کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران کے معروف سخنور “استاد رحیم پور ازغدی” ظلم کا مقابلہ اور مظلوم کی حمایت کرنے کے حوالے سے اکثر اوقات اپنی تقریروں میں زور دیتے ہیں درج ذیل تحریر میں ان کے بیانات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
“دین کے چہرے کو مسخ کرنا اور دین کو حکومت اور اخلاق کو سیاست سے الگ کرنا، دین کے باطن کو مٹانے اور ظاہر کو محفوظ رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ طریقہ کار طول تاریخ میں بھی جاری رہا ہے اور آج کے دور میں بھی جاری ہے، اسلام کو مبہم اور مجہول الحقیقت، دین کو ہزار قرائتوں اور قرآن کو بالرائے تفسیر کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ اسلام میں تحریف ہے جو اسلام ناب محمدی(ص) کے دشمنوں کا مقصد ہے۔ آج کے یزیدیوں کا مقصد اسلام کو بطور کلی مٹانا نہیں ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام کو مٹانا اتنا آسان نہیں ہے لہذا وہ اسلام کو مٹانا نہیں چاہتے بلکہ اسلام کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسا اسلام متعارف کروانا چاہتے ہیں جو گنج قارون اور تخت فرعون کے ساتھ کوئی سروکار نہ رکھتا ہو۔ ایک ایسا اسلام جس کو نہ سیاست و حکومت سے مطلب ہو، نہ سماج اور معاشرے سے، نہ عدالت و انصاف سے اور نہ انسانی حقوق سے۔ ایک انفرادی دین ہو جو انفرادی عبادت کی ترغیب دلاتا ہو ایسا اسلام پیش کرنا چاہتے ہیں۔ (۱)۔ ایسے اسلام کو فلسطینی بچوں کی چیخ و پکار سنائی دے گی نہ یمنی بچوں کی بھوک و پیاس دکھائی دے گی۔ وہ ایک سویا ہوا، لڑکھڑاتا ہوا اور اندھا اور بہرا دین لوگوں کو دینا چاہتے ہیں جس میں کوئی تحرک اور جذبہ نہ ہو۔
لیکن جو چیز حقیقی اسلام میں پیش نظر ہے وہ اسلام کی تر و تازگی ہے اسلام کی بصیرت افزائی ہے اسلام کا ظلم کے خلاف قیام ہے۔ اس اسلام کو ایسا مسلمان چاہیے جو اپنے زمانے کے شمر کو پہچانتا ہو جو ظالموں کو دیکھ کر آنکھیں بند نہ کر لے۔ حقیقی اسلام کے اصول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا آج کی زبان میں مطلب سماجی ذمہ داریوں پر نظارت رکھنا ہے یعنی سب چیزیں سب لوگوں سے مربوط ہیں۔ نہ کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے کہے کہ مجھ سے کیا مطلب کہ ہمارے سماج میں کیا ہو رہا ہے یا دنیا کے اس کونے میں کیا ہو رہا ہے اور جب کوئی کسی سے اس کی ذمہ داری کے حوالے سے پوچھے تو اسے یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ تم سے کیا مطلب۔ لہذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی ہم اور آپ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ظلم، بے انصافی، انسانیت کی سرخ لکیروں جو اخلاق اور اخلاقی قدریں ہیں پر ہونے والے حملوں کی نسبت اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔
سید الشہدا(ع) کے پاس ظلم کے خلاف قیام کرنے کی جو دلیل اور منطق تھی وہ سنہ ۶۱ ہجری کے یوم عاشور اور کربلا سے مخصوص نہیں تھی۔ آج کے دور میں بھی سید الشہدا(ع) کے استدلال اور منطق سے دنیا میں ہونے والے ظلم و جور کے ساتھ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ابا عبد اللہ الحسین (ع) کی منطق کیا تھی؟ امام حسین علیہ السلام کا جب لشکر حر کے ساتھ سامنا ہوا تو آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا کہ اسلام ظلم و ستم کے مقابلے میں خاموشی برداشت نہیں کرتا، اسلام میں غیرجانب داری نہیں پائی جاتی، اگر کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن مجھے دنیا میں ہونے والے ظلم و ستم سے کوئی سروکار نہیں، دنیا میں ہونے والی بے انصافی اور ستمگری سے کوئی مطلب نہیں، اس شخص نے نہ صرف اپنی ذمہ داری کو انجام نہیں دیا بلکہ وہ اس ظالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اس کے ظلم میں شریک ہے۔
آج کے معاشرے میں بھی عالمی صہیونیت اور امریکہ کے ظلم و جور کے مقابلے میں غیرجانب داری سے کام لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور اس کا مقصد شیعہ مذہب کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: مظلوم کی مدد کے لیے اگر پانچ میل( تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر) بھی دور جانا پڑے جاؤ اور وہ مظلوم جو تم سے مدد طلب کرے اس کی نصرت کے لیے ۶ میل بھی دور جانا پڑے جاؤ۔ یعنی ہم ان قوموں اور ملتوں کی نسبت بھی مسئول اور ذمہ دار ہیں جو ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن ہم سے مدد طلب نہیں کر رہی ہیں۔ چہ جائے کہ وہ ملتیں جو ظلم و ستم کی آگ میں جھلس رہی ہیں اور ہم سے نصرت کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔ یہاں ہماری ذمہ داری کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ سوچ کر خاموش نہیں بیٹھ جانا چاہیے کہ ہر کوئی اپنا کام خود انجام دے اور ہمیں کسی سے کوئی مطلب نہیں۔ “جو چراغ گھر میں جل رہا ہے اسے مسجد لے جانا حرام ہے”۔ یہ کون سی ضرب المثل ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ اور کس نے بیان کی ہے؟ کبھی کبھی گھر کے چراغ کو مسجد بھی لے جانا چاہیے۔ یہ وہی ایثار اور قربانی ہے یعنی دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دینا۔ یہ ہے حقیقی اسلام۔ (۲)
(۱)رحیم پور ازغدی، عقل سرخ
(۲) استاد حسن رحیم پور ازغدی، گزیده ای از سخنرانی «عاشورای حسینی،شهادت برای نهی از منکر»
تحریر: مجید رحیمی
 

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی