-
Thursday, 6 August 2020، 02:28 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ نے جارج ڈبلیو بش (باپ) کے زمانے سے مشرق وسطی میں قبضہ گری اور فوجی مداخلت کی پالیسی اپنا رکھی ہے جو خطے کے ممالک کے لئے بدبختیوں اور امریکہ کے لئے بھی عظیم ترین جانی اور مالی نقصانات کا سبب بنی ہوئی ہے؛ چنانچہ اوباما نے بش کی تباہ کاریوں کے ازالے کی کوشش کی اور اسی مقصد سے اس نے عراق اور افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلاء کا آغاز کیا، لیبیا، یمن اور شام میں مداخلت سے امریکہ کو دور رکھنا چاہا اور نیٹو اور یورپی اتحادیوں کی صف اول سے دور رہنے کی کوشش کی۔
اوباما امریکی معاشی رونقیں بحال کرنے اور اپنے ملک کو نئی فوجی مہم جوئیوں سے دور رکھنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئے، انھوں ںے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منعقد کیا اور کئی عشرے سرد جنگ اور پابندیوں کے بعد، کیوبا کے ساتھ امن و آشتی کی راہ پر گامزن ہوئے۔ لیکن “پراپرٹی ڈیلر” اور “جائیداد بنانے والے” ٹرمپ نے ـ جو امریکہ کی رائج جماعتی رویوں کے برعکس، مشکوک مقبولیت کے ساتھ ریپلکن پارٹی کی چھتری تلے، ناقابل یقین انداز سے وائٹ ہاؤس کے تخت نشین بن گئے ہیں ـ ڈیموکریٹ اوباما اور ریپبلکن جارج بش کی پالیسیوں سے متصادم پالسیاں اپنا رکھی ہیں، یہاں تک کہ وہ سمجھے بوجھے بغیر بولتے ہیں اور جانچے پرکھے بغیر عمل کرتے ہیں، اور ان کا ہر کام بدنظمیوں کا باعث بنتا ہے اور یوں وہ اوباما انتظامیہ کی حصولیابیوں کو ضائع کرچکے ہیں۔
مال اندوز ٹرمپ، یورپ میں اپنے سب سے قریبی اتحادیوں کے ساتھ لڑ پڑے ہیں، نیٹو پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور یورپی اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ انہیں دستخط شدہ خالی چیک (Blank checks) دےدیں، جس کی وجہ سے یورپی حکمران بھی ناراض ہوئے ہیں اور “مستقل یورپی فوج” کی تشکیل اور امریکی معاشی معاملات سے دوری اختیار کرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔
ٹرمپ اپنے قریب ترین عرب اتحادی “سعودی عرب” کے ساتھ توہین آمیز سلوک روا رکھتے ہیں اور اس کو “شیر دار” گائے کا لقب دیتے ہیں کیونکہ وہ ریاض کے ساتھ سینکڑوں ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرکے کہتے ہیں کہ “اگر امریکہ کی حمایت نہ ہو تو سعودی دو ہفتوں تک بھی اپنا اقتدار محفوظ نہیں رکھ سکیں گے”، جبکہ سعودیوں نے حالیہ کئی عشروں سے کئی سو ارب ڈالر کا اسلحہ امریکہ سے خرید لیا ہے۔ صورت حال اس قدر پتلی ہوچکی ہے کہ غاصب یہودی ریاست ـ جو علاقے میں امریکی مداخلتوں کا اصل سبب ہے اور جس کی حفاظت واشنگٹن کی حفاظت سے بھی زیادہ اہم سمجھی جاتی ہے ـ آج اپنے سلامتی کے لئے ماسکو کی طرف دیکھنے لگی ہے، کیونکہ جو کچھ شام میں وقوع پذیر ہوا ہے اس کی امریکہ کو توقع نہ تھی۔
اس مرحلے میں، جبکہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو کھو رہا ہے اور ٹرمپ کے ناگہانی فیصلے سب کو حیرت زدہ کرتے ہیں، واشنگٹن کے رقیب ممالک ـ خصوصا روس، چین اور یورپی اتحاد کے رکن ممالک اپنے سیاسی، اقتصادی، اور فوجی مفادات کے حصول کے لئے ـ ترکی اور افریقی ممالک میں قدم جمانے لگے ہیں جبکہ یہ ممالک ماضی قریب میں امریکہ کے زیر تسلط تھے۔ عرب ممالک بھی ـ جو کہ امریکہ کے مدار میں گردش کررہے ہیں ـ شام کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کے درپے ہیں، اگرچہ بعض عرب حکمران ابھی تک دمشق کی حکومت کے خاتمے کے پرانے نعرے دہرا رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ امریکہ نے ٹرمپ کے دور میں اپنے آپ کو اپنے اتحادیوں سے دور اور تنہا کردیا ہے اور اپنے رقیب ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے، اب اس پر کم ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے اور ناقابل پیشگوئی (Unpredictable) ہوچکا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے روایتی اتحادی امریکہ سے مایوس ہوکر اپنے آپ کو دوسری علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے برابر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ وائٹ ہاؤس کے غیر سنجیدہ تخت نشین کے عجیب و غریب اقدامات اور ناگہانی فیصلوں سے زیادہ متاثر نہ ہوں۔
وزیر خارجہ مائیک پامپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا بیک وقت دورہ مشرق وسطی یہاں کے ممالک اپنے ساتھ ملانے اور یہ بتانے کے لئے شورع ہوا کہ “امریکہ بدستور ایک طاقتور ملک ہے” لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی امریکی حکام آپ بییتیاں بیان کرنے لگتے ہیں اور لفاظیوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتے ہیں، اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکی طاقت شدت سے کم ہورہی ہے، امریکہ سستی اور بیماری کا شکار ہوچکا ہے اور ماضی کی طرح مشرق وسطی میں جیسا چاہے، پینترے بازیاں نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ علاقے کی دو جڑواں ریاستوں کے بنیامین نیتن یاہو اور محمد بن سلمان بھی جتنا روسی صدر پیوٹن پر اعتماد کرسکتے ہیں، اتنا وہ ٹرمپ پر اعتماد نہیں کرسکتے؛ کیونکہ پیوٹن جانتے ہیں کہ انہیں کیا کہنا چاہئے اور کیسا رویہ اپنانا چاہئے لیکن ان کے امریکی ہم منصب ان اوصاف سے عاری ہیں کیونکہ ان کے فیصلوں کا اعلان یا تو ٹوئیٹر یا ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ہوتا ہے یا پھر وہ اپنی بیٹی ایوانکا یا داماد کوشنر کی تجویز پر فیصلے اور اعلانات کرتے ہیں؛ جبکہ وہ اپنے ذاتی کاروبار کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور وائٹ ہاؤس میں کسی اہم اجلاس کے دوران بھی اپنے کاروباری اور اقتصادی منصوبوں کے لئے کسی ضامن اور کفیل (sponsor) کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: احمد المقدادی العالم نیوز چینل
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔