-
Saturday, 21 March 2020، 01:44 AM
خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: امریکہ جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت ساری چیزوں میں کچھ امتیازات بھی رکھتا ہے۔ ایسا ملک جو اقتصادی اور معیشتی اعتبار سے اول درجہ پر فائز ہونے کا دم بھرتا ہے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اس کا ایک امتیازی پہلو، جیلوں میں قیدیوں کی کثرت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۰ میں امریکہ کے دو ملین تین لاکھ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں امریکی قیدیوں کی یہ تعداد دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک سے زیادہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں ہر ایک لاکھ میں ۷۱۶ افراد کو جیل بھیجا جاتا ہے اس طرح امریکہ اپنے شہریوں کو جیل بھیجنے میں پہلے درجے پر پے اس کے بعد برطانیہ کی باری آتی ہے اور پھر جرمنی، پرتگال اور دوسرے ممالک۔ جی ہاں، امریکی حکومت کا اپنے شہریوں کو معمولی سے معمولی باتوں کی وجہ سے جیل بھیجنے کا شوق وہ نکتہ امتیاز ہے جو صرف امریکہ سے مخصوص ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ امریکہ میں کیوں اتنی کثیر تعداد میں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا ہے؟ آخر کیا امریکی ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم نہیں ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے؟ اتنے زیادہ امریکیوں کو جیلوں میں بند کئے جانے کا سبب کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اسلحہ کا رواج، بے روزگاری اور مہنگائی، غیر مناسب تعلیمی نظام، صحیح قوانین کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو باعث بنتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں جرائم دن بدن بڑھتے جائیں اور جیلیں بھرتی جائیں۔
حکومت کی طرف سے جرائم کے روک تھام کے لیے تجویز کیا گیا بہترین راہ حل، عدالت کے اجرا میں حد سے زیادہ سختی تھی۔ اس سختی کا امریکی انتخابات اور لوگوں کے حق رای دہی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس شخص کو ووٹ دینے کی کوشش کرتے تھے جو جرائم کا سد باب کر سکے۔ اور ان کی نظر میں بہترین راستہ مجرموں کو سزا دینا تھا۔ جب جرائم کا سلسلہ کم ہوتا تھا لوگ سزاؤں میں سختی کو اس کا سبب سمجھتے تھے اگر چہ دوسرے عوامل کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہو۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سختیوں نے الٹا نتیجہ دینا شروع کر دیا۔ سزاؤں میں زیادتی کی وجہ سے نہ صرف جرائم کا گراف نیچے نہیں آیا بلکہ اوپر چلا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف امریکہ میں پیش آئی بلکہ برطانیہ اور جاپان کی بھی یہی حالت تھی۔ یعنی سزاؤں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جرائم بڑھنے کی ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے پھر سزاؤں میں شدت کا مطالبہ سامنے آتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سزاؤں میں شدت آنے کی وجہ سے جیلوں میں چار گنا قیدی اضافہ ہو گیے۔
سزاؤں میں شدت کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ کو معمولی سے معمولی بہانے کی وجہ سے جیل میں بھیجا جانے لگا۔ مثال کے طور پر منشیات کے حوالے سے نہ صرف خرید و فروخت کرنے والوں پر سخت قوانین جاری نہیں ہوتے تھے بلکہ غیر قانونی دوا بیچنے والوں کو بھی اس زمرے میں لا کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یہ سختیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ حتیٰ قاضی جہاں پر قانونی اعتبار سے مجرم کی سزا میں تخفیف دینے کا جواز بھی رکھتے تھے وہاں بھی تخفیف دینے سے گریز کرتے تھے۔ در حقیقت یہ راہ حل امریکی جیلوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا سبب بنا۔
اگرچہ حال میں امریکہ یہ کوشش رہا ہے کہ بہت سارے وفاقی قوانین اور جرمانوں میں اصلاح کرے لیکن پھر بھی اس ملک میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کبھی حکومت کی طرف سے تشدد اور سزا کے مستحق واقع نہ ہوئے ہوں اور جیل کا انہوں نے منہ دیکھا ہو۔ مغربی دنیا سے اس کے علاوہ کسی بہتری کی امید رکھنا بھی بے جا ہے کیوں کہ ان کے یہاں قانون کی تدوین اور اس کے اجرا کا محور ان کی وہ آئیڈیالوجی ہے جو انسان اور انسانی زندگی کی نسبت وہ رکھتے ہیں۔