں رہنے والے مختلف گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوگا، اور عرب [فلسطینی] پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور یہودی فلسطینی عربوں کے وسیع و عریض سمندر کے بیچ چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے؛ ایسی اقلیت جس کو یا تو مارا جائے گا یا پھر ان کا تعاقب کیا جائے گا؛ اور یہودیوں کا حال اسی زمانے کی طرح ہوگا جب وہ عرب ممالک میں سکونت پذیر تھے۔ (۱) اور یہودیوں میں جو بھاگ سکے وہ بھاگ کر امریکہ اور مغربی ممالک میں پناہ لے گا۔ اور فلسطینی عوام عرصہ دراز سے ان حالات کو وسیع نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں یہاں ۵۰، ۶۰ یا ۷۰ لاکھ یہودی رہتے ہیں جن کا سینکڑوں میلین عربوں نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ فلسطینی اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں۔ چونکہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا؛ چنانچہ فلسطینیوں کی کامیابی لازمی اور ناگزیر ہے۔ شاید ۳۰ سال بعد یا ۴۰ سال بعد، (۲) جو کچھ بھی ہوگا، وہ ہم پر غلبہ پائیں گے۔
موریس کے مطابق، جو بھی کہتا ہے کہ (یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم) ایہود بارک اور (سابق امریکی صدر) بل کلنٹن نے فلسطینیوں کو کچھ تجاویز دی تھیں جنہیں قبول کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ فلسطینی ۱۰۰ فیصد مقبوضہ سرزمین کو چاہتے ہیں اور جس وقت وہ مصالحت کے لئے آمادگی ظاہر کررہے تھے، در حقیقت چالیں چل رہے تھے۔
موریس نے مزید کہا: صہیونی قومی تحریک نے ۱۹۳۷ع‍، ۱۹۴۷ع‍، ۱۹۷۷ع‍ اور ۲۰۰۸ع‍ میں “دو قوموں کے لئے دو ریاستوں” کے قیام سے اتفاق کیا تھا!
بینی مورس نے یہودی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: نیتن یاہو فلسطینوں کے ساتھ مصالحت کے منصوبے پر کام نہیں کررہا ہے؛ گوکہ مصالحت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی لیکن نیتن یاہو پر لازم ہے کہ “دنیا والوں کی نظروں کے سامنے سفارتی کھیل کھیلتا رہے”۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ یہودی ریاست عربوں کے ساتھ شدیدترین دشمنی کے باوجود آج تک اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے کہ فلسطین پر یہودی قبضے سے قبل یہودیوں کو عرب ممالک میں کسی قسم کے اجتماعی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے چنانچہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ بینی مورس یورپی ممالک میں یہودیوں کی صورت حال کی مثال دیتا؛ جہاں اس جیسے یہودیوں کا دعوی ہے کہ انہیں قتل گاہوں یا ان کے بقول extermination camps میں لے جایا جاتا تھا اور کوڑا جلانے کی بھٹیوں (incinerators) میں جلایا جاتا تھا! جبکہ ایسا کوئی واقعہ عرب اور اسلامی دنیا میں رونما نہیں ہوا ہے۔
۲۔ شواہد بھی اور یہودی ریاست اور اس کے رو بہ زوال مغربی حامیوں کی صورت حال بھی ثابت کررہی ہے کہ یہودی ریاست کے دن گنے جاچکے ہیں، اور جناب بینی موریس بھی مؤرخ ہونے کے ناطے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے: ” دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”۔
۳۔ بینی موریس نے بظاہر یہودی ریاست کی بقاء کی خاطر یہ پیش گوئیاں فرمائی ہیں کیونکہ وہ اسی غاصب سسٹم کا حصہ ہے اور اس مکالمے میں بھی اس کے الفاظ میں عربوں سے شدید نفرت کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں، ورنہ تو وہ مکار نیتن یاہو کو مکاری کا سبق دینے کی کوشش کیوں کرتا؟

 

امریکی صدارتی انتخابات میں صیہونیت کا اثر و رسوخ

  • ۵۱۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ امریکی صدر سے لے کر "ولسن"  اور "اوباما"، سب نے کھلے عام یہ اعلان کیا کہ وہ صیہونیوں اور امریکی یہودی سرمایہ داروں کے مقروض ہیں۔ گذشتہ 40سالوں سے امریکہ کے تمام صدور نے اقتدار سنبھالتے ہی اسرائیل کا دورہ کیا اور صہیونیوں کے ساتھ بیعت کی۔ اور اس حکومت کے خطرے کو اپنا خطرہ قرار دیا۔  
امریکہ پہلی جنگ عظیم میں یہودی اور صہیونی سرمایہ داروں کے ذریعہ ہی داخل ہوا اور اس طرح اس جنگ کے نتائج بدل گئے۔ اور اس کے بعد، سائکسپیکو معاہدہ کیا گیا، جس کے دوران عرب دنیا اور عالم اسلام فرانس اور برطانیہ کے مابین تقسیم ہوگئے۔ مغربی ایشیاء کی تقسیم اور صہیونی حکومت کی تشکیل بھی اسی دور میں ہوئی۔ ان سارے واقعات کی وجہ صیہونی تھے اور اس بنا پر صہیونیوں نے امریکہ میں اپنا مزید اثر و رسوخ بڑھا دیا۔
جرمن یہودیوں نے ’ویس مین‘ کی زیرقیادت پہلی جنگ عظیم کے دوران ، انگریزوں سے کہا تھا کہ وہ جرمنوں کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں ، اور طے پایا کہ امریکہ کو غیرجانبداری سے نکالیں اور برطانیہ کے ساتھ امریکہ کو متحد کر کے جنگ میں کامیابی کا سہرا انگریزوں کے سر پر باندھیں۔ نیز اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ جرمنی کے یہودیوں کی طرف سے اس احسان کے بدلے میں، امریکی اور برطانوی فلسطین کو یہودیوں کے قبضے کے لئے تیار کریں۔
برطانیہ کے عظیم سرمایہ دار والٹر روتھشائلڈ کے ساتھ معاہدے کے ذریعے ’وائزمین‘ نے برطانوی بحریہ کے سربراہ اور برطانوی وزیر اسلحہ ’جیمز بالفور‘ کی وجہ سے امریکہ کو جنگ میں داخل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ نے جنگ کی پوزیشن بدل کر یہودیوں کے لیے جعلی ریاست کی تشکیل کے مقدمات فراہم کر دئے۔  
امریکی صدارتی انتخابات کے دوسرے دور میں ’ولسن‘ کا نصب العین ریاستہائے متحدہ کو جنگ سے دور رکھنا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ عملی طور پر جنگ میں وارد ہوا۔ ربی اسٹیفن وائز نے جنگ میں امریکہ کے داخلے کی تجویز پیش کی۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ کا سربراہ ایک یہودی تھا جس نے ولسن کو جنگ میں داخل ہونے پر راضی کیا تھا۔ بالآخر ، ایک امریکی کشتی اور جرمنی کے ایک جنگی جہاز کے مابین تصادم نے ریاستہائے متحدہ کے لیے پہلی جنگ عظیم میں داخل ہونے کی راہ ہموار کردی۔ اسی شخص نے جو امن کے نعرے کے ساتھ دوسرے چار سال کے لئے ریاستہائے متحدہ کا صدر منتخب ہوا تھا، بالفور اعلانیہ کے جاری کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور انگریزوں کے ساتھ فلسطین یہودی قبضے کو رسمیت دے دی۔
امریکہ میں صہیونی اقلیت کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ وہ منظم اور مرکوز سرگرمیوں میں مہارت رکھتے ہیں ، اور دولت اور میڈیا کا اچھا استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ امریکہ میں یہودیوں سے زیادہ عربوں،  مقامی امریکیوں اور تارکین وطن کی آبادی زیادہ ہے، لیکن صہیونیوں نے ہمیشہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اقتدار ، دولت اور عسکریت پسندی کے بنیادی اداروں پر قبضہ جمائے رکھا۔

 

امریکہ اور بین الاقوامی تنظیموں میں صہیونی اثر و رسوخ پر ایک نظر

  • ۳۶۰


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ  لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل نامی ایک جعلی ریاست، جو امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے تشکیل پائی تھی ، اب ان ممالک پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو گئی ہو۔ اس سوال کے پیش نظر، ہم اقوام متحدہ ، جوہری توانائی تنظیم ، اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان میں اسرائیل یا یہودیوں کا کتنا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے۔
یہودی امریکہ میں سب سے زیادہ اقلیت میں ہیں۔ تقریبا 5 ملین یہودی 80 ، 90 فیصد اقتدار ، دولت اور میڈیا کے اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس وقت مقبوضہ فلسطین کے بعد سب سے زیادہ یہودی امریکہ میں آباد ہیں۔ عالمی یہودی اسمبلی یہودیوں کی تعداد 15 سے 20 ملین بیان کرتی ہے ۔ بیشتر موجودہ یہودی غیر مذہبی اور بے دین ہیں اور انہوں نے سیکولر طرز زندگی کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن ایک بہت چھوٹی اقلیت ، جسے بنیاد پرست یہودی کہا جاتا ہے، مذہبی اور دیندار ہیں۔ ان میں سے کچھ یہودی صہیونی حکومت سے متفق ہیں ، جبکہ دوسرے اس کے اور اس کے تشکیل کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔

صہیونی اور سرمایہ دار یہودی امریکی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور فوجی ڈھانچے کے تقریبا تمام بڑے مراکز پر قابض ہیں۔ ابتدا ہی سے، انہوں نے امریکہ اور یورپ میں صیہونی یہودیوں کی موجودگی کو مستحکم کرنے کے لیے اپنے نٹ ورک بنا رکھے ہیں۔

صہیونی ریاست کے قیام سے پہلے یہودیوں کے زیادہ تر دشمن یورپی تھے ، لہذا اسرائیل کی تشکیل کی ایک وجہ یہودیوں کو یورپ سے بے دخل کرنا تھا۔ بنی اسرائیل کے تاریخی پس منظر کو دیکھتے ہوئے بالآخر یہودی ریاست بنانے کے لئے فلسطین کا انتخاب کیا گیا۔

یہودیوں کی پہلی نظر امریکہ میں دراندازی تھی۔ چونکہ ان پر یورپ میں دباؤ تھا ، ریاستہائے متحدہ بھی ایک نیا قائم کردہ ملک اور تقریبا ایک سپر پاور تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی تنظیموں ، عالمی سیاست اور بین الاقوامی اداروں میں بھی امریکہ نے کافی اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا۔

آج ، صیہونی یہودی اور ان سے وابستہ افراد پینٹاگون ، امریکی محکمہ جنگ ، ہالی وڈ ، میڈیا ، معاشی اور سرمایہ دارانہ کمپنیوں ، بڑے امریکی بینکوں ، بڑی امریکی یونیورسٹیوں اور اسلحہ ساز کارخانوں وغیرہ میں اہم عہدوں پر ہیں۔ امریکہ میں ریپبلک پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی مہموں میں زیادہ تر سرمایہ کار صیہونی یہودی ہیں۔  ریپبلکن اور ڈیموکریٹک امیدواروں کی ریڈ لائن امریکی یہودیوں کی رضامندی ہوتی ہے اور دونوں پارٹیاں اس حکومت کے ساتھ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

ڈالر کے تسلط کا ممکنہ خاتمہ اور اس کے محرکات

  • ۳۷۷

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فارس نیوز ایجنسی[۱] کے اقتصادی شعبے سے متعلق نامہ نگار کے مطابق نے رشا ٹوڈے[۲] “Russia Today” RT سے نقل کرتے [۳]ہوئے لکھا کہ سن ۲۰۱۸ ء ایسے حوادت کو اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا کہ جنکے سبب دنیا جیوپولیٹکل بنیاددوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی : ایک حصہ ان ملکوں پر مشتمل تھا کہ جنہوں نے حسب سابق بین الاقوامی معاملات میں ڈالر کو ایک مالی تبادلہ کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے ،اس کا استعمال جاری رکھا جبکہ دوسرے حصے میں وہ ممالک آتے ہیں جو ڈالر کو پیٹھ دکھا رہے ہیں ۔
امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر وجود میں آنے والی بین الاقوامی چپقلشیں اور واشنگٹن کی جانب سے تجارتی جنگ کے چھیڑے جانے کی بنا پر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے مسائل سے جوجھتے ممالک اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اقتصادی معاملات کی انجام دہی اور لین دین میں ڈالر کے علاوہ کسی اور طریقہ کار کو عمل میں لاتے ہوئے ڈالر کو کنارے لگا دیں ۔
چنانچہ سن۲۰۱۸ میں مختلف ممالک نے ڈالر کو تجارتی معاملات سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کرنسی سے وابستگی و تعلق خاطر کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے مختلف اقدامات کئے ، ڈالر سے پیچھا چھڑانے والے ان ممالک میں ہر ایک کا اپنا الگ ہی زاویہ نظر ہے ۔
چین :
چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ کا سلسلہ ، اور اس کے ساتھ روس کے خلاف امریکہ کی پابندیاں جو چین کا ایک بڑا تجارتی شریک ہے اس با ت کا سبب بنیں کہ پکن کے عہدے دار ایسی سیاست کو اختیار کریں جس کے چلتے ڈالر سے وابستگی کو ختم کیا جا سکے ۔
پکن نے اس میدان میں ایک نرم سیاست اختیار کی اور چینی حکومت نے بغیر شور شرابے کے اس سیاست کو آگے بڑھانا شروع کیا ، چین کے مرکزی بینک نے ۲۰۱۸ میں امریکہ کی خزانہ داری کی وزارت سے خریدے گئے باونڈس[۴] و تمسکات {negotiable instruments}کو جوکہ چین کے اختیار میں تھے بازار میں بیج دیا ۔
اس اقدام کے باوجود ،چین آج بھی امریکہ کے سب سے زیادہ باونڈس رکھنے اور قابل خرید و فروخت تمسکات {negotiable instruments} والا ملک ہے یہ اور بات ہے کہ چین کے اس عمل سے اس کا حصہ گزشتہ دو سالوں میں اپنے کمترین مقام پر پہنچ گیا ہے ۔
چین نے ڈالر سے دوری بنانے کی حکمت عملی اس طرح بنائی کہ اپنے تبادلات میں ڈائرکٹ ڈالر کوختم کرنے کے بجائے یوآن کو بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کرنا شروع کر دی ہے ۔
چین گزشتہ چند سالوں میں چین یو آ ن [۵]کو ڈالر ، جاپانی ین[۶] ، یورو اور پونڈ کے ساتھ بین الاقوامی کرنسی کی مخصوص فنڈ یا باسکٹsdr-imf [7]میں جگہ دلانے میں کامیاب ہو گیا ۔
گزشتہ چند مہینوں میں چین نے یوآن کی مضبوطی کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے ،ان اقدامات میں سونے کے ذخیرے میں اضافہ ، یوآن کے تحت تیل کے مارکیٹ کی تشکیل ، اسی طرح اپنے تجارتی شرکاء کے ساتھ اپنی ملکی کرنسی یوآن سے استفادہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
چین اپنے منصوبہ کے ایک اور حصہ کی تکمیل کے لئے یوآن کی دنیا میں مضبوطی کی خاطر اپنے تجارتی شریکوں کے ساتھ سوئپ[۸] کے امکانات کے سلسلہ سے پروگرامنگ میں مشغول ہے تاکہ اس کے ذریعہ یوآن کو رواج بخش سکے ۔ ان تمام ہی موارد میں چینی متحرک انداز میں مشرقی ایشیا کے جنوبی ممالک کے ساتھ علاقے کی جامع اقتصادی شراکت کے نام کے تحت آزاد تجارت کے ایک معاہدے {T.PP}[9]کو وجود میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے اور معاہدہ کامیاب رہتا ہے تو چین بڑی ہی آسانی کے ساتھ آزاد تجارت میں امریکہ کی خالی جگہ لینے میں کامیاب ہو جائے گا جو کہ امریکیوں ہی کے ذریعہ وجود میں آئی تھی ، لیکن ٹرنپ کی حکومت اس سے دست بردار ہو گئی تھی ۔
جامع اقتصادی شراکت علاقے کے ۱۶ ایسے ممالک پر مشتمل ہوگی جنکا زیادہ تر تعلق ایشیاء سے ہے ، جنکی مجموعی آبادی ۴۔۳ /ارب ہے ، اور انکا مجموعی اقتصادی تخمینہ، ۵۔۴۹ ٹریلن ڈالر بیان کیا گیا ہے، جو کہ ۴۰ فی صدد دنیا کی مجموعی ملکی آمدنی[۱۰] دنیا کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں ۔
روس :
روس کے صدر جمہوریہ ولادیمیر پوٹین نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک اسٹراٹیجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے اس لئے کہ دنیا میں ڈالر پر قائم اعتماد ختم ہو رہا ہے ۔
پوٹین نے ابھی تک ڈالر میں ہونے والے تجارتی لین دین، یا پھر تجارتی معاملات میں ڈالر کی ممنوعیت کے سلسلہ سے کوئی بات نہیں کہی ہے ، لیکن انٹون روس کے وزیر اقتصاد آنتھن گرامانوچ سیلوناو[۱۱] نے گزشتہ سال کی ابتداء میں یہ اعلان کیا کہ روس کو چاہیے اپنے اختیار میں موجود امریکی وزرات خزانہ کے بونڈس کو محفوظ اور بہتر پونجی جیسے روبیل و یورو یا دیگر قیمتی دھاتوں میں تبدیل کرا لے ۔ روس نے اب تک کئی بار ڈالر کو تا حد ممکن اپنے اقتصاد سے ختم کرنے کی سیاست کو اپناتے ہوئے ڈالر سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے ، ۲۰۱۴ ء سے لیکر ۲۰۱۸ دائمی طور پر مغرب کی جانب خاص کر امریکہ کی طرف سے روس کو پابندیوں کا سامنا رہا ہے اور دن بہ دن ان پابندیوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے ۔
اسی تسلسل کی بنیاد پر اور امریکہ کی جانب سے مزید سخت پابندیوں کے لگائے جانے کی دھمکی اور روس کی سوئفتس SWIFT[12] ، ویزا کارڈ اور مسٹر کارڈ سے دسترسی ختم ہو جانے کی وجہ سے روس نے سوئفت کی جگہ SPFS نامی ایک قومی سسٹم کے متبادل کو پیش کیا ہے ، اور MIR کو بھی ویزاکارٹ اور مسٹر کارڈ کی جگہ ایک متبادل بنایا ہے ۔
روس اپنے ان اقدامات کے بل پر کسی حد تک اپنے ایکسپورٹ میں ڈالر کے استعمال کو کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے روس کو ، ہندوستان ، چین اور ایران کے ساتھ ، کرنسی سوآپ { swwap } ، جیسے معاہدوں پر دستخط کرنے کی بنا کافی حد تک یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے کہ وہ قومی کرنسی کو ڈالر کی جگہ استعمال کر سکے۔ روس نے ابھی یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بھی تجارتی لین دین میں ڈالر کی جگہ یورو کو استعمال کیا جائے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب روس امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کئے جانے والے بونڈس کے ۱۰ بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اب اس نے اپنی تمام پونجی کو نیلام کر دیا ہے اور اس نیلامی کا بڑا حصہ ۲۰۱۸ ء میں انجام پایا ہے ۔
روس نے امریکی بونڈس{us Treasury bonds} کو بیچنے کے بعد حاصل ہونے والے سرمایہ کو بیرونی کرنسی کے ذخیرہ میں اضافہ اور روبل کو مضبوط بنانے کے لئے زیادہ سونے کو حاصل و ذخیرہ کرنے میں خرچ کیا ہے ۔
ترکی :
گزشتہ سال کی ابتداء میں ترکی کے صدر جمہوریہ رجب طیب اردگان نے تجارت کی عالمی منڈی میں ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کے سلسلہ سے اپنے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپنے ساتھ شریک تجارتی حلیفوں کے ساتھ ڈالر ہوانے والے تجارتی تبادلوں کی ادائگی کو ڈالر میں ادا نہ کرتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرے ، ترکی کے صدر جمہوریہ نے اعلان کیا کہ انقرہ چین، روس اور یوکرین سے تجارتی لین دین میں ان ممالک کی قومی کرنسی میں ادائگی کے منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ اسی طرح ترکی ایران کے ساتھ تجارتی لین دین میں ڈالر کو حذف کرنے کے سلسلہ سے مذاکرات کر رہا ہے ، ترکی کے اس فیصلہ کے مختلف سیاسی و اقتصادی دلائل ہیں ۔
۲۰۱۶ ء میں اردگان کی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد سے لیکر اب تک ترکی کے واشنگٹن سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور رپورٹس کے مطابق اردوگان کا ماننا ہے کہ امریکہ کا اس بغاوت میں ہاتھ تھا ۔ دوسری طرف قومی سلامتی و سکورٹی کے اسباب کی بنیاد پر ایک امریکن پادری کو ترکی کی جانب سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینے پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر دیں ، جنکے چلتے ترکی کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا۔
علاوہ از ایں اردگان نے مکرر ترکی کی پابندی کے خلاف بولنے کے ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن کے ذریعہ تہران کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑے جانے اور ایران کو الگ تھلگ کر دئے جانے پر امریکہ کی کڑی تنقید کی ہے ۔
ترکی کی جانب سے روس سے S400 کے فضائی سسٹم کوخریدے جانے کی وجہ سے بھی ترکی اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
ان تمام مذکورہ موارد کے ساتھ ترکی کی کوشش ہے کہ ڈالر کو لین دین سے ختم کر کے اپنی کرنسی کو مضبوط بنائے، ترکی لیرہ کی قیمت گزشتہ سال سے اب تک ڈالر کے مقابل آدھی رہ گئی ہے ۔ ڈالر کے سامنے ترکی لیرہ کی قیمت میں شدید گراوٹ، افراط زر (Inflation) [13]کے زیادہ ہونے اور ترکی میں اشیاء اور سرویسز کی قیمت کے بڑھ جانے کے ساتھ ساتھ پیش آئی ۔
ایران :
ایران کے چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری توانائی کے جامع معاہدے [۱۴] JCPOA کے بعد عالمی منڈی میں واپسی کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈونلڈ ٹرنپ نے وہائٹ ہاووس پہنچ کر امریکہ کو اس معاہدے سے دست بردار کر دیا ۔
تیل کے ذخائر سے مالا مال ایران ایک بار پھر امریکہ کی شدید تر ین پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے ،اور اتنا ہی نہیں امریکہ کی طرف سے دھمکی بھی دی گئی ہے کہ جو ملک ایران کا اس سلسلہ سے کوئی بھی تعاون کرے گا اسے بھاری مالی تنبیہ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
امریکی پابندیوں نے ایران کو مجبور کر دیا ہے کہ ایسے مکینزم کو تلاش کرے جس کے بموجب تیل کی فروخت کے بعد ڈالر سے ہٹ کر ادائگی ممکن ہو سکے۔
ایران نے ہندوستان کے ساتھ تیل کی فروخت کے بعد روپیہ میں قیمت کی ادائگی کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ، فی الحال عراق سے اس کے مذاکرات جاری ہیں ۔
ایران اور عراق چاہتے ہیں آپسی لین دین میں دینار سے استفادہ کریں تاکہ بینکی سسٹم پر پابندی کی بنا پر ڈالر سے اپنی وابستگی کو کم کیا جا سکے ۔
ہندوستان :
ہندوستان ، دنیا کی چھٹی بڑی اقتصادی طاقت ہے، اور بین الاقوامی برادری کے ایک بڑے امپورٹ کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے ، یہ بات ذرا بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان ڈائرکٹ ہی بہت سارے جیو پولیٹکل جھگڑوں سے متاثر ہوتا ہے ، اور ہندوستان کے تجارتی شریکوں پر لگائی گئی پابندیاں ہندوستانیوں کو شدید طور پر متاثر کر تی ہیں ، گزشتہ سال کی ابتداء میں امریکہ کی جانب سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کے چلتے روس سے s400 سسٹم خریدنے پر ہندوستان نے ماسکو کو روپیہ میں ادائگی کی ۔
اسی طرح ہندوستان ناچارہوا کہ ایران سے تیل خریدنے کی قیمت بھی ایران پر لگی امریکی پابندیوں کی بنا پر ایک بار پھر روپیہ میں ہی چکائے ۔
گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں بھی ہندوستان نے عرب امارات کے ساتھ ایک معاہدہ میں سوایپ{ swwap }پر سائین کئے تاکہ تجارتی تبادل میں آسانی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان تیسری کرنسی کے سلسلہ سے سرمایہ کاری کو کم کر سکیں ۔
اس لحاظ سے کہ ہندوستانی خریدنے کی توانائی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے ملک میں شمار ہوتے ہیں ، یہ تمام اقدامات عالمی منڈی میں ڈالر کے تسلط کو قابل دید حد تک چیلنز کر سکتے ہیں ۔
ترجمہ و تحقیق : سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
[۱] https://www.farsnews.com/news/13971012000416/%D8%AF%D9%88%D9%82%D8%B7%D8%A8%DB%8C-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%B1-%D8%B6%D8%AF%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%B1-%D8%AF%D8%B1-%D8%AC%D9%87%D8%A7%D9%86-%D8%B4%DA%A9%D9%84-%DA%AF%D8%B1%D9%81%D8%AA-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1%D9%87%D8%A7-%D8%A8%D9%87-%D8%AF%D9%84%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D8%AE%D9%85-%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D9%86%D8%AF
.[۲] انگریزی اور عربی زبان میں ۲۴ گھنٹے پروگرام پیش کرنے والا روسی چینل ۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : RT (formerly Russia Today) is a Russian international television network funded by the Russian government.
https://www.rt.com/about-us/contact-info/، russiatoday.ru، rtarabic.com
[۳] ۔https://www.rt.com/business/447915-top-states-ditching-dollar
[۴] ۔ وہ ضمانتی اوراق یا تمسکات جنہیں ٹریزی باونڈس {us Treasury bonds} کہا جاتا ہے
[۵] ۔ چین کی سرکاری کرنسی جسے خصوصی اور بین الاقوامی سیاق و سباق کے تحت چینی یوآن (Chinese yuan) کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے تفصیل کے لئے دیکھیں : https://web.archive.org/web/20070320211302/http://www.cin.gov.cn/law/main/2004010802.h
[۶] ۔ امریکی ڈالر ، یورو کے بعد دنیا کی تجارت میں تیسری سب سے زیادہ استمعال ہونے والی کرنسی ۔ “Foreign exchange turnover in April 2013: preliminary global results” (PDF). Bank for International Settlements. Retrieved February 7, 2015
[۷] ۔ { special drawing rights –international monetary fund } جسے مختصر طور پر sdr –imf بھی کہا جاتا ہے
[۸] ۔currency swwap
[۹] ۔ trans-pacific free trade partnership agreement {T.PP}
[۱۰] ۔Gross net income (G.N.I)
[۱۱] ۔ Anton Germanovich Siluanov
[۱۲] ۔ Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication
[۱۳] ۔ معیشت میں موجود اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح تفصیل کے لئے : Barro, Robert J. (1997). Macroeconomics. Cambridge, Massachusetts: MIT Press. p. 895. ISBN 0-262-02436-5.
Blanchard, Olivier (2000). Macroeconomics (2nd ed.). Englewood Cliffs, N.J: Prentice Hall. ISBN 0-13-013306-X.
Mankiw, N. Gregory (2002). “Macroeconomics” (5th ed.). Worth. Measurement of inflation is discussed in Ch. 2, pp. 22–۳۲; Money growth & Inflation in Ch. 4, pp. 81–۱۰۷; Keynesian business cycles and inflation in Ch. 9, pp. 238–۲۵۵٫
[۱۴] ۔ ایران کے جوہری پروگرام پر جامع معاہدہ JCPOA comprehensive agreement on the Iranian nuclear program))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔