صہیونی ریاست کا اقتصادی ڈھانچہ

  • ۳۷۶

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (۱) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (۲)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (۳) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۵۰ع‍کی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف ۱۰ فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات ۲۵ فیصد تک اور ۱۹۸۰ع‍کی دہائی میں ۵۰ فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (۴)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان، شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (۵) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (۶)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دوگنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (۷) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو ۱۲ ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (۸)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (۹) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (۱۰) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے ۱۹۷۰ع‍کی دہائی کے بعد ۱۰۰ بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے ۱۲ کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (۱۱) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے ۳۵ کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (۱۲)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
۱۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
۲۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ (۱۳) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
۳۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (۱۴)
۴۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (۱۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ Balfour Declaration
۲۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: ۱۳۸۹، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص۶۹۔
۳۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
۴- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۷۔
۵۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
۶- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص۷۴۔
۷۔ Economic downturn
۸۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
۹۔ Socialism
۱۰- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے “ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל‬, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B’Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں ” General organization of Hebrew Workers in the land of Israel” (اور اردو میں “ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم”) کے ہیں۔ سنہ ۱۹۶۹ع‍میں لفظ “عبرانی” اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ ۱۹۲۰ع‍میں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ ۱۹۱۱ع‍سے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام “ہیفرات ہعوفدیم” (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ “کور” ہے جس میں ۱۰۰ کارخانوں کے ۲۳۰۰۰ مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
۱۱۔ Workers’ Co-operative Union
۱۲- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج۲، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: ۱۳۸۵، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص۱۲۹۔
۱۳۔ Social Security
۱۴- وہی ماخذ، ص ۱۴۳۔
۱۵- وہی ماخذ، ص۱۴۵۔
بقلم: میلاد پور عسگری

 

کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے

  • ۶۲۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کے معروف سخنور “استاد رحیم پور ازغدی” ظلم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کرنے کے حوالے سے اکثر اوقات اپنی تقریروں میں زور دیتے ہیں درج ذیل تحریر میں ان کے بیانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
“دین کے چہرے کو مسخ کرنا اور دین کو حکومت اور اخلاق کو سیاست سے الگ کرنا، دین کے باطن کو مٹانے اور ظاہر کو محفوظ رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ طریقہ کار طول تاریخ میں بھی جاری رہا ہے اور آج کے دور میں بھی جاری ہے، اسلام کو مبہم اور مجہول الحقیقت، دین کو ہزار قرائتوں اور قرآن کو بالرائے تفسیر کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ اسلام میں تحریف ہے جو اسلام ناب محمدی(ص) کے دشمنوں کا مقصد ہے۔ آج کے یزیدیوں کا مقصد اسلام کو بطور کلی مٹانا نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہے لہذا وہ اسلام کو مٹانا نہیں چاہتے بلکہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا اسلام متعارف کروانا چاہتے ہیں جو گنج قارون اور تخت فرعون کے ساتھ کوئی سروکار نہ رکھتا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کو نہ سیاست و حکومت سے مطلب ہو، نہ سماج اور معاشرے سے، نہ عدالت و انصاف سے اور نہ انسانی حقوق سے۔ ایک انفرادی دین ہو جو انفرادی عبادت کی ترغیب دلاتا ہو ایسا اسلام پیش کرنا چاہتے ہیں۔ (۱)۔ ایسے اسلام کو فلسطینی بچوں کی چیخ و پکار سنائی دے گی نہ یمنی بچوں کی بھوک و پیاس دکھائی دے گی۔ وہ ایک سویا ہوا، لڑکھڑاتا ہوا اور اندھا اور بہرا دین لوگوں کو دینا چاہتے ہیں جس میں کوئی تحرک اور جذبہ نہ ہو۔
لیکن جو چیز حقیقی اسلام میں پیش نظر ہے وہ اسلام کی تر و تازگی ہے اسلام کی بصیرت افزائی ہے اسلام کا ظلم کے خلاف قیام ہے۔ اس اسلام کو ایسا مسلمان چاہیے جو اپنے زمانے کے شمر کو پہچانتا ہو جو ظالموں کو دیکھ کر آنکھیں بند نہ کر لے۔ حقیقی اسلام کے اصول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا آج کی زبان میں مطلب سماجی ذمہ داریوں پر نظارت رکھنا ہے یعنی سب چیزیں سب لوگوں سے مربوط ہیں۔ نہ کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے کہے کہ مجھ سے کیا مطلب کہ ہمارے سماج میں کیا ہو رہا ہے یا دنیا کے اس کونے میں کیا ہو رہا ہے اور جب کوئی کسی سے اس کی ذمہ داری کے حوالے سے پوچھے تو اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ تم سے کیا مطلب۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی ہم اور آپ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ظلم، بے انصافی، انسانیت کی سرخ لکیروں جو اخلاق اور اخلاقی قدریں ہیں پر ہونے والے حملوں کی نسبت اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔
سید الشہدا(ع) کے پاس ظلم کے خلاف قیام کرنے کی جو دلیل اور منطق تھی وہ سنہ ۶۱ ہجری کے یوم عاشور اور کربلا سے مخصوص نہیں تھی۔ آج کے دور میں بھی سید الشہدا(ع) کے استدلال اور منطق سے دنیا میں ہونے والے ظلم و جور کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابا عبد اللہ الحسین (ع) کی منطق کیا تھی؟ امام حسین علیہ السلام کا جب لشکر حر کے ساتھ سامنا ہوا تو آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا کہ اسلام ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموشی برداشت نہیں کرتا، اسلام میں غیرجانب داری نہیں پائی جاتی، اگر کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن مجھے دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم سے کوئی سروکار نہیں، دنیا میں ہونے والی بے انصافی اور ستمگری سے کوئی مطلب نہیں، اس شخص نے نہ صرف اپنی ذمہ داری کو انجام نہیں دیا بلکہ وہ اس ظالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اس کے ظلم میں شریک ہے۔
آج کے معاشرے میں بھی عالمی صہیونیت اور امریکہ کے ظلم و جور کے مقابلے میں غیرجانب داری سے کام لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور اس کا مقصد شیعہ مذہب کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: مظلوم کی مدد کے لیے اگر پانچ میل( تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر) بھی دور جانا پڑے جاؤ اور وہ مظلوم جو تم سے مدد طلب کرے اس کی نصرت کے لیے ۶ میل بھی دور جانا پڑے جاؤ۔ یعنی ہم ان قوموں اور ملتوں کی نسبت بھی مسئول اور ذمہ دار ہیں جو ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن ہم سے مدد طلب نہیں کر رہی ہیں۔ چہ جائے کہ وہ ملتیں جو ظلم و ستم کی آگ میں جھلس رہی ہیں اور ہم سے نصرت کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔ یہاں ہماری ذمہ داری کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ سوچ کر خاموش نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ ہر کوئی اپنا کام خود انجام دے اور ہمیں کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ “جو چراغ گھر میں جل رہا ہے اسے مسجد لے جانا حرام ہے”۔ یہ کون سی ضرب المثل ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ اور کس نے بیان کی ہے؟ کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے۔ یہ وہی ایثار اور قربانی ہے یعنی دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینا۔ یہ ہے حقیقی اسلام۔ (۲)
(۱)رحیم پور ازغدی، عقل سرخ
(۲) استاد حسن رحیم پور ازغدی، گزیده ای از سخنرانی «عاشورای حسینی،شهادت برای نهی از منکر»
تحریر: مجید رحیمی
 

 

بہائیت اسرائیل کے ایران میں پنپنے کا ذریعہ

  • ۳۹۰

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کی شہنشاہی حکومت کے ساتھ فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعلقات کی تاریخ سو سال پرانی ہے لیکن محمد رضا خان کے دور حکومت میں یہ روابط اپنے عروج پر پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کے دور حکومت کی آخری دہائی میں تقریبا تمام اہم حکومتی عہدے بہائیوں کے پاس تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں اسرائیل اور یہودیوں کا ایران میں اثر و رسوخ بہت گہرا تھا۔
امیر عباس ہویدا
امیر عباس ہویدا اس فرقہ ضالہ کا ایک اہم آدمی تھا جس کا پہلوی حکومت میں بڑا اثر و رسوخ تھا انشاء اللہ بعد میں اس شخص کے بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے، لیکن یہاں پر اجمالا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران میں پہلوی حکومت کے دوران یہ شخص بہائیوں کا باپ سمجھا جاتا تھا، اور اس کے بہائی ہونے کے اعتبار سے شہرت اتنی زیادہ تھی کہ شاہ کے دور کی انٹیلی جنس ایجنسی ساواک کی دستاویزات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ہویدا صہیونی ریاست کی تشکیل میں مکمل طور پر رضامند تھا۔ ایران میں موساد کے آخری نمائندے ’’الیعزر تسفریر‘‘ کے بقول : ہویدا اور اس کے گھرانے کے لوگ اسرائیل کے مسائل سے خوب واقف تھے اور اسی وجہ سے وہ اس پورے عرصے میں ایران میں اسرائیل کے سفیروں کی حفاظت اور اسرائیل میں بہائیوں کے مال و دولت کے تحفظ کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر عباس میلانی نے کتاب ’’معمای ہویدا‘‘ کہ جو ہویدا کی حمایت میں لکھی ہے میں اس کے صہیونیت کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’۵۰ کی دہائی (ایرانی سال) میں اسرائیلی سفارت کی سربراہی ’’لوبرانی‘‘ کے دوش پر تھی اور اس کے ہویدا کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ وہ نہ صرف اکثر رات کے کھانوں پر ہویدا کی دعوت کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات لوبرانی ہویدا کے دفتر میں نظر آتا تھا۔ جب بھی کوئی کسی ملک کا سفیر ہویدا سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو وہ کوشش کرتا تھا اسرائیلی سفارت کے سربراہ لوبرانی کو بھی ان میٹنگوں میں شامل رکھے‘‘۔
امام خمینی(رہ) کی سربراہی میں ۱۵ خرداد کے قیام کے بعد شاہ اپنے بہائی ورکروں کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس قیام کے لیے مالی تعاون جمال عبد الناصر مصری کی جانب سے انجام پایا ہے۔ اس لیے کہ اس دور میں مصر صہیونی ریاست اور بہائیت کے خلاف برسرپیکار تھا۔ اسی وجہ سے مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق تھے۔
بہائیوں کے اس عمل میں کئی مقاصد پیش نظر تھے؛ ایک یہ کہ شہنشاہی حکومت کو علماء کا مقابلہ کرنے کے لیے اکسائے، دوسرے یہ کہ ایران کو عرب ممالک سے دور کرے، تیسرے یہ کہ شہنشاہی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے پر مجبور کرے۔
البتہ بہائیوں کی سرگرمیاں اور ان سے منسلک افراد صرف یہی نہیں تھے جن کا تذکرہ ہوا، بلکہ ان کا ایک پورا چینل تھا اور ان کی سرگرمیاں بھی بہت وسیع و عریض پیمانے پر پائی جاتی تھیں جن کا تذکرہ آئندہ قسطوں میں کیا جائے گا۔
ماخذ:
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.
3- فصلنامه 15 خرداد، انقلاب اسلامی و مسئله فلسطین: جستارهایی در پیوند صهیونیسم و بهائیت، رحمانی، شمس الدین، زمستان 1389، دوره سوم، شماره 26، ص 256-199.

 

 

یہود دشمنی اسرائیل کی تشکیل کے لیے صرف ایک بہانہ

  • ۳۸۵

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جب بین الاقوامی صہیونیت نے اسرائیل نامی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا اور اس کے مقدمات فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے تو سب سے پہلا جو قدم اٹھانے پر وہ مجبور ہوئے وہ پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنا تھا۔ اس لیے کہ ایک ریاست کی تشکیل کے بنیادی اصول میں سے ایک اصل یہ ہے کہ ایک ثقافت اور مشترکہ آداب و رسومات رکھنے والے افراد کا ایک مجموعہ کسی ایک خاص جگہ پر اکٹھا ہو جائے، لیکن اسرائیل کی تشکیل میں یہ بنیادی شرط وجود نہیں رکھتی تھی۔
اسی وجہ سے صہیونیت کے پرچم دار اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا اقدام کرنے پر تیار تھے۔ امریکہ میں صہیونیوں کی ایک کانفرنس میں کی گئی “ڈیوڈ بن گورین” کی تقریر کو اس بارے میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے عام اعلان کیا: “صہیونیت کی ایک ذمہ داری تمام یہودیوں کو اسرائیل میں لانا ہے۔ ہم والدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہماری مدد کریں تاکہ ہم ان کے بچوں کو اسرائیل منتقل کریں۔ حتیٰ اگر وہ ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں بھی ہوں گے تو ہم جوانوں کو زبردستی اسرائیل لے جائیں گے”۔
یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے اور حتیٰ انہیں اسرائیل ہجرت پر مجبور کرنے کے لیے صہیونی مبالغہ آرائی، ڈرامہ بازی اور یہود دشمنی جیسے اوزار کا استعمال کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے بہت ساری خبریں اور باتیں حقیقت سے دور ہوتیں یا ان میں مبالغہ آرائی ہوتی تھی۔ دراصل صہیونیت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ خرید کر ان کے ذریعے دنیا میں جھوٹی خبریں پھیلاتی، اور عوام الناس ان چیزوں سے بے خبر ان جھوٹی خبروں پر یقین کر لیتے۔ مثال کے طور پر ۱۹۱۹ میں امریکی سفیر “ہگ گیبسن” (Hugh gibson) نے پولینڈ میں یہود دشمنی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو کچھ امریکی میڈیا پر یہودی دشمنی کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ واقعیت سے کہیں زیادہ ہے۔ گیبسن، وزارت داخلہ کو دی جانے والی اپنی رپورٹوں میں اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے تھے لیکن وہ اس بات سے غافل تھے کہ یہ معلومات یہودی زادوں برینڈیز (Kazimierz Brandys) اور فرینکفرٹر (David Frankfurter ) کے ہاتھ لگ جائیں گی۔ ان دو صہیونی یہودیوں نے فورا گیبسن کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور میٹنگ میں برینڈیز اور فرینکفرٹر نے گیبسن سے کہا کہ تم نے یہودیوں کے حق میں سب سے بڑی خیانت کی ہے اس لیے کہ دنیا میں اس طرح کی رپورٹوں کو شائع کئے جانے سے صہیونیوں کی تمام محنتیں ضائع ہو گئی ہیں۔ آخر کار گیبسن کو اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ اگر وہ اپنے نظریے کو نہیں بدلیں گے تو پارلیمنٹ (سنا) میں انہیں ووٹ حاصل نہیں ہو پائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ صہیونیوں کی کون سی محنتیں تھیں جو گیبسن کی رپورٹوں کے شائع ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی تھیں؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں صہیونیت کے سربراہوں اور جرمنی میں نازی گروہ کے درمیان پائے جانے والے تعلقات پر غور کرنا ہو گا۔ صہیونیوں نے یہود دشمنی کے مسئلے کو لے کر طول تاریخ میں سب سے زیادہ جو ناجائز فائدہ اٹھایا ہے وہ ہیٹلر کے دور حکومت میں؛ یعنی ۱۹۳۳ سے ۱۹۴۵ کے دوران اٹھایا ہے۔ صہیونی جماعت حتیٰ اس دور میں یہ کوشش کر رہی تھی کہ یہودیوں کی رہائش کے لیے بنائے گئے کیمپوں کو بھی نابود کرے تاکہ اس طریقے سے ظاہر کر سکے کہ یہودی قوم صرف ایک یہودی حکومت میں ہی امن و سکون کا احساس کر سکتی ہے۔
صہیونی حتیٰ جرمنی میں یہودیوں کے لیے امریکی اور برطانوی عہدیداروں کی جانب سے تعمیر کی جانے والی دائمی رہائشگاہوں کے منصوبے کی بھی مخالفت کرتے تھے اور مخالفت کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہودی جرمنی میں ہی ہمیشہ کے لیے رہائش پذیر ہو جائیں اور فلسطین ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔ امریکی صدر روزیولٹ (Franklin D. Roosevelt) کے نمائندے موریس ارنسٹ (Moris Ernest) نے یہودی پناہ گزینوں کی مدد کے سلسلے میں صہیونیوں کی مخالفت کے بارے میں اپنی یادداشت میں یوں لکھا: “جب میں یہودیوں کی رہائش کے لیے جگہ تلاش کر رہا تھا، یہودی رہنما نہ صرف مخالفت کرتے تھے بلکہ بعض اوقات میرا مزاق اڑاتے تھے اور یہاں تک کہ مجھ پر حملے بھی کرتے تھے گویا کہ میں ایک خائن ہوں”۔
نیز سنہ ۱۹۳۳ میں صہیونیوں کے بعض رہنماؤں نے نازیوں کے ساتھ ” منتقلی کا معاہدہ” کے زیر عنوان ایک عہد و پیمان باندھا جس پر بہت سارے یہودیوں نے اعتراض کیا۔ اس معاہدے کے مطابق جرمن یہودی جو فلسطین ہجرت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے اپنا مال و منال فلسطین منتقل کرنے پر مجبور تھے۔ اس طریقے سے اقتدار کے پوجاری بعض یہودیوں نے اپنے ہم نوعوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی خواہشات کو پورا کیا۔ “اڈوین بلک” اپنی کتاب “منتقلی معاہدہ” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں: قابل توجہ اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آخر کار ایڈولف ہٹلر بھی اسرائیل کے ایک اہم اقتصادی حامی میں تبدیل ہو گئے تھے”۔
دلچسپ یہ ہے کہ تاریخی مطالعات میں کبھی بھی صہیونیوں اور نازیوں کے درمیان پائے جانے والے اس گہرے رابطے کی طرف اشارہ نہیں ہوتا اور صرف نازیوں کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی فضا بھی خود صہیونیوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی۔ اس لیے کہ یہ صہیونی سربراہان تھے جو پہلی عالمی جنگ میں برطانیہ کی حمایت میں امریکہ کو شامل کر کے جرمنی کی شکست کا باعث بنے۔ اور اس اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودیوں کے خلاف جرمنیوں کا غصہ ابھر آیا۔ لہذا آپ مشاہدہ کر رہے کہ مدعی اور دعوے دار شخص خود قصوروار اور مجرم بھی ہے۔ اور یہ تمام منصوبہ بندیاں صہیونیت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انجام دیں تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، مقصد بھی حاصل ہو جائے اور ان کا کسی کو پتہ بھی چلے۔
کتاب: Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
مولف: Alison weir

 

صہیونی ریاست اور سعودی اتحاد ‘فرعون’ سے بھی بدتر

  • ۳۳۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم کی ایک اہم آیت جو دشمن شناسی کے حوالے سے ہماری توجہ کا مرکز قرار پانا چائیے سورہ ممتحنہ کی نویں آیت ہے:
خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: «إِنَّمَا یَنْهَاکُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَ أَخْرَجُوکُم مِن دِیَارِکُمْ وَ ظَاهَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ، وہ تمہیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمہیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمہارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہو گا۔
اس آیت میں چند بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں:
۔ ظلم، ظلم ہے چاہے بلاواسطہ ہو یا چاہے بالواسطہ اور کسی کی حمایت کے ذریعے
۔ حتیٰ اگر مظلوم واقع ہوں تو کفار کی طرف دوستی کا ہاتھ مت بڑھانا اور نیکی کی بجاآوری سے کنارہ کشی نہ کرنا۔
۔ دوسروں کی سرزمین کو غصب کرنا اور انہیں ان کے وطن سے نکال باہر کرنا جرم اور ممنوع ہے اور ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ اسلامی جہاد کے عنوان سے جنگ کی جا سکتی ہے۔
دوستی اور انسانی دوستی کے نام سے کفار حربی کے ساتھ مصالحت ممنوع ہے۔(۱)
قرآن کریم نے فرعون کے بارے میں “یخرجون” کا لفظ استعمال کیا ہے جو عربی قواعد کے مطابق فعل مضارع ہے یعنی فرعون وہ ہے جو موسی کے ماننے والوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرتا ہے۔ در حقیقت یہ ظالم کا طریقہ کار ہے وہ ملت مظلوم کو ان کے وطن سے باہر نکالتا ہے۔ جو کچھ اس دور میں فرعون انجام دیتا تھا آج اس سے کہیں بدتر اسرائیل فلسطین میں انجام دے رہا ہے اور سعودی اتحاد یمن میں۔ یہ “یذبّحون ابنائهم و نسائهم و یقتلون رجالهم” ہیں، یعنی ان کے بچوں اور عورتوں کو ذبح کرتے ہیں ان کے مردوں کو قتل کرتے ہیں۔ فرعون کیا کرتا تھا «یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَ یَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ»[۲] تمہارے بچوں کو قتل کرتا تھا اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ لیکن یہ جب بم مارتے ہیں تو بچوں، عورتوں، مردوں سب کا ایک ساتھ قتل عام کرتے ہیں۔
«یُخْرِجُونَ» کا مصداق دنیا میں اس وقت فلسطین ہے کہ ۷۰ سال کے زیادہ عرصہ سے مظلوم عوام کو ان کی سرزمینوں سے باہر نکالا ہوا ہے۔ اور «یذبحون» کا مصداق وہ قتل عام ہے جو سعودی اتحاد یمن میں انجام دے رہا ہے۔ کیا یہ فرعون سے بدتر نہیں ہیں؟
سامراجیت اور صہیونیت سے برائت اختیار کرنا چاہیے، آل سعود سے برائت اختیار کرنا چاہیے۔ اور ہر اس ظالم اور طفل کش سے جو «یَقْتُلُونَ»[۳] اور «یُذَبِّحُونَ» کا مصداق ہو اس سے برائت حاصل کرنا چاہیے۔ (۴)
اگر کوئی ان سے برائت کے بجائے دوستی اور محبت کرے تو اس سے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، چونکہ وہ «إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ» بے نیاز ہے۔ لیکن اس دوستی اور محبت کا تلخ نتیجہ خود انہیں کی طرف پلٹے گا؛ «وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ» یہ ظلم خود ان کے دامن گیر بھی ہو گا جو ظٓالمین سے برائت حاصل کرنے کے بجائے ان سے دوستی کرتے ہیں۔ اور یہ خود بھی دھیرے دھیرے ظالمین کی صف میں شامل ہو جائیں گے بلکہ قرآن کریم نے تو انہیں خود ظالم کہا ہے” وَ مَن یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ،.»[۵] جو لوگ ان سے دوستی کریں گے وہ خود بھی ظالم ہوں گے۔
منابع:
[۱] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درسهایى از قرآن، ۱۳۸۳ ش، چاپ یازدهم جلد ۹ – صفحه ۵۸۷
[۲] سوره بقره، آیه۴۹؛ سوره ابراهیم، آیه۶٫
[۳] سوره اعراف، آیه۱۴۱٫
[۴] تفسیرآیت الله جوادی آملی، سوره ممتحنه جلسه پنجم ۱۳/۱۲/۱۳۹۶
[۵] تفسیرآیت الله جوادی آملی، سوره ممتحنه جلسه پنجم ۱۳/۱۲/۱۳۹۶
مجید رحیمی

 

ہندوستان کی قدیم تہذیب کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار

  • ۵۱۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ہندوستان ایسی سرزمین کا نام ہے جس کی تہذیب و ثقافت تین ہزار سال پرانی ہے بلکہ اس دور سے ملتی ہے جب حضرت انسان نے اس کار گہہ حیات میں قدم رکھا اور خالق کائنات نے انسانی پیکر کو حیات بشری کا لباس پہنایا۔ تاریخ نے اس سرزمین کے دامن میں بے شمار گلہائے رنگارنگ کھلائے اور تہذیب و ثقافت کے بے بہا موتی بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سرزمین کو عجائب گھر کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کی یہ قدیمی تہذیب و ثقافت مصری، سمیرین، آشوری، کلدانی، ایرانی اور یونانی تہذیبوں کے ساتھ آمیختہ ہو کر ترقی کے منازل طے کرتی رہی ہے اسی وجہ سے بھارتی تہذیب میں مذکورہ تہذیبوں کے مشترکہ نمونے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
اس سرزمین کی انوکھی تہذیب و ثقافت کے تحفظ میں دینی مدارس کا کردار بھی اپنی جگہ محفوظ ہے۔ دینی مدارس نے ہندوستانی تاریخ اور تمدن کو دینی تعلیمات کے ہمراہ آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے میں بے حد سرمایہ لٹایا ہے۔ جہاں ہندوستان میں دینی مدارس نے اسلامی تہذیب کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا وہاں گنگا جمنی تہذیب کو بھی پروان چڑھایا۔ دینی مدارس چاہے اہل سنت و الجماعت مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں چاہے شیعہ مکتب فکر سے دونوں مکاتب کے مدارس نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب کی یلغار اور سیاہ آندھیوں سے محفوظ رکھنے میں بے مثال کردار پیش کیا ہے۔ لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس سرزمین کے دینی مدارس اور حوزات علمیہ نہ صرف مذہبی تعلیمات کی ترویج میں کوشاں رہے بلکہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی میدانوں میں بھی موجود خلاؤں کو پر کیا اور معاشرے کے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں سدھار لانے کی کوشش کی۔ یہ علمی مراکز ممتاز طلاب کی تربیت کے ذریعے معاشرے کی ثقافت کو رونق بخشتے اور ایسے افراد کو معاشرے کے حوالے کرتے ہیں جو دینی اور ثقافتی یلغاروں کے مقابلے میں مضبوط ڈھال بن کر جہاں دین کی پاسبانی کرتے ہیں وہاں معاشرے اور ملک کی تہذیب کو بھی شرپسندوں اور انتہاپسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
دینی مدارس کا بھارت کی سرزمین میں روشن اور درخشاں ماضی پایا جاتا ہے بڑے بڑے مجتہد ان مدارس نے جنم دئے اور ایسے قیمتی اور گرانقدر کتب خانے وجود میں لائے جن میں ایسی بےبدیل کتابیں مہیا ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے کتب خانوں میں موجود نہیں ہیں۔ ہندوستان میں علم کلام اور فقہ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ ظہور اسلام کے ابتدائی ادوار سے آغاز ہو گیا تھا، اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ و نقلیہ کے فروغ کے لیے مختلف مدارس اور حوزات علمیہ وجود میں لائے گئے تاکہ دینی تعلیمات کے حصول کے شائقین ایک ساتھ مجتمع ہو کر علوم الہیہ سے اپنی تشنگی بجھائیں اور بھارت کی سرزمین پر توحید پرستی کا پرچم لہرایا۔
اگر ہندوستان کے دینی مدارس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں تمام مسلمان چاہے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل سنت و الجماعت سے، مشترکہ مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرتے تھے لیکن دھیرے دھیرے اختلافات وجود میں آنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور دینی مدارس شیعہ و سنی مدارس کی شکل میں پھیلتے گئے۔ بہر صورت دونوں طبقے کے دینی مدارس میں اپنے اپنے اعتبار سے اسلامی علوم کو ترقی ملتی گئی اور فقہ و حدیث و تفسیر کی تعلیم کے علاوہ علم ریاضیات، علم ہیئت، علم منطق اور اسلامی فلسفہ جیسے علوم بھی خصوصا شیعہ مدارس میں رائج ہو گئے۔ ہندوستان کے معروف شیعہ مدارس میں حوزہ علمیہ “سلطان المدراس” کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اہل تشیع کے دینی مدارس میں علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم نے شیعہ ثقافت کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان مدارس نے ایسے عظیم علماء اور دانشوروں کی تربیت کا سامان فراہم کیا جنہوں نے عالم اسلام کی فکری اور عقیدتی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ (۱)
برصغیر میں شیعہ نوابوں نے بھی دینی مراکز کی تعمیر اور ممتاز علمی شخصیات کی تربیت میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا یہاں تک کہ ہندوستان کے دینی مدارس اور علماء کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کی علمی اور مالی حمایت حاصل ہو گئی۔ یہ حمایت اس بات کا سبب بنی کہ ہندوستان کے علمی مراکز اور کتب خانے ایک قسم کی مرکزیت حاصل کر جائیں اور علامہ امینی جیسی شخصیت کو الغدیر کی تدوین کے لیے ہندوستان کا سفر کرنا پڑ جائے۔
اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے ابتدائی ایام میں ہندوستان کے شیعہ مدارس کی حد اکثر تعداد ۲۰ عدد تھی لیکن اس وقت ہندوستان میں ۷۰ سے زیادہ دینی مدارس پائے جاتے ہیں۔ یہ دینی مدارس کہ جن میں سے بہت سارے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے تعمیر ہوئے ہیں بالعموم ہندوستانی معاشرے میں اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے اور بالخصوص شیعہ سماج میں بالیدگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شیعہ مدارس کے علاوہ اہل سنت و الجماعت کے دینی مدارس کو بھی ہندوستان میں بہت بڑی مرکزیت حاصل ہے یہاں تک کہ کئی دیگر ممالک کے طلاب بھی ان مدارس سے کسب فیض کرنے ہندوستان جاتے ہیں۔ دار العلوم دیوبند اور جامعہ رضویہ بریلوی اس مکتب فکر کے دو اہم مدارس شمار ہوتے ہیں۔
۱ سفربه سرزمین هزار آیین، گزارش سفر آیت الله مصباح یزدی به هندوستان, ص ۱۵۲  تا ۱۵۴
بقلم: حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے شعبہ برصغیر اسٹڈیز ڈیسک گروپ کے ڈائریکٹر

 

صہیونی ریاست کی تشکیل میں امریکہ کا کردار

  • ۳۵۳

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسرائیل کی تشکیل میں اہم ترین کردار برطانیہ کا ہے اور حتیٰ تاریخ میں یہ ذکر ہوا ہے کہ عثمانی حکومت کے زوال کے بعد، فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ چلا گیا اور برطانیہ نے اس سرزمین کو صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اس ریاست کی تشکیل میں برطانیہ سے کہیں زیادہ امریکہ کا کردار ہے جو پہلی عالمی جنگ میں نمایاں ہوتا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت اس کے باوجود کہ امریکہ جنگ کے دو اصلی حریفوں میں سے کسی ایک کا طرفدار نہیں تھا، اس بات کا باعث بنی کہ بہت سارے امریکیوں کو اپنی جانوں سے منہ ہاتھ دھونا پڑا۔ اس زمانے کے امریکی عوام سخت مخالف تھے کہ امریکہ جنگ میں آگ میں کود پڑے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے بلکہ یہاں تک کہ امریکہ کا اٹھائیسواں صدر ’ ووڈرو ولسن ‘ اس وقت اسی شعار کے ساتھ مسند صدارت پر براجمان ہوا کہ وہ امریکہ کو عالمی جنگ سے محفوظ رکھے گا۔ اس کے باوجود اس نے ۱۹۱۷ میں اپنا موقف بدلتے ہوئے عالمی جنگ کی آگ میں چھلانگ لگائی اور ۲۷۰ ہزار امریکیوں کے قتل یا زخمی ہونے کا باعث بنا۔ البتہ یہ تعداد ۱۲۰۰ ہزار کے علاوہ ہے جو جنگ کی مخالفت میں امریکی عقوبت خانوں میں بند کئے گئے۔
تجزیہ نگار پہلی عالمی جنگ میں امریکہ کی شرکت کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسے جرمن آبدوز کے ذریعے امریکی بحری جہاز کا غرق کیا جانا یا امریکی ڈپلومیٹیک شکست، برطانیہ کی اشتعال انگیزی، وغیرہ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس بات سے باخبر ہیں کہ امریکہ کو پہلی عالمی جنگ میں دھکیلنے والے امریکی صہیونی یہودی تھے۔
صہیونی ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے عثمانی سلطنت کے پاس گئے، لیکن عثمانی بادشاہ نے مخالفت کے ضمن میں، انہیں عثمانی حکومت کے قلمرو کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر یہودی حکومت کی تشکیل کا مشورہ دیا کہ جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد وہ برطانوی حکومت کے پاس گئے لیکن  اس نے بھی کچھ زیادہ اس بارے میں رجحان نہیں دکھایا۔
لیکن ۱۹۱۶ء میں برطانیہ کے حالات میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ وہ جو پہلی عالمی جنگ میں پیش قدم تھے انہوں نے ایک دن میں ۶۰ ہزار جانوں کو موت کی بھینٹ چڑھایا۔ حالات انتہائی بحرانی کیفیت اختیار کر گئے تھے۔ ایسے سخت حالات میں صہیونیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور برطانیہ کو جنگ سے نجات دلانے کا وعدہ دیا لیکن اس کے بدلے میں انہوں نے برطانیہ سے ایک خاص چیز کا وعدہ لیا۔
اس سے پہلے صہیونی، فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے برطانیہ کو قانع کرنے کے لیے صرف مذہبی دلائل پیش کرتے تھے لیکن اس بار انہوں نے اعلان کیا کہ اگر برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت کا وعدہ دے تو ہم جنگ میں امریکہ کو برطانیہ کی حمایت کے لیے میدان میں لائیں گے۔
لہذا برطانوی وزیر خارجہ “لورڈ بالفور (Lord Balfour) نے ۱۹۱۷ میں صہیونیوں کے رہنما “لورڈ روتھسچیلڈ (Lord rothschild) کے نام ایک مستقل یہودی ریاست کی تشکیل کی حمایت میں خط لکھ دیا۔ یہ خط جو بعد میں “بالفور” اعلانیہ کے نام سے معروف ہو گیا، اس میں یہودی ریاست کی تشکیل میں تعاون کے مشورے کو قبول کیا۔ البتہ اس خط میں یہ قید بھی لگائی گئی تھی کہ فلسطین میں ساکن غیر یہودیوں کے مذہبی اور شہری حقوق پامال نہیں ہونا چاہیے، لیکن بعد میں بالکل اس کے برخلاف عمل کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان دو ملکوں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان کن لوگوں نے رابطہ پل قائم کیا؟
واضح ہے کہ یہ تمام منصوبے برطانیہ اور امریکہ میں ساکن صہیونی یہودیوں کے ذریعے انجام پا رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے صہیونیوں کے درمیان اتنے گہرے تعلقات پائے جاتے تھے کہ نہوم سکولوو (nahum sokolow) اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جو بھی منصوبہ لندن میں تیار ہوتا تھا امریکہ میں صہیونی تنظیم کے ذریعے اس پر جائزہ لیا جاتا تھا اور امریکہ میں صہیونیوں کے جانب سے پیش کئے گئے ہر منصوبے کو لندن میں عملی جامہ پہنایا جاتا تھا‘‘۔
امریکہ میں ’لوئیس برانڈیس‘ نامی صہیونی یہودی جو سپریم کورٹ کا جج بھی تھا اور امریکی صدر کا بہت قریبی دوست بھی وہ اس کام کا پیچھا کر رہا تھا اور برطانیہ میں ’آمری (Leopold Amery) نامی شخص ان امور پر ناظر تھا۔ البتہ یہودی ریاست کی تشکیل کا نظریہ سب سے پہلی مرتبہ پروشیم(parushim) خفیہ تنظیم کے بانی “ہورس کالن” نے پیش کیا۔ اس کے بعد صہیونی سربراہان نے اس پر غور و خوض کے بعد برطانیہ کو اس پر عملی جامہ پہنانے کی پیشکش کی۔ بہت ساری اہم سیاسی شخصیات جیسے برطانوی وزیر خارجہ لوئڈ جورج ( Loyd george) ، برانڈیس یونیورسٹی کے استاد فرینک ای مینوئل (Frank E manuel) بیت المقدس میں امریکی قونصلٹ کے عہدیدار ایون ام ویلسن (Evan m wilson) صہیونی مورخ نوآمی کوہن اور دیگر بہت سارے افراد نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں امریکی صہیونیوں کی اس کام میں براہ راست مداخلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں جب صہیونی یہودی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذاکرات کر رہے تھے تو ۱۹۱۷ میں امریکی وزیر خارجہ روبرٹ لینسینگ (Robert Lansing) کے پاس رپورٹ پہنچی جس سے یہ معلوم ہو رہا تھا کہ عثمانی حکومت جنگ سے تھک چکی ہے اور ممکن ہے وہ جرمن اتحاد سے باہر نکل جائے اور برطانیہ کے ساتھ کوئی الگ معاہدہ کر لے۔ یہ چیز اگر چہ برطانیہ کے فائدے میں تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صہیونی اپنے مقاصد تک نہ پہنچ سکیں یعنی فلسطین میں یہودی ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ اس لیے کہ ممکن تھا اس معاہدے کے تحت فلسطین عثمانیوں کے ہاتھوں میں باقی رہ جائے۔
امریکہ ایسے معاہدے کو امکان سے باہر سمجھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود امریکہ نے محققین کا ایک وفد عثمانی سلطنت کی طرف بھیجا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس وفد کا ایک شخص جو اس ٹیم کے افراد کے انتخاب کے لیے پیش پیش تھا ایک صہیونی یہودی تھا جس کا نام فلیکس فرانکورٹر تھا اور وہ پروشیم خفیہ تنظیم کا رکن اور اس کے بانی لوئیس برانڈیس کا پرانا دوست تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وفد کے منتخب تمام افراد صہیونی تھے اور یہی لوگ باعث بنے کہ عثمانی حکومت اور برطانیہ کے درمیان کوئی معاہدہ تشکیل نہ پائے۔
یہودیوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہت سارے غیر یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا جو خود امریکی تھے۔ اس یہودی وفد نے انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، اپنے مقصد کو حاصل کر لیں اور کسی کو خبر بھی نہ ہو۔
کتاب Against our better judgment: the hidden history of how the u.s was used to create Israel,2014.
مولف: Alison weir
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر میلاد عسگری

 

صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/شیخ عیسی احمد قاسم

  • ۳۵۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شیخ عیسی قاسم بحرین کے شیعہ عالم دین اور ایک سیاسی و سماجی اہم شخصیت ہیں۔ آپ نے حوزہ علمیہ نجف اور قم میں دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ایک مدت تک بحرین کی قومی اسمبلی اور قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے، علاوہ از ایں ایران کے عالمی اداروں کے ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ اہل البیت (ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ (۱)
شیخ عیسی قاسم کی نگاہ میں باطل طاقتوں کے مقابلے میں خاموشی، مفسد حکمرانوں کے سامنے جھکنا، استعماری بربریت اور جارحیت سہہ جانا اور دین و آزادی کو نظر انداز کر دینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ شیخ کے انہیں نظریات اور افکار کی وجہ سے بحرین کی حکومت وقت نے ۲۰۱۶ میں آپ کی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ (۲)
شیخ عیسی قاسم اپنے ملک کے اندرونی حالات پر توجہ دینے کے علاوہ علاقے اور عالم اسلام خصوصا فلسطین کے مسائل پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ مثال کے طور پر آپ منامہ کانفرنس اور بعض عربی ملکوں کی خیانت کے بارے میں فرماتے ہیں: اسرائیل کی قربت اختیار کرنے کی غرض سے یہ اقدام اور دیگر حقارت انگیز اقدامات کا مطلب امت کے مقدسات کی کھلے عام بے حرمتی اور صہیونی ریاست کی حمایت کا اعلان ہے۔ (۳)
۲۰۱۹ میں یوم القدس کے موقعہ پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دیئے گئے ایک بیان میں آپ نے کہا: ’’صدی کی ڈیل اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے امریکہ و اسرائیل کے اکسانے پر منامہ کانفرنس در حقیقت امت اسلام پر سامراجیت کی بالا دستی کو قبول کرنے اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے‘‘۔
آپ نے قم میں یوم القدس کی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا: یوم القدس کی ریلی کا مقصد استکبار اور مڈرن جاہلیت کا مقابلہ اور راہ خدا میں اجتماع ہے جس کے نتیجہ میں خدا کامیابی عطا کرے گا‘‘۔ (۴)
شیخ عیسی قاسم نے اسی طرح تینتیسویں بین الاقوامی وحدت کانفرنس میں قرآن کریم کی بعض آیات سے استدلال کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا حل صرف اسلامی وحدت میں قرار دیا اور کہا:
’’فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے امت ایک سخت آزمائش میں مبتلا ہے یہ امت یا اختلاف کا شکار رہے اور دن بدن شکست کا منہ دیکھتی رہے یا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو جائے اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔
فلسطین اور قدس امت اسلامی کا مسئلہ ہے اس مسئلے کے حل کے لیے پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جانا چائیے اور فلسطین کی امداد رسانی کے لیے آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہیے فلسطین صرف نعروں اور ریلیوں سے واپس ملنے والا نہیں ہے بلکہ اس کے لیے قربانی دینا پڑے گی، اور فلسطین کی آزادی کی راہ میں ایک رہبر کا حکم ماننا پڑے گا تاکہ یہ مسئلہ کسی نتیجہ تک پہنچے۔ (۵)
حواشی
۱۔ https://iqna.ir/fa/news/3816001
۲- http://fa.wikishia.net/view
۳- https://fa.alalamtv.net/news/4144886
۴- https://tn.ai/2022825
۵- https://www.farsnews.com/news/13980823000335

 

یہودیت سے نمٹنے کی قرآنی حکمت عملی

  • ۴۷۴

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گوکہ آج کچھ عالم اسلام کے اندر سے کچھ ایسی قوتوں نے یہود کی گود میں بیٹھنے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھ کرکے ان کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات کو عیاں کر دیا ہے، جو کسی وقت کچھ مسلمانوں کے لئے اسلام کی علامت اور خادم الحرمین سمجھے جاتے تھے، لیکن قرآن کریم کسی شخص یا کسی قبیلے یا کسی بادشاہت کے تابع نہیں ہے اور اس کے تمام قواعد و ضوابط پابرجا اور استوار ہیں۔
قرآن کریم نے یہود کو مؤمنوں کا بدترین دشمن قرار دیا ہے:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُواْ (۱)؛ اے پیغمبر! یقینا آپ یہود اور مشرکین کو ایمان لانے والوں کا سخت ترین دشمن پائیں گے۔
یہ مسائل آیات قرآنی میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں اور اس مضمون میں اس کے بعض زاویوں اور پہلؤوں کا بیان مقصود ہے۔
یہودی جرائم اور شرمناک کرتوت صرف قرآنی آیات اور قرآنی تاریخ تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کی خونخوارانہ خصلتیں حال حاضر میں بھی جاری و ساری ہیں۔ فلسطین اور لبنان میں ان کے انسانیت کشت جرائم اور جارحانہ اقدامات ان کی بنیادی خصلتوں کو زیادہ واضح کررہے ہیں یہاں تک کہ آج محض وہ لوگ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہیں یا پھر یہودی جرائم کی وکالت کررہے ہیں جو کسی مغربی یا کسی عرب یا یہودی ادارے سے وابستہ ہوں، ورنہ تو کو‏ئی بھی انسان اس بظاہر تہذیب یافتہ قوم اور درحقیقت انسانیت سے کوسوں دور جماعت سے انسانی منطق اور سلوک کی توفع نہیں رکھتا اور سب جانتے ہیں کہ یہ قوم انسانی اصولوں اور منطق کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ یہ وہی جذبہ ہے جس کی طرف قرآن کریم نے “لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُواْ” فرما کر اشارہ کیا ہے۔
۱- بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن کی صریح آیات کریمہ
¤ وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً (۲)
اور ہم نے اس کتاب (توراۃ) میں بنی اسرائیل کو آگاہ کر دیا کہ تم ضرور زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے [خون خرابہ کروگے] اور بڑی سرکشی کرو گے۔
¤ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولیٰهُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِی بَأْسٍ شَدِیدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً؛ تو جب ان میں سے پہلے فساد کا وقت آئے گا تو ہم [تمہاری سرکوبی کےلئے] تم پر بھیجیں گے اپنے ایسے بندے جو بڑی سخت لڑائی لڑنے والے ہوں گے تو وہ [تمہاری] آبادیوں کے اندر داخل ہو جائیں گے اور یہ وعدہ ہے جو ہو کر رہے گا۔ (۳)
¤ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیراً؛ پھر [کچھ عرصہ بعد] ہم تمہیں ان کے اوپر غلبہ دیں گے اور تمہیں مال و اولاد کے ساتھ تقویت پہنچائیں گے اور تمہاری نفری کو بڑھا دیں گے۔ (۴)
¤ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ وَلِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِیُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِیراً؛ اگر تم بھلائی کرو گے تو خود اپنے ہی نفس کے لیے بھلائی کرو گے اور اگر برائی کرو گے تو وہ بھی اپنے لئے کرو گے۔ تو جب دوسرے وعدے کا وقت آئے گا تو پھر [بھی] ویسے ہی لوگ آئیں گے کہ تمہارا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں گے اور اس مسجد [الاقصی] میں اسی طرح داخل ہو جائیں گے جیسے پہلی دفعہ داخل ہوئے تھے۔ اور جس جس چیز پر کہ ان کا قابو ہوگا وہ اسے تباہ و برباد کردیں گے۔ (۵)
۲- مذکورہ بالا آیات کریمہ کے کلیدی الفاظ، جن کا تعلق اس مضمون کے عنوان سے جن پر ترتیب ملحوظ رکھے بغیر غور کیا جاسکتا ہے۔
¤ قَضَیْنَا: حتمی فیصلہ / قطعی حکم
¤ لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ: عالمی سطح کا فساد / عالمی خون خرابہ
¤ مَرَّتَیْنِ: برائی، فساد اور خون خرابے کی دہرائی
¤ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً: بہت بڑی سرکشی
¤ بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا: اللہ کے خاص بندوں کو مشن سونپنا اور اس جماعت پر ان کا مسلط ہونا
¤ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ: گھر گھر تلاشی
¤ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ: بنی اسرائیل کو ایک بار پھر اقتدار پلٹانا
¤ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ: دوسری سرکشی کے بعد روسیاہی اور حلیوں کا بگڑ جانا
¤ لِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ: مسجد [الاقصی] کی فتح دوسری مرتبہ
۳- قابل فہم نکات
¤ جو کچھ کتاب تورات یا لوح محفوظ میں ثبت ہؤا ہے، ہو کر رہنے والا وعدہ ہے: “وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ ۔۔۔ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً “۔
¤ آیت کے سیاق سے مستقبل میں بنی اسرائیل کے فساد اور سرکشی کی خبر ملتی ہے: “وَقَضَیْنَا إِلَى بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ”۔
¤ اس فساد اور اور سرکشی کے دو مرحلے ہونگے: “لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ”۔
¤ یہ دو واقعات عالمی اور وسیع ہونگے: “لَتُفْسِدُنَّ فِی الأَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیراً”۔
¤ پہلے وعدے میں اللہ کے خاص بندے اس جماعت پر غلبہ پائیں کے: “بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَاداً لَّنَا”۔
¤ شدت اور طاقت مشن پر روانہ کئے جانے والے لشکر کی امتیازی خصوصیت ہے: “أُوْلِی بَأْسٍ شَدِیدٍ”۔
¤ یہ اقدام اور کاروائی بنی اسرائیل کی گھر گھر تلاشی پر منتج ہوگی: “فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ”۔
¤ بنی اسرائیل کو اقتدار کا پلٹایا جانے کا تذکرہ، ان کی کامیابی یا فریق مقابل کی شکست کا سبب بیان کئے بغیر: “ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّةَ عَلَیْهِمْ”۔
¤ یہ جماعت پھر بھی اموال و اولاد کی کثرت کے ذریعے طاقتور ہوجائے گی: “وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیراً”۔
¤ دوسرے واقعے کا سبب بنی اسرائیل کے اپنے برے اعمال (اور ناشکری) بیان کیا جاتا ہے: “إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا”۔
¤ دوسری سرکشی کا نتیجہ خصوصی افواج کے ہاتھوں اس جماعت کی روسیاہی اور حلیہ بگڑ جانے کی صورت میں برآمد ہوگا: “فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ”۔
¤ اللہ کے خصوصی بندے ایک بار پھر مسجد میں داخل ہونگے جیسے کہ وہ پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے: “لِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ”۔
¤ اس بار وہ کچھ یوں نیست و نابود ہوجائیں گے کے بنی اسرائیل کا کوئی اثر ہی نہ رہے گا: “وَلِیُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِیراً”۔
۴- تفسیری نکتے:
¤ “الْمَسْجِدَ” سے مراد سورہ اسراء کی پہلی آیت کے قرینے کی بنیاد پر “مسجد الاقصی” ہے: “سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى”۔ (۶)
¤ عبارت “عِبَاداً لَّنَا” ان افواج کے اخلاص کی علامت ہے کیونکہ “عِبَاداً لَّنَا” “عبد”، “عِبَاد” اور “عِبَادنَا” سے مختلف ہے اور “عِبَاداً لَّنَا” کی دلکش عبارت میں بندوں کی برگزیدگی مضمر ہے۔
¤ دلچسپ امر یہ ہے کہ عبارت “عِبَاداً لَّنَا” صرف ایک بار قرآن میں آئی ہے اور عبارت “عِبَادنَا” بھی صرف انبیاء علیہم السلام کے لئے بیان ہوئی ہے:
حضرت یوسف علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ؛ یقینا وہ ہمارے خالص چنے ہوئے بندوں میں سے تھے”۔ (۷)
خضر نبی علیہ السلام (بعض تفاسیر کی روشنی میں): “فَوَجَدَا عَبْداً مِّنْ عِبَادِنَا آتَیْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْماً؛ سو انھوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی خاص رحمت سے نوازا تھا۔ اور اسے اپنی طرف سے (خاص) علم عطا کیا تھا”۔ (۸)
حضرت نوح علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام: “إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۱۰)
حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام: “إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے”۔ (۱۱)
حضرت الیاس علیہ السلام: إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِینَ؛ بلاشبہ وہ ہمارے با ایمان بندوں میں سے تھے (۱۲)
انبیاء علیہم السلام: “وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ؛ اور ہمارا قول پہلے ہو چکا ہے اپنے بندوں کے لئے جو پیغمبر بنائے گئے ہیں”۔ (۱۳)
حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام: “وَاذْکُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِیمَ وَإِسْحَقَ وَیَعْقُوبَ أُوْلِی الْأَیْدِی وَالْأَبْصَارِ؛ اور یاد کرو ہمارے بندگان خاص ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کو جو خاص دسترسوں اور نگاہوں والے تھے”۔ (۱۴)
حضرت نوح و حضرت لوط علیہما السلام: “ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِّلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ؛ کافروں کے لحاظ سے اللہ نے مثال پیش کی ہے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی جو ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں تو انھوں نے ان سے غداری کی تو ان دونوں نے ان دونوں کو خدا کے عذاب سے کچھ بھی نہیں بچایا اور کہا گیا کہ داخل ہو جاؤ دونوں آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ”۔ (۱۵)
نیز ان بندوں کا تذکرہ اس صورت میں آیا ہے:
“تِلْکَ الْجَنَّةُ الَّتِی نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن کَانَ تَقِیّاً؛ یہ ہے وہ بہشت جس کا ورثہ دار بنائیں گے ہم اپنے بندوں میں سے اسے جو پرہیز گار ہو”۔ (۱۶)
“ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا؛ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا ہے”۔ (۱۷)
“وَلَکِن جَعَلْنَاهُ نُوراً نَّهْدِی بِهِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا؛ مگر ہم نے اسے ایک نور بنایا ہے جس سے ہم ہدایت کرتے ہیں، جس کو چاہیں، اپنے بندوں میں سے”۔ (۱۸)
“قَالَ رَبِّ بِمَآ أَغْوَیْتَنِی لأُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الأَرْضِ وَلأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ * إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ * قَالَ هَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ؛ اس [ابلیس] نے کہا اے میرے پروردگار! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے تو میں بھی زمین میں ان (بندوں ) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا ٭ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ٭ فرمایا یہ سیدھا راستہ ہے مجھ تک پہنچنے والا”۔ (۱۸)
– عبارت “… فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ… و… لِیَسُوؤُواْ وُجُوهَکُمْ وَلِیَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ” سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعات مسجد الاقصی اور فلسطین کے آس پاس ہی رونما ہونگے۔
– بنی اسرائیل کی تاریخ میں اس طرح کے عالمی سطح کے فتنے ـ الہی لشکر کے ہاتھوں اتنے وسیع واقعات اور سرکوییوں کے ساتھ ـ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جو کچھ “بخت النصر” اور “طرطیانوس” کے ہاتھوں یہودیوں کی سرکوبی کی داستانیں مذکورہ بالا خصوصیات سے مطابقت نہیں رکھتیں؛ کیونکہ یا تو وہ مسائل عالمی سطح کے نہیں تھے، یا ان خاص ادوار میں بنی اسرائیل برحق تھے؛ اور اہم بات یہ کہ بغاوت اور سرکشی یہودی یکتاپرستوں کے خلاف مشرکین کی طرف سے تھی نہ کہ بنی اسرائیل کی طرف سے۔
– لگتا ہے کہ اس قوم کی سرکشی اور فتنہ گری دور معاصر میں صہیونیت اور اسرائیل نامی ریاست کے قیام کے سانچے میں ـ نیل سے فرات تک یہودی ریاست کے قیام کے نعرے کے ساتھ ـ وقوع پذیر ہوئی ہے، یہ واقعہ آیات قرآنی کی پیشینگوئی کے مطابق پہلے واقعے پر منطبق ہوسکتا ہے؛ گو کہ اس سلسلے میں قطعیت اور حتمیت کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہنا چاہئے؛ لیکن نشانے اس سلسلے میں زیادہ ہیں۔
– اس سے بھی زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ دوسرے حادثے کا نتیجہ اس جماعت کا قلع قمع ہوجانے کی صورت میں برآمد ہوگا؛ لگتا ہے کہ یہ ایک آخری اور عالمی واقعے کی طرف اشارہ ہے؛ وہ واقعہ جس کا وعدہ دیا گیا ہے جس کا یہودی، عیسائی اور مسلمین ـ بالخصوص شیعیان آل رسول(ص) ـ انتظار کررہے ہیں۔
۵- چند تکمیلی نکتے
– اس حقیقت کو نظر سے دور نہیں رکھنا چاہئے کہ جو کچھ حالیہ صدی (بیسویں) صدی میں فلسطین کی مقبوضہ سرزمین میں رونما ہؤا، اس کا حضرت موسی علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے؛ اور جہاں تک صہیونیت کے جعل کردہ عقائد تمام یہودیوں کے ہاں مقبولیت نہیں رکھتے؛ کیونکہ کئی یہودی گروہ صہیونیت کے خلاف ہیں۔ دین موسی(ع) میں صہیونیت کو شاید دین اسلام میں وہابیت سے تشبیہ دی جاسکے۔
– حزب اللہ لبنان کی اسلامی مزاحمت، جو مکتب خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے متعین کردہ راستے اور عباداللہ کے صراط مستقیم پر گامزن ہے اور اس راستے میں بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کرچکی ہے؛ جس سے اللہ کے وعدے والی عظیم فتح کی نوید کی خوشبو محسوس ہورہی ہے۔
– واضح امر ہے کہ اللہ کے خاص بندے ہر گروہ اور قوم کے افراد نہیں ہوسکتے جو کسی ظاہری اسلامی ہدف کو لے کر ایک مخلصانہ تحریک کا آغاز کرچکے ہوں اور وہ نصر الہی سے فتح حاصل کرسکیں۔ چنانچہ مختلف تفکرات اور جماعتوں کی پہچاننے میں بہت زیادہ غور و تامل کی ضرورت ہے، پس پردہ عوامل اور استکباری قوتوں کے ساتھ خفیہ سازباز سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ القاعدہ اپنے حساب سے اہم ترین جہادی گروہ تھا لیکن اس کے پس پردہ عوامل کچھ اور تھے اور اگر اس کے تمام دعوے صحیح ہوتے تو آج ہم اسے اسلام اور اہل اسلام کے بدترین دشمن “یہودی ریاست” کے مد مقابل پاتے۔
– آج جو میدان میں ہیں وہ میدان میں دکھائی دے رہے ہیں اور جو بظاہر میدان میں تھے وہ مؤمنوں کے شدید ترین دشمن کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کو آنکھیں دکھا رہے ہیں اور “صدی کے سودے” (Century Deal) کے تحت قدس و کعبہ کو یہود کے ہاتھوں اعلانیہ فروخت سے نہیں ہچکچاتے بلکہ اس شرمناک سودے بازی پر فخر کررہے ہیں، مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا آج مغربی ایشیا میں اسرائیل کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے مزاحمت کے مجاہدین کے سوا کوئی دعوی کرسکتا ہے کہ وہ “عِبَاداً لَّنَا” کا مصداق ہوسکتا ہے؟ اگر قدس کی آزادی کے لئے لڑائی ہو تو مسلمانان عالم اور دوسروں کو کافر قرار دے کر صرف اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے کس محاذ میں ہونگے؟ اگر یہود شدید ترین دشمن ہے تو اس کے دوست مؤمنین کے دوست اور اسلام و ایمان کے حامی ہوسکتے ہیں؟
– یہودیوں کے جرائم کی وسعت اور ان کے مظالم و جرائم سے کافی عرصہ گذر جانے کے پیش نظر بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ کی نصرت کا وعدہ کچھ زیادہ دور نہ ہو؛ اور سخت لڑنے والے ثابت قدم جوانوں کا ظہور قریب ہو اور ہم سب شاہد ہوں عنقریب اس ریاست کی نابودی اور قبلہ اول اور قدس شریف کی آزادی کے۔
– آخرالزمان میں یہود کے ساتھ اہل حق کی جنگ قرآنی محکمات میں سے ہے
سورہ اسراء کی آیات کے بارے میں بعض مفسرین کی رائے یہ ہے آخرالزمان میں محاذ حق اور یہود کے درمیان جنگ حتمی اور قرآنی مسَلَّمات میں سے ہے۔ جہاں فرمایا گیا ہے کہ یہود عالمی فتنہ انگیزیوں اور جنگوں کے اسباب فراہم کریں گے؛ ایک فتنہ انگیزی امام عصر (عج) کے ظہور سے پہلے اور دوسرا ظہور کی آمد پر۔ دوسرا فتنہ شروع ہونے پر امام زمانہ عََّلَ اللہ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کا ظہور ہوگا اور آپ کا لشکر یہود کو نابود کرے گا۔ (۲۰)
– بہت سی احادیث میں منقول ہے کہ حضرت حجت عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف بیت المقدس میں نماز جماعت ادا کریں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ان کی اقتداء کریں گے۔ جبکہ ظہور سے متعلق احادیث میں منقول ہے کہ امام زمانہ عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کا ظہور مسجد الحرام سے ہوگا اور پہلی بیعت دیوار کعبہ کے پاس ہوگی چنانچہ بیت المقدس میں امام(عج) کی امامت جماعت کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت تک تمام طاغوتی اور شیطانی قوتوں نے شکست کھائی ہوگی اور اللہ کے وعدے کے مطابق عالمی اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آچکا ہوگا / یا عمل میں آرہا ہوگا۔
“وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ؛ اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں دبایا اور پیسا گیا تھا اور ان ہی کو پیشوا قرار دیں، ان ہی کو آخر میں (زمین کا) وارث بنائیں”۔ (۲۱)
ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلصانہ بندگی کی توفیق عطا فرمائے اور جلد از جلد پیشوائے منتظَر عَجَّلَ اللہُ تَعَالی فَرَجَہُ الشَّریف کی امامت میں مسجد الاقصی میں نماز ادا کریں۔ (ان شاء اللہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱- سورہ المائدہ، آیت ۸۲۔
۲۔ سورہ الاسراء، آیت ۴۔
۳۔ سورہ الاسراء، آیت ۵۔
۴۔ سورہ الاسراء، آیت ۶۔
۵- سورہ الاسراء، آیت ۷۔
۶۔ سورہ الاسراء، آیت ۱۔
۷۔ سورہ یوسف، آیت ۲۴۔
۸۔ سورہ الکہف، آیت ۶۵۔
۹۔ سورہ الصافات، آیت ۸۱۔
۱۰۔ سورہ الصافات، آیت ۱۱۱۔
۱۱۔ سورہ الصافات، آیت ۱۲۲۔
۱۲۔ سورہ الصافات، آیت ۱۳۲۔
۱۳۔ سورہ الصافات، آیت ۱۷۱۔
۱۴۔ سورہ ص، آیت ۴۵۔
۱۵۔ سورہ التحریم، آیت ۱۰۔
۱۶۔ سورہ مریم، آیت ۶۳۔
۱۷۔ سورہ فاطر (سورہ مؤمن)، آیت ۳۲۔
۱۸۔ سورہ الشوری، آیت ۵۲۔
۱۹۔ سورہ الحجر، آیت ۳۹، ۴۰ و ۴۱۔
۲۰۔ سورہ اسراء، آیات ۱ تا ۷۔
۲۱۔ سورہ القصص، آیت ۵۔
بقلم: حامد عبداللہی ترجمہ و تکمیل: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

امریکی کانگریس میں صہیونی لابی کا اثر و رسوخ

  • ۴۰۸

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ امریکی مقننہ، دو ایوانوں؛ سینیٹ اور ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے کہ جسے کانگریس کہتے ہیں۔ وفاقی قانون سازی کے اختیارات کانگریس کو دیئے گئے ہیں۔ جب ایک بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوتا ہے اور صدر کے ذریعہ اس کی تصدیق ہوتی ہے تو یہ قانونی شکل اختیار کرتا ہے۔ یعنی ، صدر کے دستخط سے منظور شدہ بل کو قانونی جہت ملتی ہے۔
 سینیٹ
امریکی کانگریس میں، خارجہ پالیسی سینیٹ کے دائرہ اختیار میں ہے۔ آئین کے مطابق ، دیگر حکومتوں کے ساتھ امریکی معاہدوں کو سینیٹ کے دو تہائی ارکان کے ذریعہ منظور کرنا ضروری ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کو کریڈٹ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے جب تک کہ معاہدے کو سینیٹ سے منظور نہیں کیا جاتا اور صدر کو مطلع نہیں کیا جاتا۔
سینیٹ نے مختلف شعبوں میں خصوصی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو مختلف موضوعات پر ماہرانہ رائے پیش کرتی ہیں۔ خارجہ پالیسی کی نگرانی سے متعلق سینیٹ کی سب سے بڑی اور اہم کمیٹی،  ’’کمیٹی برائے خارجہ پالیسی‘‘ (Committee on Foreign Relations) ہے ، جو معاہدے سے لے کر سرحدوں کی تبدیلی تک اور اقوام متحدہ سے متعلق امور تک دیکھ بھال کرتی ہے۔

ایوان نمائندگان
امریکی آئین کے مطابق ، ایوان نمائندگان کے اراکین کی تعداد 435 ہے ، جو ہر دو سال بعد منتخب ہوتے ہیں اور ان کا دوبارہ انتخاب لامحدود ہوتا ہے۔ ایوان نمائندگان کی صدارت اور ایوان کے اسپیکر اکثریتی پارٹی کے سینئر ممبر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس وسیع اختیارات ہیں، بشمول پارلیمانی اجلاسوں کا ایجنڈا طے کرنا، بحث کرنا یا ایجنڈے سے متعلق کسی موضوع کو ہٹانے کے لئے کوئی مقررہ مدت طے کرنا ان کے وظائف میں شامل ہے۔
آج ، نہ صرف امریکی سینیٹ امریکی خارجہ پالیسی کی نگرانی کرتا ہے، بلکہ ایوان نمائندگان بھی خارجہ امور کمیٹی کے ذریعہ خارجہ پالیسی پر نظارت رکھتا ہے۔
امریکی کانگریس اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرنے میں صہیونیوں کی ضرورت کے پیش نظر ، امریکی مقننہ میں یہودی لابی کا اثر و رسوخ بہت اہم ہے۔ سب سے زیادہ طاقتور صہیونی لابی  AIPAC ، امریکہ کی خارجہ پالیسی کو درج ذیل شکلوں کے ذریعے متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ا) کانگریس میں اہم عہدوں پر عیسائی صہیونیوں کی موجودگی
امریکی مقننہ میں صہیونی لابی کی کامیابی کی ایک وجہ عیسائی صہیونیوں کی کانگریس کے ممبران کی حیثیت سے موجودگی ہے۔ مثال کے طور پر رچرڈ آرمی نے ستمبر 2002 میں اعلان کیا کہ ان کی پہلی ترجیح صہیونی حکومت کا تحفظ ہے۔
ب) کانگریس میں یہودی سینیٹرز اور نمائندوں کی موجودگی
امریکی کانگریس میں ایسے یہودی سینیٹرز اور نمائندے موجود ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے اور حکومتی پالیسیوں کو صہیونی ریاست کے مفادات میں اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

ج) کانگریس کے عملے کا استعمال
کانگریس کے اراکین ایسے قوانین منظور کرنے میں اکیلے عمل نہیں کرتے جو صہیونی ریاست کے مفاد میں ہوتے ہیں، بلکہ کانگریس کا عملہ اور ماہرین ، جو قانون سازی کے مرکز میں ہوتے ہیں ،قوانین کا رخ صہیونی حکومت کے حق میں موڑنے پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ قوانین کا مسودہ لکھنے ، کانگریس کے ممبروں کے ذریعہ عوامی تقریروں کے لیے مواد فراہم کرنے اور کانگریس پر دباؤ ڈالنے کے لئے کھلے خطوط لکھنے میں کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔