صہیونی اخبارات پر اہم تبصرہ

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ موجودہ دور میں انٹرنٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اخباروں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو گزشتہ سالوں میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر بھی دنیا کے ہر خطے میں اخبار پڑھنے والے افراد ابھی بھی موجود ہیں۔ لیکن اس اعتبار سے کہ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سافٹ وار اور نفسیاتی جنگ کے لیے بہترین آلہ کار ہیں اور ان کے ذریعے سماجی، سیاسی، معیشتی اور ثقافتی انقلابات برپا کئے جاتے ہیں ان کی افادیت اور تاثیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
میڈیا کی اسی تاثیر کی وجہ سے صہیونی یہودیوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش تھی کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں کی ایک خفیہ انجمن کہ جو اٹھارہویں صدی میں تشکیل پائی تھی کے آئین نامے کی چوتھی اصل یہ تھی کہ دنیا کے تمام طاقتور ذرائع ابلاغ پر اپنا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ (ص/۱۶۸)، یہاں تک کہ انیسویں صدی میں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو معمولا یورپ کے اخبار تھے پر صہیونیت کا قبضہ تھا۔ (ص/۱۶۹)
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود یہودی بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے انکار نہیں کرتے، مثال کے طور پر وہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں: انہی اخباروں کی مدد سے ہم خون کی ندیاں اور آنسوؤں کے دریا بہا کر سونے کے ڈھیر لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم ان اخباروں کو اس طرح سے چلائیں گے کہ یہ ہمارے لیے درآمد کا ذریعہ بنیں، اس طریقے سے ہم اخباروں کی جانب سے ہونے والے ہر ممکنہ حملے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ (ص/۱۶۹)
لیکن میڈیا کے میدان میں جو چیز حائز اہمیت ہے وہ خبر رسانی اور پیغام رسانی ہے۔ یعنی اگر آپ کسی نیوز ایجنسی یا اخبار کے مالک ہیں تو یہ آپ کے اوپر ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ وہ کیا سوچیں اور کس طرح سوچیں۔ یہ وہ چیز ہے جو صہیونیت سے منسوب بارہویں پروٹوکول میں درج ہے۔ اس پروٹوکول میں یوں آیا ہے: ’’کوئی خبر کہیں بھی درج نہیں ہوتی مگر یہ کہ ہم اس کی اجازت دیں، اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں دنیا کے معروف ذرائع ابلاغ جو بہت کم ہیں پر اپنا قبضہ جمانا ہو گا‘‘۔ لہذا بالکل تعجب نہیں کریں اگر آپ سے کہا جائے کہ دنیا کی اہم نیوز ایجنسیاں جیسے رائٹرز، بی بی سی، آسوشیٹڈ پریس، یونائیٹڈ پریس وغیرہ وغیرہ صہیونی یہودیوں کے ذریعے چل رہی ہیں۔
صہیونیت سے وابستہ اخباروں نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے ۵۰ سال قبل اس کے افکار و اہداف کو عام کرنا شروع کر دیا تھا۔ سب سے پہلا اخبار( Die welt)  کےنام سے تھیوڈر ہرٹزل جو صہیونیت کا موسس تھا کے ذریعے آغاز ہوا۔ لیکن خود اسرائیل میں ۱۹۴۸ سے پہلے یہودیوں کے ۱۰۰ سے زیادہ اخبار اور جریدے مختلف زبانوں میں شائع ہوتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریاست کے باشندے اپنے اخباروں پر ذرہ برابر اعتماد نہیں کرتے اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور اخبارات کو ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ روزانہ ۳۰۰۰ سے ۳۵۰۰ غیر ملکی اخبار اور ۸۰ ہزار جریدے فرانس، برطانیہ، جرمنی اور امریکہ کے اسرائیل میں بکتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا پر گہری نگرانی
صہیونی ریاست میں میڈیا آزاد ہے لیکن اس وقت تک جب تک اس ریاست کے سکیورٹی تحفظات کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ لہذا تمام اخبارات اور نیوز ایجنسیاں اپنی تمام خبروں کو شائع کرنے سے پہلے نگرانی بورڈ کہ جو فوجی افسروں پر مشتمل ہے کو ارسال کرنے پر مجبور ہیں۔ البتہ یہ نگرانی اندرونی سنسر کے علاوہ ہے جو خود اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹر انجام دیتے ہیں۔ (ص۱۸۶،۱۸۵)
اسرائیل کے معروف اخباروں کو تین کلی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؛ کثیر الانتشار، پارٹی محور اور عربی زبان
اسرائیل کے کثیر الانتشار اخبارات
۱۔ جروزالم پوسٹ (The Jerusalem Post)؛ یہ اخبار صہیونی ریاست کے ابتدائی اخباروں میں شمار ہوتا ہے۔ ۱۹۳۲ میں یہ اخبار ’فلسطین پوسٹ‘ کے نام سے شروع ہوا اور ۱۹۴۸ میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ یہ اخبار زیادہ تر وزارت خارجہ سے وابستہ ہے اور اس کے طرفدار انتہا پسند اور فتنہ پرور قسم کے افراد ہیں۔
 
۲۔ یدیعوت آحرونوت (Yedioth Ahronoth)؛ یہ اخبار عرب فلسطینیوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے کارکنان اسرائیل کے سکیورٹی اداروں سے وابستہ ہیں۔ اور یہ بھی جان لینا مناسب ہو گا کہ اسرائیل کے ۴۰ فیصد عوام اس اخبار کو پڑھتے ہیں۔
 
۳۔ معاریو (Maariv)؛ یہ اخبار جو عصر کے وقت شائع ہوتا ہے اسرائیل کا کثیر الانتشار اخبار ہے یعنی عام دنوں میں یہ ۱۶۰ ہزار کی تعداد میں جبکہ سنیچر جو چھٹی والا دن ہے میں ۳۱۰ ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے۔ (ص۱۸۷) یہ اخبار دائیں بازو پارٹی لیکوڈ کا اخبار شمار ہوتا ہے۔
 
۴۔ ہاآرتض (Haaretz)؛ یہ اخبار روزانہ ۷۷ ہزار کی تعداد میں اسرائیل میں چھپتا ہے۔ در حقیقت یہ اخبار اسرائیل کے روشن فکر افراد سے متعلق ہے اور آزادی بیان میں دوسرے اخباروں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس اخبار کے نامہ نگار فلسطینی عرب بھی ہیں اور عرب سماج کی مشکلات کو بھی منعکس کرنے میں کوئی ممانعت نہیں رکھتا۔
 
پارٹی محور اخبارات
۱۔ داور ;(Davar) یہ اخبار Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے کہ جو صہیونی مقاصد کی تکمیل جیسے مہاجر یہودیوں کے لیے مکانات فراہم کروانا، یا دوسرے ملکوں میں موجود یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین ہجرت کی ترغیب دلانا وغیرہ، کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
۲۔ عل ہشمار؛ “ماپام” پارٹی سے وابستہ اخبار ہے جو زیادہ تر سوشلسٹ افکار کی ترویج کرتا ہے۔
۳۔ ہمفڈل: یہ اخبار قومی مذہبی پارٹی (National Religious Party) کا ترجمان اور لیکوڈ پارٹی سے وابستہ ہے جو معمول متعصب یہودیوں کے درمیان پڑھا جاتا ہے۔
عربی اخبارات
۱۔ الاتحاد؛ یہ اخبار کمیونیسٹ پارٹی ’راکاح‘ کا ترجمان ہے۔
۲؛ الانبار؛ یہ اخبار بھی Histadrut پارٹی سے وابستہ ہے اور موجودہ حکومت کی اپوزیشن اس کی طرفدار ہے۔
خیال رہے کہ صہیونی ریاست کے اخبارات اور جرائد کی یہ کثیر تعداد اسرائیل میں پائے جانے والے مختلف یہودی قبائل، زبانوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں کی وجہ سے ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ صہیونی معاشرہ اندرونی طور پر شدید اختلافات، منافرتوں اور دراڑوں کا شکار ہے۔
تحریر: میلاد پور عسگری

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی