خواتین کے ذریعہ جاسوسی سے لیکر خواتین کے جنسی استحصال تک صہیونی حکومت اور اسکی کار گزاریاں

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “خاتون ایجنٹس عام طور پر اپنا کام چپ چاپ کر سکتی ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی ایجنٹ پینولپی کو ’اریکا چیمبرز‘ کے فرضی نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ان کا فلسطینی گروپ بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامی کے قتل میں ہاتھ تھا، جو ۱۹۷۲ کے میونخ اولپمکس میں ۱۱ اسرائیلی ایتھلیٹس کے اغوا اور قتل میں ملوث تھے۔
میونخ میں ہونے والی ہلاکتوں کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر نے آپریشن کی منظوری دی جس کے تحت موساد کے ایجنٹس کو بلیک ستمبر کے ارکان کی تلاش اور انھیں اپنے کیے پر سزا دینا تھی۔ قتل کی پانچ ناکام کوششوں کے بعد سلامی بلآخر چار محافظوں سمیت مارے گئے۔ ۱۹۷۹ میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ان کے اپارٹمنٹ کے باہر بم دھماکے کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔
ایجنٹ پینولپی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے بم دھماکہ کیا اور اس مقصد کے لیے وہ سلامی کے فلیٹ کے قریب ایک سادہ زندگی گزار رہی تھیں اور یہاں تک خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا ایک بوائے فرینڈ بھی تھا۔
دھماکے کے بعد ایجنٹ پینولپی غائب ہو گئیں لیکن اپنا سامان پیچھے چھوڑ گئیں، جس میں اریکا چیمبرز کے نام سے ایک برطانوی پاسپورٹ بھی تھا۔”[۱]
یہ مذکورہ بالا اقتباس کسی اسرائیل مخالف ادارہ یا صہیونیت کے خلاف کام کر رہی کسی فلسطین نواز تنظیم کا نہیں بلکہ یہ بی بی سی ورلڈ سرویس کی اس رپورٹ سے ماخوذ ہے جسے بی بی سی نے دنیا کی خطرناک ترین خواتین پر پیش کیا ہے ، اس رپورٹ میں بی بی سی نے کچھ خطرناک ترین خواتین کی خطرناک کہانیوں کو پیش کیا ہے ، جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں کس طرح بعض خطرناک خواتین جاسوسی جیسے خطرناک کاموں کو انجام دیتی ہیں اور پھر انکا انجام کیا ہوتا ہے، صہیونی حکومت میں خواتین کو کس رخ سے دیکھا جاتا ہے اور کس طرح اپنے مقاصد کے تئیں انکا استعمال ہوتا ہے اگر یہ جاسوسی والی رپورٹ گنگ بھی ہو اور یہ بتانے کے لئے کافی نہ ہو کہ خواتین کا کس طرح استحصال ہوتا ہے تو بی بی سی ہی کی آج ہی کی ایک اور رپورٹ ملاحظہ ہو :
“اسرائیل میں پولیس نے ایک بڑے وکیل کو جنسی روابط کے عوض عدالتی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اس وکیل کا نام نہیں ظاہر کیا گیا اور نہ ہی کیس کے بارے میں کوئی معلومات دی گئی ہیں۔ عدالت نے ان معلومات کو منظرِ عام پر آنے کی اجازت نہیں دی۔
لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا تعلق خواتین کی ایک عدالت کی جج کی تعیناتی سے ہے۔ اس کے علاوہ ایک عدالت میں مرد جج کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں تقرری کے معاملے کی بھی چھان بین کی جارہی ہے۔
اٹارنی جنرل اوی چائی مینڈی بلٹ نے اس کیس میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے مرکزی ملزم سے دوستی بتائی ہے۔
اسرائیل کے وزیر قانون ایالیت شاکید اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایستر حیوت کا اس کیس میں گواہی دینے کے لیے سمن جاری ہوگیا ہے۔
ایالیت شاکید اور چیف جسٹس ایستر حیوت جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیٹی کے ممبر ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لہؤؤ فورس کے اینٹی کرپشن یوٹن نے اس معاملے پر دو ہفتے قبل تحقیقات شروع کی تھیں۔ انھیں عدالتی تقرریوں میں بے ضابطیگیوں کے بارے میں ایک خفیہ رپورٹ ملی تھی۔
جس کے بعد بدھ کی صبح کو ایک مرد وکیل کو گرفتار کیا گیا۔ جبکہ خواتین کی عدالت کی ایک جج اور ایک خواتین وکیل سے بھی اس بارے میں تفتیش کی گئی ہے۔ پولیس نے سرچ آپریشن کر کے بہت سی دستاویزات بھی اپنے قبضے میں لے لی ہیں۔
اسرائیلی جریدے یدویوتھ آھرونوتھ کے مطابق اسرائیل بار اسوسیئیشین کے یروشلم آفس پر بدھ کے روز چھاپا مارا گیا۔
اسرائیل کے وزیر قانون ایالیت شاکید اور چیف جسٹس ایستر حیوت نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی تحقیقات مکمل کر کے سچائی تک ضرور پہنچیں گے۔
دونوں صاحبان نے اسرائیلی عدالتوں میں تقرری کے سسٹم میں کرپشن اور بے ضابطگیوں کے الزامات کی تردید کی ہے”[۲]۔
یہ وہ رپورٹ ہے جسے محض بی بی سی نے نہیں پیش کیا ہے بلکہ دنیا کے معتبر ترین کہلائے جانے والے اخباروں نے بشمول اسرائیل ٹائمز و ہآرتض نے اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے [۳]
اس تازہ رپورٹ کے پیش نظر کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ ایک ایسی حکومت جو سارے یہودیوں کے لئے خود کو سرزمین موعود کے طور پر پیش کرتی ہے، ایک ایسی سرزمین جو یہودیوں کی وعدہ گاہ ہے ، ایسی سرزمین جہاں پر یہودیوں کی وراثت کی حفاظت کی بات کی جاتی ہے خود وہاں خواتین کا حال کیا ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں تقرری جب جسم فروشی اور سیکس کے عوض ہونے لگے تو عدالتی کاروائیوں میں دخیل خواتین کے لئے کیا ضمانت ہے کہ وہ ضمیر فروشی نہیں کریں گی ، اور اگر کوئی خاتون جج کسی منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے تو اسکے ساتھ کیا کچھ نا انصافی نہیں ہوگی اور جو اپنے ضمیر کو بیچ دے وہ پھر اسکے فیصلہ میں انصاف کی خو کیا ہوگی ، یہ سب سوالات ہر ایک کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں ۔ اپنی نوعیت کا یہ عجیب و غریب ماجرا صہیونی حکومت سے متعلق ہے شاید اسی لئے معاملہ ذرا ٹھنڈا ہے خدا نخواستہ یہی رپورٹ مشرق وسطی کے کسی ملک کی ہوتی تو سارے دنیا کے میڈیا کی سب سے پہلی خبر یہی ہوتی لیکن کیا کیا جائے کہ معاملہ اسرائیل کا ہے ۔اور جب اسرائیل کا معاملہ ہو تو پھونک پھونک کے قدم رکھنے کی ضرورت ہے چاہے عدل و انصاف کا گلا ہی کیوں نہ گھٹ رہاہو لیکن تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی اظہار خیال ہونا چاہیے یہی نام نہاد صہیونی صحافت کا منشور ہے ۔
حواشی :
[۱] ۔ https://www.bbc.com/urdu/world-45650679
[۲] ۔https://www.bbc.com/urdu/world-46899091،https://www.bbc.com/news/world-middle-east-46892112
[۳] ۔ https://www.middleeasteye.net/news/senior-israeli-lawyer-detained-over-suspicions-sexual-bribery-2081958263
https://www.washingtonpost.com/local/crime/sex-offense-law-in-maryland-has-loophole/2012/06/16/gJQAWdoohV_story.html?utm_term=.eff4fd705bfd
https://www.haaretz.com/israel-news/.premium-israeli-police-arrest-26-suspects-for-indecent-acts-and-sexual-harassment-of-minors-1.6589648
https://www.washingtonpost.com/nation/2018/10/08/should-police-be-able-have-sex-with-person-custody-rape-alle
https://www.timesofisrael.com/senior-lawyer-held-on-suspicion-of-promoting-judge-in-exchange-for-sex/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی