یہ ہمارے اپنے نہیں ہیں …

بقلم سید نجیب الحسن زیدی
آج کل سوشل میڈیا پر کچھ ہفتوں پہلے حکمراں جماعت کے ایک بڑے لیڈر کی گئی تقریر پر مشتمل ایک ایسی کلپ زورو شور سے گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کے شیعوں کو لیکر کچھ ہمدردانہ باتیں کی ہیں ، بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ وہ اور انکی جماعت شیعوں کو لیکر فکر مند ہے لیکن اسکے پیچھے کیا ہے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے  خاص کر ایسے وقت میں جب انہیں بڑے لیڈر کی جانب سے ایک بار اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف  پیدا کرنے کی بات ببانگ دہل کی جا چکی ہے ، ایسے میں اب شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اگر مسلمانوں کے کسی ایک طبقے کی خاص حمایت کی بات ہو رہی ہے تو وہ ہماری ہمدردی کی وجہ سے نہیں، اس طرح کے بیانات جب بھی سامنے آئیں ہمیں خوش ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ سوچنے کی ضرورت ہے اس کے پیچھے کیا منصوبہ بندی ہے  چنانچہ ملک میں کس طرح ہمیں بانٹے کی کوشش کی جا رہی ہے اس بات پر توجہ بہت اہم ہے ، بعض بڑے لیڈروں کے ہمارے سلسلہ سے دئیے جانے والے بیانات  اس بات کا اظہار ہیں کہ ان کو ہم سے ہمدردری قطعا نہیں ہے وہ ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں  ورنہ وہ تو خوب جانتے ہیں کہ اسلام کی کہیں حقیقی تصویر ہمیں ملے گی تو در اہلبیت اطہار علیھم السلام سے ملنے والے اسلام میں ملے گی ، لہذا یہ ہرگز خوش فہمی کا شکار نہ ہوں کہ فلاں نے ہمارے بارےمیں یہ کہہ دیا اور وہ ہمارے تحفظ کی بات کر رہا ہے یا حکومت  کی ہم پر خاص عنایت ہے ، اسے شدت پسندوں سے خطرہ ہے ہم سے نہیں ہے ہمیں وہ اپنا سمجھتی ہے ، اگر کوئی ایسا سوچ رہا ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے ۔ ہمیں ملک کے آئین کا اسکے بنیادی دستور کا مکمل پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اسی راستے پر چلنا ہے جو گاندھی جی نے بتایا تھا جس میں شدت پسندی اور نفرت کی کوئی جگہ نہیں ہے ،اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم ان عناصر کو پہچانیں جو نفرتوں کو پھیلا کر  اپنی سیاست چمکانا چاہتے ہیں ۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی