صہیونیت کے خلاف جد و جہد کرنے والے علماء/ شہید مرتضیٰ مطہری

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری اسلام کے عظیم مفکر، عالم تشیع کے ایک بزرگ فلاسفر اور امام خمینی (رہ) کے خاص شاگرد تھے۔ یہ عظیم شخصیت اس قدر اسلام اور انقلاب کے لیے دلسوز تھی کہ امام خمینی(رہ) نے ان کی شہادت کے بعد انہیں اپنا بیٹا کہہ کر یاد کیا۔
امام خمینی (رہ) کی شاگردی اختیار کرنے سے شہید مطہری کے اندر اپنے استاد کی طرح، سامراجی طاقتوں اور صہیونی نظام کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا ہو گیا جس کا مشاہدہ آپ کے دروس، تقاریر اور بیانات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے عالمی صہیونیت کے خلاف کس قدر جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کا مظاہرہ کیا اور فلسطینی عوام کی حمایت کے لیے لوگوں سے پیسہ اکٹھا کر کے جہاد بالعمل کا ثبوت بھی دیا۔ فلسطینی عوام کی امداد رسانی کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنا اور ان سے امداد جمع کر کے فلسطینیوں تک پہنچانا آپ کا معمول بن چکا تھا۔
لیکن ایک مرتبہ ساواک نے ان کا اکاونٹ سیل کر کے سارا پیسہ ضبط کر لیا جو فلسطینیوں کے امداد کے طور پر جمع کیا ہوا تھا۔ شہید مطہری کو جب خبر ملی تو آیت اللہ شریعتمداری جن کے ساواک کے ساتھ اچھے تعلقات تھے کے دفتر کے تعاون سے ان پیسوں کو ساواک سے واپس لیا۔ اور بعد میں مکہ سفر کے دوران ان پیسوں کو فلسطینی نمائندوں کے ذریعے فلسطین کے عوام تک پہنچایا۔ (۱)
شہید مطہری سے شہنشاہی نظام کو اس وقت شدید خطرہ محسوس ہوا جب انہوں نے عاشور کے دن ’’حسینیہ ارشاد‘‘ میں صہیونی ریاست کے خلاف کھلے عام سخت لہجے میں تقریر کی، جس کے بعد ساواک نے انہیں اسرائیل مخالفین کی فہرست میں قرار دے کر گرفتار کر لیا۔
شہید مطہری نے اپنی اس تقریر میں کہا: اسلامی پہلو کے علاوہ مسئلہ فلسطین کی کوئی تاریخ نہیں ہے مسئلہ فلسطین کا کسی ایک حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مسئلہ فلسطین ایک ملت سے تعلق رکھتا ہے، ایسی ملت جسے بے گھر کر دیا گیا ہے جس کی زمین کو غصب کر دیا گیا ہے‘‘۔
آپ نے اس تقریر میں مسئلہ فلسطین کو واقعہ عاشورا سے جوڑتے ہوئے کہا: ’’اگر حسین بن علی(ع) آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کرو تو کن سا نوحہ پڑھنے کو کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو: ہائے میرا نوجواں اکبر۔۔۔؟
اگر حسین بن علی (ع) آج ہوتے اور کہتے میرے لیے عزاداری کرو، میرے لیے ماتم کرو اور زنجیر مارو، تو آج تمہارا نوحہ ’ہائے فلسطین‘ ہوتا۔ آج کا شمر ’موشے دایان‘ ہے، اپنے زمانے کے شمر کو پہچانو‘‘۔
شہید مطہری نے اس شبہہ کو بھی دور کرتے ہوئے کہ مسئلہ فلسطین عربوں اور اسرائیل کا مسئلہ ہے کہا:
ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا ہے کہ یہ مسئلہ تو اندرونی مسئلہ ہے، عرب اور اسرائیل کا مسئلہ ہے، عبد الرحمان فرامرزی کے بقول کہ اگر انہی کا مسئلہ اور مذہبی مسئلہ نہیں ہے تو کیوں دنیا کے دیگر یہودی ہمیشہ ان کے لیے پیسے بھیج رہے ہیں؟ ۳۶ ملین ڈالر ہمارے ملک ایران کے یہودیوں نے اسرائیل کو بھیجے ہیں۔ میں ان یہودیوں کو لعنت ملامت نہیں کرتا چونکہ وہ یہودی ہیں، میں خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں، انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کی مدد کی اور پورے فخر کے ساتھ ان کے لیے پیسہ بھیجتے ہیں، میرے پاس اخبار کا وہ ٹکڑا موجود ہے جس پر یہ خبر چھپی ہوئی ہے کہ امریکہ کے یہودی روزانہ ایک ملین ڈالر اسرائیل کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ ۲
حواشی
1 – http://motahari.org/index.aspx?pageid=186&p=1
2- https://www.tabnak.ir/fa/news/419362

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی