-
Tuesday, 19 May 2020، 04:28 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حال ہی میں سعودی خاندان بےتحاشا پیسہ لٹا کر ایک شب و روز چلنے والے فارسی چینل کی بنیاد رکھنے کے درپے ہے جس کے لئے اس نے تجربہ کار برطانوی ادارے :دی انڈیپنڈنٹ” کے ساتھ معاہدہ بھی کرلیا ہے۔
اس سودے کے مطابق، بنی سعود، انڈیپنڈنٹ کو ضروری مواد فراہم کریں گے اور خود بھی اس نام کو استعمال کریں گے۔
سعودیوں کو فارسی چینل کی ضرورت کیوں ہے؟
امریکی، برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور سعودی فارسی ابلاغیاتی اور فرقہ وارانہ چینلز کی کوئی کمی نہیں ہے جو اگر ایرانو فوبیا کی مہم میں کامیاب ہوتے تو شاید بنی سعود کو مزید کوئی چینل کھولنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن اب وہ مغرب کے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانو فوبیا کے موضوع پر مزید توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ بنی سعود کے پاس پہلے سے العربیہ چینل بھی ہے جس کے آغاز میں ہی انہیں توقع تھی کہ ایرانی بھی اس چینل کا خیر مقدم کریں گے لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہیں ہوسکی جس کے بعد انھوں نے نئے چینلز کی تاسیس کو مطمع نظر بنایا۔
اب سعودی پیسے کے زور سے انڈیپنڈنٹ جیسے مقبول برانڈ کے ذریعے اپنی بات ایرانیوں اور فارسی زبانوں کے دل میں اتارنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی عزت رفتہ ان کی سرمایہ کاری پر اثر انداز نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوزے سے وہی ٹپکے گا جو اس کے اندر ہے اور کوزے کے برانڈ سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، وہابیت زدہ سعودی مخیلے سے ایسی کونسی بات صادر ہوسکتی ہے جو کسی دل پر اثر کر سکے۔
چینل کا اصل سرمایہ کار، سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ (Saudi Research and Marketing Group [SRMG]) ہے جو سعودی دربار سے وابستہ ہے اور اس کے سربراہ کے محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ایس آر ایم جی اور انڈیپنڈنٹ کے باہمی مفاہمت نامے کے مطابق انڈیپنڈنٹ اپنی ویب گاہ میں “عربی (Independent Arabia)، فارسی (Independent Persian)، اردو (Independent Urdu) اور ترکی (Independent Turkish )” کے چار پیجز کا اضافہ کرے گا۔
ایس آر ایم جی کیا ہے؟
سعودی تحقیقات و بازارکاری گروپ در حقیقت عربی کتب کی اشاعت کے شعبے میں سرگرم عمل ہے؛ عرب دنیا کے عربی اور انگریزی اخبارات ـ منجملہ الشرق الاوسط، الاقتصادیہ، عرب نیوز” اور “ہِیَ، المجلۃ، سیّدتی، اور الرجل” ـ کا تعلق بھی اسی عظیم ابلاغی گروپ سے ہے۔
انڈیپنڈنٹ کے ساتھ معاہدے سے ایس آر ایم جی کا مقصد علاقائی اور بین الاقوامی سطح کے واقعات کی خبروں اور تجزیوں، کالمز، مضآمین اور رپورٹوں کی اشاعت ہے جنہیں انگریزی میں لکھا جائے گا اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔ یعنی یہ کہ منصوبہ، فکر اور قلم انگریزوں ہوگا اور۔۔۔؛ اور ہاں سعودیوں کا ایک خفیہ مقصد یہ بھی ہے کہ یہ ذریعہ ابلاغ ایک ابلاغی اسلحہ ہوگا جس کے ذریعے سے بنی سعود علاقے میں اپنے بحران خیز اور مصیبت آفرین منصوبوں، اقدامات اور رویوں کا جواز بھی فراہم کریں گے۔
ایس آر ایم جی انڈیپنڈنٹ کی مدد سے عربوں کے لئے عرب انڈیپنڈنٹ، ایرانیوں کے لئے فارسی انڈیپنڈنٹ، ترکوں کے لئے ترک انڈیپنڈنٹ اور پاکستانیوں کے لئے اردو انڈیپنڈنٹ پر تشہیری مہم چلانا چاہتی ہے۔ وہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو بولنے والے ممالک پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔
یہ ابلاغیاتی منصوبہ ۲۰۱۸ سے اپنا کام شروع کرے گا حالانکہ انگریزی سعودی ابلاغیاتی مفاہمت نامہ تازہ ہی آشکار ہوچکا ہے لیکن بنی سعود عرصہ دراز سے اس کے لئے لابیاں تلاش کررہے تھے۔
ایس آر ایم جی میڈیا گروپ کے سربراہ غسان بن عبدالرحمن الشبل، کے حکمران قبیلے سے قریبی تعلقات ہیں، اس کے کئی رسائل و جرائد ہیں جن میں وہ بنی سعود کی تقویت کے لئے کام کررہے ہیں۔ چار نئی ویب گاہوں میں شائع ہونے والے متون کی تیاری انڈیپنڈنٹ کے معیار کے مطابق ہوگی اور ان چار زبانوں کے نامہ نگار لندن، اسلام آباد، استنبول اور نیویارک میں تعینات ہونگے۔
انگریزوں کو تشویش ہے!
اگرچہ انگریزی قوانین کے تحت ابلاغی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے درمیان معاہدوں میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن بہت سے انگریز اس معاہدے کے انعقاد کو بیان کی آزادی، شہری اور سماجی حقوق کے برطانوی معیاروں کے مطابق نہیں سمجھتے اور ان کے خیال میں اس قسم کے معاہدوں کی وجہ سے خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں کے تنگ نظرانہ افکار اور بنی سعود کے توسیع پسندانہ مفادات پر مبنی سوچ برطانیہ کے مقبول ابلاغی اداروں کے عنوان کے تحت ان ہی اداروں کے بین الاقوامی مداحوں کو شدید فکری نقصان پہنچائے گی اور طویل عرصے میں یہ ادارے غیر معتبر ہوجائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ بلومبرگ کمپنی نے ۲۰۱۷ میں ایس آر ایم جی کی طرف سے متون کی فراہمی کی شرط پر اپنی ویب سائٹ پر عربی پیج کھولا اور اسے شدید نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انڈیپنڈنٹ کو بلومبرگ کی نسبت بہت زیادہ وسیع سطح پر پڑھا جاتا ہے چنانچہ یہ اخبار مختلف ممالک کے افکار کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کا سماجی سرمایہ کچھ عرصے میں مخدوش ہوکر رہ جائے گا۔
ذرائع ابلاغ کی آزادی کا دشمن بنی سعود قبیلہ ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کیوں کررہا ہے؟
بنی سعودی کے لئے اس قسم کی سرمایہ کاری کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ سعودی عرب کو اپنی مخدوش حیثیت بحال کرنے کے لئے رائے عامہ کو سمت دینے کی ضرورت ہے
ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری اور بلومبرگ اور انڈیپنڈنٹ جیسے اداروں کے ساتھ معاہدوں سے آل سعود کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ بنی سعود نے اپنی غلط اور ناپختہ پالیسیاں اپنا کر، اور اندرونی استبدادی پالیسیوں کو سرحدوں سے باہر نافذ کرنے کی کوشش کرکے اپنی حیثیت کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے ہیں اور اقوام عالم میں زبردست بدنامی کما چکے ہیں چنانچہ اب وہ اپنی حیثیت بحال کرنے کے لئے ابلاغیات کا سہارا لینے کے چکر میں ہیں جبکہ ابلاغیات کے لئے جو مواد فراہم کیا جائے گا اس کی بنیاد سعودی استبدادی سوچ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ بایں ہمہ بنی سعود کی کوشش یہ ہے کہ ۲۰۳۰ سعودی منصوبے جیسی دستاویزات کی رو سے سعودی حکومت کا بالکل نیا اور مرمت شدہ چہرہ دنیا والوں کو دکھایا جائے۔ ان کے کام متشددانہ، تنگ نظرانہ، کالے اور مخدوش ہیں، اقدامات پہلے کی طرح خونی ہیں لیکن ظاہری چہرہ کچھ اور دکھانا چاہتے ہیں! یہ الگ بات ہے کہ کیا وہ اس تضاد بھری پالیسی میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟
۲۔ الجزیرہ جیسے دیوقامت ذرائع ابلاغ کا مقابلہ
بنی سعود نے اس سے قبل العربیہ، اور ایم بی سی کے عنوان سے متعدد چینلوں اور فرقہ وارانہ اور وہابیت کے پرچارک چینلوں کا سہارا لیا تا کہ الجزیرہ وغیرہ کو شکست دے کر عرب دنیا میں ان کی جگہ لے سکے لیکن کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ انھوں نے اپنے بانی مبانی ملک برطانیہ کے ذرائع ابلاغ نیز بلومبرگ کے ساتھ معاہدے منعقد کئے۔ الجزیرہ نیٹ ورک قطر کے ہاتھ میں ہے اور حالیہ تین سالہ سعودی ـ قطری تنازعے کی ایک بنیاد یہی نیٹ ورک ہے۔ الجزیرہ عرب دنیا میں اخوانیت کا پرچار کرتا ہے اور دین و سماج کی ایک ایسی تصویر پیش کررہا ہے جو بنی سعود کے دینی اور سماجی تصور سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ سعودی چاہتے ہیں کہ مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ معاہدے کرکے اس نیٹ ورک کو دیوار سے لگا دے۔
۳۔ علاقائی صورت حال پر اثر انداز ہونے کی کوشش
بنی سعود نے گذشتہ ۸ برسوں میں کھربوں ڈالر خرچ کرکے علاقے کو اپنی اطاعتگزاری پر آمادہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اور اسے اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لئے کم از کم تین ملکوں کو ویران کرنا پڑا ہے: لیبیا، شام اور یمن؛ لیکن اب وہ ایسے ذرائع ابلاغ کی تلاش میں ہے جن کے ذریعے وہ علاقے کے حالات پر اثرانداز ہونے اور صورت حال کی تبدیلی کا سد باب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تبدیلیوں سے یہاں مراد وہ سعودی خواہش ہے جس کے تحت وہ علاقے کے عوام کو اپنے ساتھ ملا کر، امریکی خواہش ـ یعنی تبدیلیاں لا کر نئے مشرق وسطی کی تشکیل ـ سے فائدہ اٹھا کر، علاقائی ممالک کی حکومتوں کو سعودی شہزادوں کی مرضی کے مطابق، تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ایران، عراق، شام، ترکی، قطر، عمان سمیت خلیجی ریاستوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے خواہاں ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان ممالک کی نبض کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں، اسلامی بیداری کا سدباب کرنا چاہتے ہیں اور بحرین، نجد و حجاز، امارات اور مصر میں اسلامی بیداری کے ذریعے نئی تبدیلیوں کا انسداد اور ان ممالک اور ریاستوں میں موجود استبدادیت کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970502001288
بقلم: صدیقہ احمدی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی