-
Tuesday, 28 April 2020، 06:30 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب اسرائیل کے درمیان ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ میں چار جنگیں ہوئیں اور ان تمام جنگوں میں عربوں نے شکست کھائی۔ عربوں کے مقابلے میں فتح کے نتیجے میں یہودی ریاست کو ترغیب ملی اور اس نے “نیل تا فرات” کا نعرہ لگایا، اردن، شام، لبنان اور مصر کی مسلم سرزمینوں پر میلی نظریں جمائیں اور عربوں کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کیا جن میں مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارہ، شام کے جنوبی علاقے جولان اور مصر کے صحرائے سینا جیسے علاقے شامل تھے؛ لبنان کو کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ یہ نامشروع قبضے بھی جاری رہے اور ساتھ ساتھ یہودی ریاست “اسرائیل” کی عالمی حمایت بھی جاری رہی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی ـ یہودی ریاست ایک باؤلے کتے میں تبدیل ہوا اور اس نے [ایک مکڑی جتنا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کرکے] اسلامی ممالک کو ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا۔
عرب ممالک کو ناکوں چنے چبوانے کے باوجود اس ریاست کا مکروہ اور خونخوار چہرہ کبھی بھی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے جہاد کا سد باب نہ کرسکا۔ فلسطینی عارف عزالدین قسام نے اسلحہ اٹھایا اور اپنے مریدوں اور اعوان و انصار کے ساتھ یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ فتح تحریک صہیونی یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتری اور ۵۰۰ کی نفری لے کر “الکرامہ” نامی کاروائی میں یہودی فوج کے ۱۲۰۰۰ افراد پر مشتمل ڈویژن کو دریائے اردن کے کنارے شکست دی۔
لیکن آج امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی مکاری کے نتیجے میں بعض دنیا پرست عرب حکمران قدس شریف پر قابض صہیونیوں کے خلاف جنگ کے بجائے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے میدان میں آئے ہیں اور مذاکرات اور سازباز کو متبادل کے طور پر متعارف کرارہے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر خطے میں صہیونی اہداف کے قریب پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا [اس وقت کے پاکستانی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق اس قتل عام میں شاہ اردن کی مدد کو آئے تھے]۔ مصر کے سابق صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کرکے یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور اس منحوس ریاست کی حمایت کی۔ یاسر عرفات نے بھی میڈرڈ، اوسلو، وائی ریور، واشنگٹن میں یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ۱۹۸۹ میں کیمپ ڈیویڈ ۲ نامی معاہدے پر دستخط کئے۔
۱۹۴۸ سے لے کر آج تک عالم اسلام کو نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے اور کوشش ہوتی رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا شعلہ خاموش ہوجائے اور صہیونیوں کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا سکون برباد کردیا۔
شیخ محمد حسین بن محمد ابراہیم گیلانی، ناصرالدین شاہ کے دور کے عالم شیخ محمد رضا ہمدانی، نجف کے اعلم عالم دین علامہ کاشف الغطاء، ہبۃ الدین شہرستانی، سید محمد مہدی صدر اور سید محمد مہدی اصفہانی، سید عبدالحسین شرف الدین اور آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی جیسے ایران، عراق اور لبنان سمیت عالم تشیع کے بزرگ علمائے دین امریکہ اور برطانیہ کے غیر انسانی اقدامات کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور قابض یہودیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دیئے۔
بیسویں صدی عیسوی میں امام خمینی نے بےمثال اور فیصلہ کن انداز سے فلسطین کی نسبت اپنے احساس ذمہ داری اور عزم راسخ کی اساس پر غاصب اور قابل نفرت یہودی ریاست کے مقابلے میں امت مسلمہ کی استقامت اور مزاحمت کو نیا رنگ دیا۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور فلسطین کے ملک اور ملت کے اسلامی تشخص کو تقویت دی اور اسے دنیا کے سامنے آشکار کردیا جبکہ یہ عرب حکمرانوں کی غفلت اور سستی اور دنیا پرستی کے سائے میں فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا۔
اللہ کے اس عبد صالح نے فرمایا: “ہم سب کو اٹھ کر اسرائیل کو نابود کرنا چاہئے، اور فلسطین کی بہادر قوم کو اس کی جگہ بٹھا دیں”۔
آپ نے مزید فرمایا: “اللہ کی مدد سے اسلام کے پیروکاروں کے مختلف نظریات و آراء اور امت محمد(ص) کی طاقت اور اسلامی ممالک کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری دنیا میں حزب اللہ کے مزاحمتی حلقے تشکیل دے کر فلسطین کو صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانا چاہئے”۔
آپ نے اپنی حکمت عملیوں کا اعلان کرکے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے ہاں اول درجے کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور اپنی ہوشیاری اور زیرکی سے دنیا بھر کے انصاف پسند عیسائیوں اور صہیونیت مخالف یہودیوں کو بھی غاصب اور جارح یہودی ریاست کے مد مقابل کھڑا کیا۔
امام خامنہ ای نے بھی اپنی قیادت کے دوران، پوری سنجیدگی کے ساتھ، راہ امام خمینی پر گامزن ہوکر، اسرائیل کی نابودی کو فلسطین کے غصب اور قبضے سے چھوٹ جانے اور اس کے امت اسلامی کی آغوش میں پلٹ آنے کا واحد راستہ قرار دیا؛ فلسطین کی آزادی کا پرچم اونچا رکھا اور ایک الہی نگاہ سے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی۔ عالم اسلام جاگ اٹھا اور فلسطین بدستور عالم اسلام کے مسائل میں سرفہرست رہا اور بےتحاشا بین الاقوامی حمایت کے باوجود ـ اسلامی مزاحمت کے طاقتور ہونے کی بنا پر ـ یہودی ریاست کمزور پڑ گئی اور بقاء کے بجائے اس کی فنا کی الٹی گنتی شروع ہوئی۔ اس وقت یہ ریاست فرسودگی اور زوال کے مراحل طے کررہی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس ناجائز ریاست کی بقاء محال ہوچکی ہے۔
سنہ ۲۰۰۰ میں حزب اللہ لبنان کے آگے پہلی شکست کھا کر یہودی ریاست کی پسپائی کے بعد ۲۰۰۶ میں اسے حزب اللہ کے مجاہدین کے آگے رسواکن شکست کھانا پڑی، ۲۰۰۹ میں ۲۲ روزہ جنگ کے دوران بھی اور بعد کی آٹھ روزہ اور پچاس روزہ جنگوں میں بھی غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام نے یہودی ریاست کو تین بار شکست دی اور پلڑا مزاحمت کے حق میں بھاری ہوا؛ جس کے بعد امریکہ اور صہیونی ریاست نے عراق اور شام میں داعش کو منظم کیا اور داعش کی حکومت تک قائم کرائی؛ تا کہ ولایت فقیہ کی حاکمیت اور محاذ مزاحمت کی استقامت کو توڑ سکیں اور توسیع یافتہ اسرائیل کے آگے کی تمام رکاوٹیں دور کرسکیں۔
دوسری طرف سے غزہ میں انتفاضہ کو تقویت ملی، مغربی کنارے کو مسلح کیا گیا، عراق اور شام میں داعش کو شکست کھانا پڑی تو یہودی ریاست مزید سنجیدہ چیلنجوں کا شکار ہوئی؛ یہاں تک کہ اس نے زوال اور فنا کے راستے کو اپنے سامنے پورے وضوح کے ساتھ دیکھ لیا۔
غزہ سے صہیونیوں کے اوپر میزائل حملے شروع ہوئے، شام سے ۶۸ میزائل یہودی ریاست کے نہایت حساس اور خفیہ مراکز اور معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنے والے اہم ترین اداروں پر داغے گئے جس کی وجہ سے خطے میں جنگ کے قواعد بدل چکے اور اس حملے نے اس سرطانی پھوڑے کو زوال کی اترائی پر قرار دیا اور اس کے زوال اور نابودی کو قریب تر کردیا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: “اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی ۔۔۔ جس دن امام خمینی نے میخائل گورباچوف کو لکھا کہ مارکسزم کو اب عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا، تو کچھ لوگ اس کلام کا مذاق اڑا رہے تھے! لیکن ابھی دو یا تین سال ہی گذرے تھے کہ وہ پیشنگوئی عملی صورت میں ظاہر ہوئی”۔
آپ نے ۹ نومبر ۱۹۹۱ کو فرمایا: “شک نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل کے شجرۂ خبیثہ ۔۔۔ کی کوئی بنیاد اور کوئی دوام و بقاء کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور بےشک فنا ہوجائے گا”۔
آپ نے ۲۴ اپریل ۲۰۰۱ کو منعقدہ انتفاضۂ فلسطین کی حمایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: “ہمیں یقین ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی حمایت کی برکت سے فلسطین اللہ کے فضل سے آزاد ہوجائے گا اور بیت المقدس اور مسجد الاقصی سمیت اس اسلامی سرزمین کے دوسرے علاقے عالم اسلام کی آغوش میں پلٹ آئیں گے”۔
امام خامنہ ای نے ۱۷ مئی ۲۰۱۸ کو فرمایا: “فلسطین اللہ تعالی کے اذن سے دشمنوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا، بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور امریکہ اور امریکہ سے بھی بڑے بوڑھے فلسطین کے سلسلے میں حقائق اور سنت الہیہ کے آگے کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہیں”۔
چنانچہ کوئی شک نہیں ہے کہ سنت الہیہ عملی جامہ پہن کر رہے گی۔ اگرچہ ۱۹۴۸ سے لے کر آج تک، تھیوڈور روزویلٹ سے لے کر بارک اوباما تک تمام امریکی صدور نے یہودی ریاست کی حمایت کی اور آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہودی ریاست کے لیکوڈی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا سنجیدہ اتحاد فلسطینی مزاحمت کو چیلنجوں سے دوچار کرچکا ہے، لیکن امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی نے امت اسلام کے قلوب کو مجروح کردیا، انتفاضہ کو مشتعل کیا، اور اس نئی صورت حال نے واپسی کی تحریک کے آغاز کا سبب فراہم کیا اور اس تحریک کو تازہ خون سے سیراب کیا جارہا ہے اور یوں فلسطین علاقائی اور اسلامی ممالک کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔
یہودی ریاست کو بجا یقین ہے کہ ایران کی میزائل قوت اور شام، لبنان اور غزہ میں تحریک مزاحمت حیفا، تل ابیب اور یہودی نشین شہروں کو سنجیدہ ترین خطرات لاحق ہیں اور آج کی جنگ ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج اسلامی امت پوری اسرائیلی ریاست کے انہدام کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسے فنا اور زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
امام خامنہ ای نے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶ کو فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل رمضان عبداللہ شلح کی ملاقات کے دوران فرمایا: “صہیوی ریاست ـ جیسا کہ ہم قبل ازیں کہہ چکے ہیں ـ صہیونیوں کے ساتھ فلسطینیوں اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد کی شرط پر ـ اگلے ۲۵ برسوں تک باقی نہیں رہے گا”۔
غاصب ریاست آج ـ کل سے کہیں زیادہ ـ اس یقین تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ تیزرفتاری سے نیست و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے میں اتر رہی ہے؛ اس وقت اس کا ہاتھ پاؤں مارنا کھرل میں پانی کوٹنے کے مترادف ہے اور نتیجہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کی موت کی صورت ہی میں برآمد ہوگا۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ نے سن رکھا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ۳۳ روزہ جنگ کے درمیانی ایام میں امام خامنہ ای نے فرمایا کہ حزب اللہ اس جنگ میں کامیاب ہوگی، اور کچھ ہی دن ایسا ہی ہوا۔ آپ نے سنہ ۲۰۱۱ میں فرمایا: “بشار اسد کی حکومت کو رہنا چاہئے اور یہ حکومت باقی رہے گی”، اور ایسا ہی ہوا۔
صہیونی دوسروں سے زیادہ بہتر یقین کرچکے ہیں کہ اگلے ۲۵ سال تک وہ قصہ پارینہ بن چکے ہونگے، وہ حتی اس یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی موجودہ نسل حتی کہ عالم خوار امریکہ کی فنا کو بھی دیکھ لیں گے۔ کاش بعض سادہ اندیش اور سادہ لوح ـ نام نہاد دانشور ـ بھی اس قرآنی وعدے کا یقین کر لیتے کہ “إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقاً؛ یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے”؛ اور امریکہ اور یہودی ریاست چونکہ باطل ہیں تو ان کو مٹنا ہی ہے؛ یہ اللہ کا وعدہ ہے: “وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ؛ چاہے مشرکین کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ؛ چاہے کافر لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ؛ چاہے جرائم پیشہ لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، “أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”، فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”؛ یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے
“لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ٭ بِنَصْرِ اللَّهِ یَنصُرُ مَن یَشَاء وَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ٭ وَعْدَ اللَّهِ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ؛ اللہ ہی کے ہاتھ میں معاملہ ہے پہلے بھی اور بعد بھی اور اس دن مؤمنین خوش ہوں گے ٭ اللہ کی مدد سے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزت والا ہے، بڑا مہربان ٭ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر زیادہ تر لوگ جانتے نہیں”۔
مزاحمتی حلقوں کی تشکیل کا حکم امام خمینی نے دیا
ایران، عراق، لبنان، بحرین، شام، پاکستان، مصر، افغانستان، فلسطین، نائجیریا، یمن اور اردن کے عوام اور حتی کہ یورپ اور امریکہ میں امام کے بعض پیروکاروں نے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی تا کہ نیل سے فرات کے یہودی ـ امریکی منصوبے کو خاک میں ملا دیں۔ کہاں ہیں تھیوڈور ہرٹزل، بالفور، روزویلٹ اور ٹرومین؛ آئیں دیکھ لیں اس افسانے کا انجام جس کا آغاز انھوں نے یہودیوں کی فلسطین ہجرت سے کیا، اور پھر اسرائیل کو قائم کیا، آج اسلامی مزاحمت نے جدید صہیونیت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اور سیاسی صہیونیت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، جو منصوبہ انھوں نے بنایا وہ صہیونی یہودیوں کی نابودی کا باعث بنا ہے اور آج صہیونیت مخالف یہودی اور عیسائی اس نابودی سے وجد کی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔
ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔ واپسی کی تحریک کو یقین ہے کہ بےیار و مددگار نہیں ہے اور ایران کی میزائل قوت اس کی حمایت کے لئے کھڑی ہیں۔ محاذ مزاحمت کے علمبردار پا بہ رکاب اور حکم کے منتظر ہیں وہی جنہوں نے شاہ کو نکال باہر کیا، صدام کو شکست کی تلخی چکھا دی، دہشت گردوں کی ناک خاک پر رگڑ لی، منافقین کو فنا کے سپرد کیا، امریکیوں کو ذلت سے آشنا کیا، تو وہ کیا اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو نیست و نابود کرسکیں گے؟ یقینا وہ ایسا ہی کرکے رہیں گے۔
سپاہ قدس میں نمایندہ امام خامنہ ای، حجت الاسلام والمسلمین علی شیرازی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔