-
Wednesday, 5 August 2020، 02:17 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیلی مؤرخ بینی مورس (Benny Morris בני מוריס) ـ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ ۱۹۴۸ع کے یوم نکبہ (Nakba Day) کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے بارے میں منصفانہ موقف اپناتا رہا ہے ـ نے یہودی ریاست کے اخبار “ہاآرتص” (Haaretz) سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینیی اپنی پوری سرزمین کی آزادی اور صہیونیت کی بیخ کنی کے عزم کے پابند ہیں۔
موریس نے زور دے کر کہا کہ کوئی علاقائی تصفیہ ممکن نہیں ہے اور کسی صورت میں بھی ملکوں کو تقسیم کرکے امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
موریس نے مزید کہا: جہاں تک یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کا تعلق ہے، تو میں نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آج بحر اور نہر (بحیرہ روم اور دریائے اردن) کے درمیانی علاقوں (یعنی سرزمین فلسطین) میں عربوں کی آبادی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے، اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے تمام علاقے اور شہر و دیہات، تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہے، وہ واحد ریاست میں بدل رہے ہیں جہاں عربوں کی اکثریت ہوگی؛ جبکہ اسرائیل “یہودی ریاست” کہلوانے پر اصرار کررہا ہے؛ لیکن جس حالت میں ہم ایک مقبوضہ سرزمین کے عوام پر مسلط ہوئے ہیں، جن کو کسی طرح کے حقوق نہیں دیئے گئے ہیں اس حالت کو اکیسویں صدی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا؛ اور اگر پھر ان کو ان کے حقوق دیئے جائیں تو اس صورت میں یہ ریاست یہودی ریاست نہیں رہے گی۔
انھوں نے کہا: اس سرزمین میں مشرق وسطی کی عرب اکثریتی ریاست قائم ہوگی اور اس ملک میں رہنے والے مختلف گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوگا، اور عرب [فلسطینی] پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور یہودی فلسطینی عربوں کے وسیع و عریض سمندر کے بیچ چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے؛ ایسی اقلیت جس کو یا تو مارا جائے گا یا پھر ان کا تعاقب کیا جائے گا؛ اور یہودیوں کا حال اسی زمانے کی طرح ہوگا جب وہ عرب ممالک میں سکونت پذیر تھے۔ (۱) اور یہودیوں میں جو بھاگ سکے وہ بھاگ کر امریکہ اور مغربی ممالک میں پناہ لے گا۔ اور فلسطینی عوام عرصہ دراز سے ان حالات کو وسیع نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں یہاں ۵۰، ۶۰ یا ۷۰ لاکھ یہودی رہتے ہیں جن کا سینکڑوں میلین عربوں نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اور کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ فلسطینی اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں۔ چونکہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا؛ چنانچہ فلسطینیوں کی کامیابی لازمی اور ناگزیر ہے۔ شاید ۳۰ سال بعد یا ۴۰ سال بعد، (۲) جو کچھ بھی ہوگا، وہ ہم پر غلبہ پائیں گے۔
موریس کے مطابق، جو بھی کہتا ہے کہ (یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم) ایہود بارک اور (سابق امریکی صدر) بل کلنٹن نے فلسطینیوں کو کچھ تجاویز دی تھیں جنہیں قبول کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔ فلسطینی ۱۰۰ فیصد مقبوضہ سرزمین کو چاہتے ہیں اور جس وقت وہ مصالحت کے لئے آمادگی ظاہر کررہے تھے، در حقیقت چالیں چل رہے تھے۔
موریس نے مزید کہا: صہیونی قومی تحریک نے ۱۹۳۷ع، ۱۹۴۷ع، ۱۹۷۷ع اور ۲۰۰۸ع میں “دو قوموں کے لئے دو ریاستوں” کے قیام سے اتفاق کیا تھا!
بینی مورس نے یہودی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا: نیتن یاہو فلسطینوں کے ساتھ مصالحت کے منصوبے پر کام نہیں کررہا ہے؛ گوکہ مصالحت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی لیکن نیتن یاہو پر لازم ہے کہ “دنیا والوں کی نظروں کے سامنے سفارتی کھیل کھیلتا رہے”۔ (۳)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ یہودی ریاست عربوں کے ساتھ شدیدترین دشمنی کے باوجود آج تک اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے کہ فلسطین پر یہودی قبضے سے قبل یہودیوں کو عرب ممالک میں کسی قسم کے اجتماعی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے چنانچہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ بینی مورس یورپی ممالک میں یہودیوں کی صورت حال کی مثال دیتا؛ جہاں اس جیسے یہودیوں کا دعوی ہے کہ انہیں قتل گاہوں یا ان کے بقول extermination camps میں لے جایا جاتا تھا اور کوڑا جلانے کی بھٹیوں (incinerators) میں جلایا جاتا تھا! جبکہ ایسا کوئی واقعہ عرب اور اسلامی دنیا میں رونما نہیں ہوا ہے۔
۲۔ شواہد بھی اور یہودی ریاست اور اس کے رو بہ زوال مغربی حامیوں کی صورت حال بھی ثابت کررہی ہے کہ یہودی ریاست کے دن گنے جاچکے ہیں، اور جناب بینی موریس بھی مؤرخ ہونے کے ناطے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے: ” دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”۔
۳۔ بینی موریس نے بظاہر یہودی ریاست کی بقاء کی خاطر یہ پیش گوئیاں فرمائی ہیں کیونکہ وہ اسی غاصب سسٹم کا حصہ ہے اور اس مکالمے میں بھی اس کے الفاظ میں عربوں سے شدید نفرت کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں، ورنہ تو وہ مکار نیتن یاہو کو مکاری کا سبق دینے کی کوشش کیوں کرتا؟