-
Monday, 6 April 2020، 12:28 AM
’شہید سید محمد حسینی بہشتی‘
شہید بہشتی ایک فقیہ، سیاستدان اور امام خمینی (رہ) کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھے کہ جنہوں نے انقلاب سے پہلے اور بعد ہمیشہ حقیقی اور خالص اسلام کی بقاء اور انقلاب کی کامیابی کی راہ میں انتھک مجاہدت کی۔ سامراجیت کے خلاف جد وجہد اور عدالت کے نفاذ کے لیے کوشش اس مجاہد فقیہ کا خاصہ تھا۔ آپ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے سے بے انتہا رنجیدہ تھے اور ملک کے اندر اور باہر فلسطین کی آزادی کے لیے مہم چلاتے رہے۔
شہید بہشتی مسئلہ فلسطین کو عرب ملکوں کے مسئلہ کے عنوان سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس انسانی بحران کو عالم اسلام کی مشکل سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ فلسطینی عوام کے فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے تھے یہاں تک کہ اس دور میں جب آپ ہیمبرگ میں زیر تعلیم تھے طالبعلموں سے چندہ کر کے امام موسی صدر اور شہید چمران کے ذریعے فلسطینیوں تک امداد پہنچایا کرتے تھے۔
شہید بہشتی کے شاگرد ’رحیم کمالیان‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’ ڈاکٹر بہشتی ہمیشہ طلبہ کو اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اگر ہو سکے تو اپنے اخراجات میں سے کچھ بچا کر فلسطینیوں کے لیے مخصوص صندوقچہ میں ڈالیں اور اس طرح پیسہ جمع کر کے ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ اس کے علاوہ یورپ میں اسلامی انجمنوں کو بھی اس کام کی تاکید کرتے تھے۔ جس کے بعد امریکہ اور یورپ کی تمام اسلامی تنظیمیں جو اسلامی یونین کی رکن تھیں فلسطینیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے لگیں۔ ۱
اس کے علاوہ شہید بہشتی شام اور لبنان کے سفر پر بھی جایا کرتے اور فلسطینی مجاہد گروہوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ۲
شہید بہشتی نے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی پہلوی حکومت کو اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے خبردار کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ چیز باعث بنی کہ ’ساواک‘ انہیں تحت نظر رکھے۔ انقلاب کے بعد ساواک کی دستاویزات سے ملی ایک دستاویز میں شہید کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا:
’’مذکورہ شخص، خمینی کے حامی گروپ کا لیڈر ہے اس نے عرب اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بارے میں ایران اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، ہم ہمیشہ قائل تھے کہ ایران کے رہنما اسرائیل کے حامی ہوں گے اور جو خبریں ہمیں موصول ہوئی ہیں وہ اسی نظریے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک فضائی پل تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے اسلحہ اور امریکہ کی دیگر امداد اسرائیل کو پہنچائی جا رہی ہے۔
مذکورہ شخص نے اپنے اظہار خیال میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ جب تک اسلامی حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہوں گی کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے کہ جب اسلامی حکومتیں عربوں کی پیٹھ پر خنجر ماریں گیں تو کیسے عرب اس جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔
مذکورہ شخص نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت تک شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جب تک امریکہ کو ایران، ترکی، اردن اور سعودی عرب سے نکال باہر نہ کیا جائے‘‘۔ ۳
حواشی
1 – https://www.teribon.ir/archives/33440.
2- http://ensani.ir/fa/article/9899.
3- http://historydocuments.ir/show.php/print.php?page=post&id=2310