جنرل پیٹراس کی جاسوسی کی ضرورت کیا تھی؟

مبصرین نے پیٹراس کے استعفے اور جنسی رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹراس امریکہ کے سیاسی ماحول پر برملا تنقید کرتے تھے، اسرائیل کے اقدامات کو مورد تنقید بناتے تھے اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تزویری تعلقات پر سوال اٹھاتے تھے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جنرل پیٹراس نے ۲۰۱۰ میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات مشرق وسطی کے عوام کے درمیان امریکہ مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے جس کے چند ہی مہینے بعد موساد کے سربراہ مائیر داگان (Aluf Meir Dagan) نے یہودی ریاست کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “رفتہ رفتہ اسرائیل ایک خزانے اور ذخیرے کے بجائے امریکہ کے سر پر ایک بوجھ میں بدل گیا ہے”۔
علاوہ ازیں امریکی جاسوسی اداروں نے ۸۲ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بعنوان “اسرائیل کے بعد کے مشرق وسطی کے لئے تیاری” (Preparing For A Post Israel Middle East) پیش کی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امریکی مفادات اور صہیونی ریاست کی موجودگی سرے سے دو متضاد مسائل ہیں؛ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہودی ریاست کی حمایت کے لئے نہ تو مالی وسائل میسر ہیں اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل؛ ہمارے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کے تین ہزار ارب ڈالر بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کے خزانے میں انڈیلنا مزید ممکن نہیں ہے؛ اسرائیل کی مداخلتوں کے خلاف عوامی احتجاجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؛ عوام مزید یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی ناجائز جنگوں کی مالی اور عسکری پشت پناہی کرے۔
اس موقف کے ساتھ ساتھ، پیٹراس نے امریکہ میں سعودی سفیر پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے سمیت اس ملک میں موساد کی تخریبی کاروائیوں کو طشت از بام کیا۔
لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملہ کرکے امریکی سفیر کو قتل کرکے مشہور کیا گیا کہ سفیر قونصلیٹ کی عمارت میں لیبیائی عوام کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ لیکن جنرل پیٹراس نے اس سازش کو بےنقاب کیا اور کہا کہ قونصلیٹ پر حملہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا کام تھا، اور سفیر کو بھی موساد نے ہی قتل کیا تھا اور یہ کہ امریکی سفیر کو قونصلیت کی عمارت میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی گاڑی کو سڑک میں راکٹ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پیٹراس نے اس واقعے کو موساد اور سی آئی کے درمیان خفیہ جنگ کی نمایاں ترین مثال قرار دیا۔
ان حقائق اور اسناد و شواہد کی بنیاد پر، بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل پیٹراس کی جنسی رسوائی موساد کی سازش کا نتیجہ تھی جس کے زیر اثر امریکی انتظامیہ کے اندر اسرائیل کے نہایت اہم مخالف کو اپنے اعلی منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ یہودی موساد سمیت جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں کا خاصہ ہے کہ متعدد ملکی اور غیر ملکی اہم عہدیداروں کے لئے جال بچھاتی ہیں، انہیں رسوا کردیتی ہیں، ان کے شواہد اور ثبوت تیار کرتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سے معلومات حاصل کرتی ہیں اور اگر ان کی متعلقہ حکومتوں کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کریں تو مذکورہ معلومات برملا کرکے ان کی عزت و آبرو کو فنا کردیتی ہیں اور یوں یا تو انہیں استعفا دینا پڑتا ہے یا پھر انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔
ڈیوڈ پیٹراس اسکینڈل سمیت مذکورہ بالا تمام تر اسکینڈلز خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں اور تزویری حکمت عملیوں کا کامل نمونہ فراہم کرتے ہیں اور ان پالیسیوں میں حتی کہ حلیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یہ درست ہے کہ یہودی ریاست نے ڈیوڈ پیٹراس کو رسوائے سر بازار کردیا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکی کہ اس کی خباثت آلود زندگی کے چند ہی دن باقی ہیں اور اب فلسطین میں قائم قابض و غاصب یہودی ریاست کو منہا کرکے نئے مشرق وسطی یا مغربی ایشیا کے نئے نقشے کا تصور ہر کسی کے ذہن میں ابھرنا چاہئے، وہی غاصب ریاست جس کے بچاؤ کے لئے امریکہ عرب ریاستوں کو لوٹ رہا ہے اور عرب ریاستوں نے اپنے مقدرات کو اسی ریاست کے مفادات سے جوڑ رکھا ہے۔ گویا وہ سمجھ رہی ہیں کہ اسرائیل نامی ریاست کی بقاء ان کی بقاء کی ضامن ہے کیونکہ بنی سعود کی حکومت سمیت خلیج فارس کی عرب ریاستوں کا قیام اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیل کا خاتمہ ان کے فلسفۂ بقاء کے خاتمے کے مترادف ہوگا؛ بہرحال وہ پوری دولت اور طاقت اور امریکی اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بھی نوشتہ دیوار کو مٹانے سے عاجز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی