بہائیت اسرائیل کے ایران میں پنپنے کا ذریعہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کی شہنشاہی حکومت کے ساتھ فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعلقات کی تاریخ سو سال پرانی ہے لیکن محمد رضا خان کے دور حکومت میں یہ روابط اپنے عروج پر پہنچ گئے یہاں تک کہ ان کے دور حکومت کی آخری دہائی میں تقریبا تمام اہم حکومتی عہدے بہائیوں کے پاس تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانے میں اسرائیل اور یہودیوں کا ایران میں اثر و رسوخ بہت گہرا تھا۔
امیر عباس ہویدا
امیر عباس ہویدا اس فرقہ ضالہ کا ایک اہم آدمی تھا جس کا پہلوی حکومت میں بڑا اثر و رسوخ تھا انشاء اللہ بعد میں اس شخص کے بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے، لیکن یہاں پر اجمالا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران میں پہلوی حکومت کے دوران یہ شخص بہائیوں کا باپ سمجھا جاتا تھا، اور اس کے بہائی ہونے کے اعتبار سے شہرت اتنی زیادہ تھی کہ شاہ کے دور کی انٹیلی جنس ایجنسی ساواک کی دستاویزات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
ہویدا صہیونی ریاست کی تشکیل میں مکمل طور پر رضامند تھا۔ ایران میں موساد کے آخری نمائندے ’’الیعزر تسفریر‘‘ کے بقول : ہویدا اور اس کے گھرانے کے لوگ اسرائیل کے مسائل سے خوب واقف تھے اور اسی وجہ سے وہ اس پورے عرصے میں ایران میں اسرائیل کے سفیروں کی حفاظت اور اسرائیل میں بہائیوں کے مال و دولت کے تحفظ کی بھرپور کوشش کرتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر عباس میلانی نے کتاب ’’معمای ہویدا‘‘ کہ جو ہویدا کی حمایت میں لکھی ہے میں اس کے صہیونیت کے ساتھ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’۵۰ کی دہائی (ایرانی سال) میں اسرائیلی سفارت کی سربراہی ’’لوبرانی‘‘ کے دوش پر تھی اور اس کے ہویدا کے ساتھ گہرے روابط تھے۔ وہ نہ صرف اکثر رات کے کھانوں پر ہویدا کی دعوت کرتا تھا، بلکہ اکثر اوقات لوبرانی ہویدا کے دفتر میں نظر آتا تھا۔ جب بھی کوئی کسی ملک کا سفیر ہویدا سے ملاقات کے لیے جاتا تھا تو وہ کوشش کرتا تھا اسرائیلی سفارت کے سربراہ لوبرانی کو بھی ان میٹنگوں میں شامل رکھے‘‘۔
امام خمینی(رہ) کی سربراہی میں ۱۵ خرداد کے قیام کے بعد شاہ اپنے بہائی ورکروں کی مدد سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس قیام کے لیے مالی تعاون جمال عبد الناصر مصری کی جانب سے انجام پایا ہے۔ اس لیے کہ اس دور میں مصر صہیونی ریاست اور بہائیت کے خلاف برسرپیکار تھا۔ اسی وجہ سے مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق تھے۔
بہائیوں کے اس عمل میں کئی مقاصد پیش نظر تھے؛ ایک یہ کہ شہنشاہی حکومت کو علماء کا مقابلہ کرنے کے لیے اکسائے، دوسرے یہ کہ ایران کو عرب ممالک سے دور کرے، تیسرے یہ کہ شہنشاہی حکومت پر دباؤ ڈال کر اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے پر مجبور کرے۔
البتہ بہائیوں کی سرگرمیاں اور ان سے منسلک افراد صرف یہی نہیں تھے جن کا تذکرہ ہوا، بلکہ ان کا ایک پورا چینل تھا اور ان کی سرگرمیاں بھی بہت وسیع و عریض پیمانے پر پائی جاتی تھیں جن کا تذکرہ آئندہ قسطوں میں کیا جائے گا۔
ماخذ:
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.
3- فصلنامه 15 خرداد، انقلاب اسلامی و مسئله فلسطین: جستارهایی در پیوند صهیونیسم و بهائیت، رحمانی، شمس الدین، زمستان 1389، دوره سوم، شماره 26، ص 256-199.

 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی