-
Saturday, 27 June 2020، 10:55 PM
-
۳۷۶
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (۱) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (۲)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (۳) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۵۰عکی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف ۱۰ فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات ۲۵ فیصد تک اور ۱۹۸۰عکی دہائی میں ۵۰ فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (۴)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان، شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (۵) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (۶)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دوگنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (۷) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو ۱۲ ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (۸)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (۹) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (۱۰) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے ۱۹۷۰عکی دہائی کے بعد ۱۰۰ بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے ۱۲ کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (۱۱) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے ۳۵ کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (۱۲)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
۱۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
۲۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ (۱۳) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
۳۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (۱۴)
۴۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (۱۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ Balfour Declaration
۲۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص۶۹۔
۳۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
۴- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۷۔
۵۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
۶- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۴۔
۷۔ Economic downturn
۸۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
۹۔ Socialism
۱۰- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے “ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B’Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں ” General organization of Hebrew Workers in the land of Israel” (اور اردو میں “ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم”) کے ہیں۔ سنہ ۱۹۶۹عمیں لفظ “عبرانی” اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ ۱۹۲۰عمیں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ ۱۹۱۱عسے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام “ہیفرات ہعوفدیم” (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ “کور” ہے جس میں ۱۰۰ کارخانوں کے ۲۳۰۰۰ مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
۱۱۔ Workers’ Co-operative Union
۱۲- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج۲، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۲۹۔
۱۳۔ Social Security
۱۴- وہی ماخذ، ص ۱۴۳۔
۱۵- وہی ماخذ، ص۱۴۵۔
بقلم: میلاد پور عسگری