-
Saturday, 30 May 2020، 12:01 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
جرمنی
سنہ ۱۹۳۹ع میں ایک جرمن رسالے میں عجیب تصویر شائع ہوئی۔ رسالے “سٹرمر” (der Stürmer) کے اس شمارے کو دین یہود میں انسانی قربانیوں کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مجلے کی جلد پر ایک انسانیت سوز جرم کی تصویر تھی۔ اس انسانیت سوز جرم کا ارتکاب یہودیوں کے سوا کسی نے بھی کیا تھا۔ انھوں نے ایک طفل کو قتل کیا تھا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو نکال دیا۔
سنہ ۱۲۳۵ع میں جرمنی کے فولڈٹ نامی علاقے سے پانچ بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں اور یہودی مشتبہ ٹہرے اور انہیں پکڑا گیا تو انھوں نے اقرار کیا کہ “انھوں نے ان بچوں کو طبی ضروریات کی بنا پر ہلاک کیا ہے”۔ اس واقعے پر یہودیوں سے انتقام لیا گیا اور ان میں بہت ساروں کو ہلاک کیا گیا۔
سنہ ۱۲۶۱ع میں بادیو (Badeu) نامی علاقے میں ایک عورت نے اپنا سات سالہ بچہ یہودیوں کو فروخت کیا اور انھوں نے اس کو قتل کیا اور اس کے خون کے آخری قطرے تک کو محفوظ کیا اور بچے کی لاش کو دریا میں پھینک دیا۔ اس واقعے میں ملوث کئی یہودیوں کو پھانسی کی سزا ہوئی اور دو یہودیوں نے خودکشی کرلی۔
سنہ ۱۲۸۶ع میں شہر اوبروزل (Oberwesel) میں یہودیوں نے “ویز” نامی ایک عیسائی بچے کو تین دن تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اور پھر اس کو الٹا لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ کچھ عرصہ بعد بچے کی لاش دریا سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد ہر سال ۱۹ اپریل کو اس بچے کے صلیب پر لٹکائے جانے کی یاد منائی جاتی تھی۔ درندگی کی یہ واردات سنہ ۱۵۱۰ع کو دوبارہ براڈنبرگ (Brandenburg) میں دہرائی گئی۔ یہودیوں نے ایک بچے کو خرید لیا، صلیب پر لٹکایا اور اس کے خون کے آخری قطرے کو نکالا۔ یہودی گرفتار ہوئے تو انھوں نے اعتراف جرم کیا اور ۴۱ یہودیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔
شہر مایتز (Mytez) میں ایک یہودی نے ایک ۳ سالہ بچے کو اغوا کیا اور اس کا خون نکال کر اسے قتل کیا؛ ایک یہودی ملوث پایا گیا اور آگ کے سپرد کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات جرمنی میں کئی کئی بار دہرائے گئے اور تمام ملوث افراد یہودی تھے۔ یہ واقعات سنہ ۱۸۸۲ع میں عوام کے ہاتھوں بڑی تعداد میں یہودیوں کے قتل عام پر منتج ہوئے۔
۲۲ اور ۲۳ مارچ، ۱۹۲۸ع کی درمیانی رات کو شہر گلاڈبیک (Gladbeck) میں ہلموٹ ڈاب (Helmut Daube) نامی ۲۰ سالہ نوجوان کو ذبح کیا گیا اور اس کا خون محفوظ کیا گیا اور دوسرے روز اس کی سر کٹی لاش اس کے والدین کے گھر کے سامنے سے برآمد ہوئی جبکہ اس کے اعضائے تناسلی بھی غائب تھے۔
اس جرم کا اصل مجرم ہزمین (Huszmann) نامی یہودی تھا۔
مورخہ ۱۷ دسامبر سنہ ۱۹۲۷ع کو ایک پانچ سالہ بچہ اغوا ہوا اور کچھ دن بعد اس کی لاش ملی۔ ذمہ دار اہلکاروں نے بتایا کہ قتل کی یہ کاروائی دینی مقاصد کے لئے انجام پائی ہے لیکن اس واردات میں حتی ایک یہودی پر مورد الزام نہیں ٹہرایا گیا!!
یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ بچے اپنی پاکیزہ روح کی بنا پر، دیوتا “یہوہ” کے لئے بہترین قربانی کا درجہ رکھتے ہیں
سنہ ۱۹۳۲ع میں شہر پیڈربرن (Paderborn) ایک لڑکی کا مردہ جسم برآمد ہوا، ایک یہودی قصائی اور اس کے بیٹے کو مورد الزام ٹہرایا گیا۔ اعلانہ ہوا کہ یہ واقعہ بھی دینی مقاصد کی بنا پر رونما ہوا ہے۔
ہسپانیہ
سنہ ۱۲۵۰ع شہر زاراگوزا (Zaragoza) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کو صلیب چڑھایا گیا تھا اور اور اس کے بدن میں خون کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ سنہ ۱۴۴۸ع میں ایسا ہی واقعہ اسی شہر میں دہرایا گیا۔ اس واقعے میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب چڑھایا اور اس کا پورا خون عید فصح کے لئے نکالا۔ کچھ یہودیوں کو مجرم پایا گیا اور پھانسی دی گئی۔ اس ۱۴۹۰ع میں تولیدو (Tolido) نامی شہر میں ایک یہودی نے ایک بچے کے قتل میں اپنے دیگر شرکاء کے نام فاش کردیئے۔ اس جرم کے نتیجے میں آٹھ یہودیوں کو پھانسی دی گئی۔ سنہ ۱۴۹۰ع کا واقعہ ہسپانیہ سے یہودیوں کی جلاوطنی کا اصل سبب تھا۔
سوئیٹزرلینڈ
سنہ ۱۲۸۷ع کو شہر برن (Berne) میں ایک عیسائی بچے روڈولف (Rudolf) کو مالٹر (Matler) نامی صاحب ثروت یہودی کے گھر میں ذبح کیا گیا۔ یہودیوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک یہودی شخص کا مجسمہ بنایا گیا جو ایک شیرخوار بچے کو کھا رہا تھا۔ مجسمہ یہودیوں کے محلے میں نصب کیا گیا تا کہ یہودیوں کو ان کی درندگی پر مبنی جرائم کی یاددہانی کرائی جاتی رہے۔ یہ سنگی مجسمہ آج بھی برن میں موجود ہے۔
آسٹریا
سنہ ۱۴۶۲ع کو شہر انسبرک (Innsbruck) میں آنڈریاس آکسنر (Andreas Oxner) نامی عیسائی لڑکا یہودیوں کو فروخت کیا گیا۔ یہودی اسے جنگ لے گئے اور ایک چٹان کے اوپر ذبح کیا اور اس کے خون کو عید کے دن استعمال کیا۔ اس درندگی کے بعد یہودیوں کے خلاف بڑے فیصلے ہوئے اور اس کے بعد یہودی مجبور تھے کہ اپنے بائیں بازو پر پیلے رنگ کی پٹی باندھ کر گھر سے نکلا کریں تاکہ لوگ انہیں پہچانیں اور اپنے بچوں کی بہتر انداز سے حفاظت کرسکیں۔
اٹلی
سنہ ۱۴۷۵ع کو اٹلی کے شہر ٹیرنٹ میں ایک یہودی ڈاکٹر نے سائمن (Simon) نامی دو سالہ عیسائی بچہ یہودی مقدس رسومات کے ایام میں اس کے والدین کی غیرموجودگی میں گھر سے چوری کرلیا۔ بچہ غائب ہوا تو نگاہیں یہودیوں کی طرف گئیں اور یہودیوں نے بھی تلاش میں حصہ لیا اور راز فاش ہونے کے خوف سے بچے کی لاش کو لاکر کہا کہ یہ ہم نے تلاش کرلی ہے اور بچہ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوا ہے۔ لیکن تفتیش کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ بچہ ڈوبا نہیں بلکہ اس کی گردن، ہاتھوں اور پاؤں پر بےشمار گھاؤ لگے ہوئے ہیں جن سے بچے کے خون کا آخری قطرہ بھی نکالا گیا ہے۔ یہودیوں نے مجبور ہوکر اعتراف جرم کیا لیکن اپنے اس غیر انسانی عمل کا جواز پیش کرتے ہوئے کہ انہیں مذہبی رسومات میں قربانی کے لئے اس بچے کی ضرورت تھی اور اس کے خون سے عید فصح کی روٹی تیار کی گئی۔ سات یہودی اس جرم کے بموجب تختہ دار پر لٹکائے گئے۔
سنہ ۱۸۴۰ع کو وینس (Venice) میں بھی تین یہودیوں کو ایک عیسائی بچے کی قربانی کے جرم میں پھانسی دی گئی۔
سنہ ۱۴۸۵ع کو شہر پاڈوا (Padua) کے نواح میں لورنزین (Lorenzin) نامی عیسائی بچی یہودیوں کے ہاتھوں ذبح ہوئی۔
سنہ ۱۶۰۳ع کو شہر ویرونا (Verona) میں ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی جس کے بدن سے ماہرانہ انداز میں خون کی ایک ایک بوند تک نکالی گئی تھی۔ اس قضیئے میں کئی یہودیوں کو سزائیں ہوئیں۔
مجارستان (ہنگری)
سنہ ۱۴۹۴ع کو شہر تیرانان (Teranan) میں یہودیوں نے ایک بچے کو صلیب پر لٹکایا اور اس کے جسم کا پورا خون نکال لیا۔ ایک معمر خاتون نے درندگی کی اس واردات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا چنانچہ اس نے واقعے میں ملوث افراد کو متعارف کرایا۔ یہودیوں نے تفتیش اور مقدمے کے دوران اعتراف کیا کہ انھوں نے چار دوسرے بچوں کو بھی ذبح کیا ہے اور ان کے خون کو “طبی مقاصد” کے لئے استعمال کیا ہے۔
اپریل ۱۸۸۲ع کو یہودیوں کی خونی عید سے کچھ دن پہلے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ٹریسا ایزلر (Tisza-Eszlar) کے نواح میں یہودیوں نے ۱۴ سالہ عیسائی لڑکی ایستر سالیموسی (Esther Solymosi) کو اغوا کیا۔ اسے آخری بار یہودی عبادتخانے کے باہر دیکھا گیا تھا۔ لوگوں کی توجہ یہودیوں کی طرف گئی۔ عبادت خانے کے ملازم جوزف شارف (Josef Scharf) کے دو بچوں ساموئل اور مورتیز (Samuel and Mortiz) نے اپنے باپ پر الزام لگایا اور کہا کہ ان کے والدین نے اس کو درندگی کا نشانہ بنا قتل کیا۔ لڑکی کی لاش ہرگز نہیں ملی۔ کئی یہودیوں نے کہا کہ انھوں نے عید فصح کے لئے لڑکی کے قتل میں حصہ لیا تھا۔ عبادتگاہ کے ملازم کے ایک بیٹے نے کہا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کہ لڑکی کے خون کو ایک بڑے برتن میں جمع کیا گیا۔ ۱۵ یہودی ملوث پائے گئے، مقدمہ ۱۹ جنوری سے ۳ اگست تک جاری رہا اور ماضی میں اتنا طویل مقدمہ کبھی نہیں لڑا گیا تھا۔ یہودی مال و دولت نے عیسائی لڑکی کا خون پامال کرہی لیا اور مجرمین اقرار جرم کے باوجود بےگناہ قرار دیئے گئے۔ یہودی درندگی کی یہ واردات پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف زبردست نفرت اور دشمنی پھیل جانے کا باعث ہوئی۔ (تو یہودی دشمنی یورپ میں بےسبب نہیں ہے)۔
روس
سنہ ۱۸۲۳ کو شہر ویلیژ (Velizh) میں یہودیوں کی عید فصح کے موقع پر ایک اڑھائی سالہ عیسائی بچہ لاپتہ ہوا اور ایک ہفتہ بعد اس کی لاش کو شہر کے قریبی تالاب سے برآمد کیا گیا۔ جس کے ننھے جسم پر نوکدار کیلوں کے لگنے سے بے شمار زخم آئے تھے، بچے کو کیلوں کے ذریعے زخمی کرنے کے بغیر اس کا ختنہ بھی کیا گیا تھا اور بدن میں خون کی ای بوند بھی نہیں پائی گئی، چنانچہ چند سال بعد تین روسی عورتوں سمیت پانچ یہودی حراست میں لئے گئے، جنہوں نے اقرار جرم کیا اور تین روسی عورتوں کو ـ جنہوں نے یہودی مذہب اختیار کیا تھا ـ سائبریا جلاوطن کیا گیا جبکہ یہودیوں کو بری کیا گیا جبکہ انھوں نے بھی اعتراف جرم کیا تھا لیکن یہودی پیسہ یہاں بھی کام آیا۔
یہودیوں کے ہاتھوں اغوا کی وارداتیں جاری رہیں۔ دسمبر ۱۸۵۲ع میں ایک دس سالہ عیسائی بچہ اغوا ہوا۔ یہودیوں کو اس جرم میں ملوث پایا گیا اور انھوں نے بچے کے قتل اور اس کا خون جاری کرنے کا اقرار کرلیا۔
جنوری ۱۸۵۳ع میں ایک ۱۱ سالہ بچہ اغوا کیا گیا اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا گیا جو دوسروں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔ یہودیوں کو ملوث پایا گیا۔
مورخہ ۲۰ مارچ سنہ ۱۹۱۱ع کو شہر کیف (Kiev) کے نواحی علاقے سے ایک ۱۳ سالہ عیسائی بچے آندیری یوشچنکی (Andrei Yushchinsky’s) کی لاش برآمد ہوئی جس کو چاقو کے ۴۸ وار کرکے قتل کیا گیا تھا اور اس کا پورا خون نکالا گیا تھا۔ قتل میں مناحیم مینڈل بیلیس نامی حسیدی (Hasidic) فرقے کا یہودی ملوث پایا گیا اور اس پر سنہ ۱۹۱۳ع میں مقدمہ چلایا گیا لیکن آخرکار اسے بھی بری کیا گیا اور اس مقدمے کی وجہ سے سلطنت روس پر یہودی دشمنی کے الزام میں زبردست عالمی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہودی قاتل بہر حال بری ہوا اور قاتل پر مقدمہ چلانے والے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ (چمک کی برکت سے)۔
ترکی
سنہ ۱۸۳۹ع میں دمشق کے کسٹمز اہلکاروں نے ایک یہودی سے خون کی ایک بوتل برآمد کرلی۔ یہودی نے ۱۰۰۰۰ پیاسٹر رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے مسئلہ دبانے کی درخواست کی۔
سنہ ۱۸۴۰ع کو یہودیوں کی عید “پوریم” کے موقع پر جزیرہ روڈز (Rhodes island) میں ایک یونانی عیسائی تاجر کا ۸ سالہ بچہ لاپتہ ہوا۔ اس کو آخری بار یہودی محلے میں دیکھا گیا تھا۔ وہ کچھ یہودیوں کو انڈے پہنچانے کے لئے اس محلے میں پہنچا تھا۔
ترک بادشاہ یوسف پاشا نے یونانی عوام کے شدید مطالبے پر یہودی محلے کو گھیر لیا اور یہودی سرغنوں کو گرفتار کرکے قید کرلیا۔ دائرۃ المعارف یہود طبع چہاردہم، کے صفحہ ۴۱۰ پر اقرار کیا گیا ہے کہ یہودی سرمایہ دار اور برطانوی یہودیوں کا سربراہ موسی مونتفیوری (Moses Montefiore) بیچ میں آیا اور ترک دربار کو بھاری رشوت دی۔ عثمانی سلطنت کے بینکوں کا یہودی سربراہ “کونٹ کمانڈو (Count Camondo) نے حقیقت کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہودی سرمائے کی قوت نے نہ صرف اس جرم کے دوران حق کو چھپایا اور دبایا بلکہ بہت سے دوسرے واقعات میں حق کشی میں مصروف رہی تھی اور آج تک مصرف ہے۔
یہودی آج بھی خاموشی سے خونخواری میں مصروف ہیں لیکن روش بدل گئی ہے
گوکہ یہودیوں کی آج کی جرائم پیشگی ذرا عجیب سے معلوم ہو لیکن یہودی خونخواری کی روایت میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چونکہ آج کے زمانے میں جرم کا تیزی سے سراغ لگایا جاتا ہے اور قانون کا تعاقب کچھ زیادہ رائج اور ناگزیر اور رشوت وسیع سطح پر بدنامی کا سبب بنتی ہے چنانچہ یہودیوں نے روش بدل دی ہے، بڑوں کو چھوڑنا پڑا ہے لیکن شیرخواروں کا خون چوسنا جاری و ساری ہے۔
یہ بہت ہی نفرت انگیز روش ہے جس میں بچے کا ختنہ کئے جانے کے فورا بعد ان کا خون چوسا جاتا ہے۔ یہ عمل بہت سی بیماریاں پھیلنے اور متعدد بچوں کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے۔
ایک یہودی حاخام (رابی) کی ختنہ گاہ کو حفظان صحت کے اصولوں کے برعکس اور نہایت دردناک انداز سے، ختنہ کرنے کے بعد بچے کی ختنہ گاہ سے خون چوستے ہوئے۔
ایک شیرخوار بچے کے جسم پر انفیکشن کے اثرات، اس بچے کا خون یہودی خاخام نے چوس لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ حوالے:
۱۔ Bernard Lazare, “Antisémitisme: son histoire et ses causes”, Published in France in 1894.
۱۔ Arnold Leese, Jewish Ritual; Murder, published in 1938, Chapter 10.
۲۔ اس عید کو پسح، یا عید فطیر یا مصاها یا Easter بھی کہا جاتا ہے۔
۳۔ الکنز المرصود فی قواعد التلمود، صص ۲۲۳-۲۲۴۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ
۱٫ الیهود و القرابین البشریة – محمد فوزی حمزة، دار الأنصار. مصر
۲٫ نهایة الیهود – أبو الفدا محمد عارف، دار الاعتصام. مصر
۳٫ المسألة الیهودیة بین الأمم العربیة و الأجنبیة – عبد الله حسین، دار أبی الهول. مصر
۴٫ روزنامه الشعب مصر، شماره ۱۳۱۶ تاریخ ۱ دسامبر
۵٫ الیهود و القرابین البشریة، مصطفی رفعت، به آدرس زیر:
http://www.oboody.com/mychoice/03.htm
http://www.fatimamovement.com/i-jewish-talmud-exposed-7.php#Babylonian-Talmud-148
http://www.bibliotecapleyades.net/sociopolitica/esp_sociopol_bohemiangrove03.htm
منبع: mshrgh.ir/357083
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔