فرقہ بہائیت کی مختصر تاریخ (۲)

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا حسین علی نوری (بہاء اللہ) اللہ کے پیغمبر تھے۔ بہاء اللہ کا باپ ایران کے بادشاہ قاجار کے دور میں درباری مشیر تھا اور حکومت میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ دوسری طرف امیرکبیر کے حکم سے ’سید علی محمد باب‘ کو پھانسی دیے جانے کے بعد ان کے مریدوں کو عراق ملک بدر کر دیا گیا تھا جس میں ’مرزا حسین علی نوری‘ (بہاء اللہ) بھی شامل تھے لیکن امیر کبیر کے قتل یا انتقال کے بعد جب مرزا آقاخان نوری نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مرزا حسین علی نوری کو عراق سے واپس تہران بلوا لیا۔
کچھ عرصہ کے بعد بابیوں کی جانب سے بادشاہ ایران ’ناصر الدین شاہ‘ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا معلوم ہوا کہ مرزا حسین نوری کا اس میں ہاتھ تھا۔ اسی وجہ سے بہاء اللہ کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ پہلے روس کے سفارتخانے میں پناہ حاصل کر چکے تھے کچھ مہینے جیل میں رہنے کے بعد روسی حکومت کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کی بنا پر انہیں رہائی مل گئی۔ اور اس کے بعد روسی سفارتخانے نے انہیں روس میں زندگی بسر کرنے کے لیے دعوت دی۔
بہاء اللہ نے روسی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔ بغداد میں بہائیوں کے نزدیک انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور انہوں نے وہاں تبلیغی سلسلہ شروع کیا۔
دوسری طرف بابیوں کے درمیان ’سید علی محمد باب‘ کی موت کے بعد جانشینی پر کافی اختلاف وجود میں آیا اور بہاء اللہ کے مخالفین میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، بہاء اللہ کافی ہوشیاری دکھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو ایک ایک کر صفحہ ھستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ناکامی کی صورت میں حکومت عثمانیہ انہیں استنبول چلے جانے کا مشورہ دیا۔
بہاء اللہ اپنے بھائی مرزا یحیی کے ساتھ ۱۸۶۳ میں استنبول کی طرف روانہ ہوئے اور ’ادرنہ‘ علاقے میں سکونت اختیار کی۔ چار سال یہاں پر رہنے کے بعد دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہوا، جس کے بعد مرزا یحییٰ کو جزیرہ قبرس میں بھیج دیا گیا اور مرزا حسین علی نوری کو ’حیفا‘ کے نزدیک ’عکا‘ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ بہاء اللہ اور ان کے بیٹے عباس افندی (عبد البہاء) ’عکا‘ میں رہنے کے بعد یہودیوں اور برطانوی فوجیوں سے کافی گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان کے بیٹے نے صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور یہودی لابی کی کتنی مدد کی اس کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔
بہاء اللہ ۷۵ سال کی عمر میں ۱۸۹۲ میں انتقال کر گئے اور ان کے بیٹے عباس افندی یا وہی ’عبد البہاء‘ نے باپ کی جانشینی اختیار کی اور بہائیت کو پھیلانے میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کیا۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی