فلسطین کو ہتھیانے کے یہودی منصوبے پر طائرانہ نظر

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: “یہودی مملکت کا نظریہ میرے دل کو نہیں بھاتا میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی؟ یہ تنگ نظری اور معاشی مشکلات سے جڑا ہوا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ برا ہے میں ہمیشہ اس کے خلاف رہا ہوں”۔
یہودی سائینس داں البرٹ آئنسٹائن نے فلسطین کے تعلق سے “اینگلو” امریکی تحقیقاتی کمیٹی کے آگے بطور شہادت یہ الفاظ کہے تھے۔ (نیویارت ٹائمز، ۱۲ جنوری، ۱۹۴۸)
اسی مرتبہ اور اہمیت کے حامل ایک اور دانشور کو اس بدبخت فلسطینی مسئلہ کے تعلق سے یہ کہنا پڑا:
” فلسطین کے عوام کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ملک کو ایک غیر ملکی طاقت نے ایک دوسری قوم کے حوالے کر دیا تاکہ ایک نئی مملکت قائم کی جا سکے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں معصوم عوام ہمیشہ کے لیے بے گھر ہو گئے۔ ہر نئے تنازعہ کے بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ نہ معلوم یہ دنیا اس دانستہ ظلم کی کب تک تماشائی بنی رہے گی؟ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مہاجرین اپنے وطن پر جہاں سے نکالے گئے ہر طرح کا حق رکھتے ہیں اور حق سے انکار ہی مسلسل نزاع کا باعث رہا ہے دنیا میں کبھی بھی، کوئی قوم بھی خود اپنے ملک سے اجتماعی طور پر اخراج کو قبول نہیں کرتی تو پھر کس طرح فلسطینی عوام سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ایسی سزا کو قبول کر لیں جس کو کوئی اور برداشت نہیں کر سکتا۔
“مہاجرین کے وطن میں ان کا ایک مستقل منصفانہ تصفیہ مشرق وسطیٰ میں کسی حقیقی تصفیہ کا ایک لازمی جز ہے”۔
برئرینڈرسل نے انتقال سے پہلے اپنے آخری الفاظ فلسطینی عوام کے ان حقوق کا اس پیام میں ذکر کیا جو انہوں نے فروری ۱۹۷۰ میں منعقدہ ماہرین پارلیمانی امور کی بین الاقوامی کانفرنس کو روانہ کیا تھا۔ (نیویارک ٹائمز، ۲۳ فروری، ۱۹۷۰)
چالیس سال قبل فلسطین میں مملکت اسرائیل کے قیام کی تاریخ سے مشرق وسطیٰ جہاں اس دوران بڑے پیمانہ پر کئی جنگیں ہوئیں ایک کھولتا ہوا لاوا بن گیا ہے جو امن کے عالم کے لیے خطرے کا باعث ہے۔
مسئلہ فلسطین جو تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے بنیادی طور پر ایسا مسئلہ ہے جو یہودیوں اور زیادہ تر یورپی یہودیوں کی فلسطین میں، جہاں صدیوں سے عرب آباد ہیں، عربوں کی مرضی کے خلاف لیکن برطانیہ اور آگے چل کر امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کی تائید کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہاں پھر ایک بار اس امر کی وضاحت کرنا ہو گی کہ یہ تنازعہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمھجا جاتا ہے بلکہ یہ ایسا تنازعہ ہے جس کے ایک فریق عرب اور دیگر غیر صہیونی ہیں تو دوسرا فریق صہیونی یہودی اور ان کے حامی ہیں۔
فلسطین (Palestine) کا نام (philistines) سے اخذ کیا گیا ہے جو وہاں ما قبل تاریخ سے رہتے بستے ہیں فلسطین کے موجودہ باشندے ان فلسطینی کنعانی (canaanites) اور دیگر قبائل کی عرب نژاد اولاد ہیں جو بارہویں صدی قبل مسیح میں یہودیوں کے مصر سے نکل کر فلسطین میں پہلی مرتبہ آمد سے قبل رہتے بستے تھے۔ پیرس کی سوربن یونیورسٹی کے یہودی پروفیسر میگزم روڈنسن prof. maxime rodinson نے اس بات پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین کی عرب آبادی ہر لحاظ سے مقامی ہے اور فلسطین میں ان کی جڑیں کم از کم چالیس صدیوں سے پیوست ہیں۔
فلسطین عرب دنیا کا وہ خطہ ہے جس کے مغرب میں بحیرہ روم، شمال میں لبنان، مشرق میں شام اور دریائے اردن اور جنوب مغرب میں بحیرہ احمر اور صحرائے سینا واقع ہیں۔ ماضی میں فلسطین کو اکثر جنوبی شام کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ اس کے ایک قدرتی حصے پر مشتمل ہے۔
فلسطین کے جغرافیائی محل وقوع نے اس کو صدہا برس سے متعدد ممالک اور مسلسل تہذیبوں کے ایک گزرگاہ بنا دیا ہے۔ فلسطین کی شہرت، ساتویں صدی عیسوی میں( جو تاریخ عرب میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتی ہے) جزیرہ نمائے عرب سے آنے والے عربوں کی تسخیر تک برقرار رہی۔
ساتویں صدی کے وسط سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک فلسطین مسلسل تیرہ صدیوں تک عرب قوم، اس کی زبان، تہذیب اور مقدر کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر برقرار رہا۔ اپنی نوعیت کے اس واحد تاریخی اور تہذیبی موقف نے اب اس کو عرب دنیا میں بین الاقوامی سطح پر ایک خاص سیاسی موقف دیا ہے۔
ایک طرف تو فلسطین عرب دنیا کا دل ہے کیونکہ وہ اسے اس کے آفریقی اور ایشیائی حصوں سے مربوط کرتا ہے اور عرب قوم کے اتحاد میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری طرف فلسطین ایک براعظموں کو ملانے والے پل کی مانند ہے جو تین براعظموں یعنی آفریقہ، ایشیا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا یہ خصوصی محل وقوع، اس کو اس صدی کے آغاز سے ہی عالمی سامراج کے ناپاک عزائم اور جارحانہ منصوبوں کے مسلسل تابع کر رکھا ہے۔
تقریبا ۱۲۲ برس پہلے یعنی ۱۸۹۶ میں جب آسٹریا کے تھیوڈور ہیرزل (Theodore herzel) نے یہودی مملکت نامی کتاب لکھی جس میں فلسطین میں ایک یہودی مملکت کے قیام کی مانگ کی گئی تھی تو اس نے اسی وقت مشرق وسطیٰ میں جھگڑوں اور جنگوں کے بیج بو دئے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران فلسطین بھی کئی دیگر ممالک کی طرح ترکی مسلم خلافت کا ایک جز تھا۔ ۱۹۱۵ میں برطانیہ عظمیٰ نے عربوں کو ترغیب دی کہ وہ ترکی کے خلاف اس سے ہاتھ ملا لیں اور اس نے عربوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں جنگ کے بعد آزادی عطا کرے گا۔
تاہم ۱۹۱۶ میں برطانیہ نے عربوں سے کئے گئے ان معاہدوں کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے فرانس اور روس سے معاہدے اسکائس۔ پیکاٹ (agreement skyes picot) کے نام سے ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کی رو سے یہ طے پایا کہ اتحادی (برطانیہ، فرانس اور روس) عرب ممالک اور ترکی کے ایک حصے کو آپس میں بانٹ لیں گے!۔
۱۹۱۷ میں کمیونسٹ روس کو اتحادیوں کے ساتھ جنگ میں شریک کرنے کی کوشش میں برطانیہ نے دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے کہ بالشویک پارٹی میں زبردست یہودی اثر کو استعمال کیا جا سکے، برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کا لکھا ہوا ایک خط برطانوی نژاد یہودی لارڈراتھس چائلڈ (lord roths child) کو روانہ کیا؛
دفتر خارجہ
۲ نومبر ۱۹۱۷
ہزمجسٹی کی حکومت کی جانب سے صہیونی یہودی خواہشات کی تائید کے حسب ذیل اعلان کی جسے کابینہ میں پیش اور منظور کیا گیا، آپ کو اطلاع دیتے ہوئے مجھے مسرت ہوتی ہے۔
ہزمجسٹی کی حکومت یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک قومی وطن کے قیام کو تائیدی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام ممکنہ مساعی کو بروئے کار لائے گی اور اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی حرکت نہیں کی جائے گی جس سے فلسطین میں رہنے والے غیر یہودیوں فرقوں کے شہری اور مذہبی حقوق یا کسی دوسرے ملک میں یہودیوں کے حاصلہ حقوق اور سیاسی موقف متاثر ہو۔
یہ امر میرے لیے باعث ممنونیت ہو گا اگر آپ اس اعلان نامہ کو صہیونی وفاق کے علم لائیں۔
راتھر جیمس بالفور
یہ غیر معمولی اور متنازعہ مراسلہ جسے بعد میں اعلان بالفور کا باوقار نام دیا گیا فلسطین پر یہودیوں کے جدید مطالبہ کی بنیاد بن گیا۔
جب اعلان بالفور لکھا گیا تو اس وقت تک برطانوی فوجوں نے ارض فلسطین پر قدم نہیں رکھا تھا اور برطانیہ نے فلسطین پر اپنے حق حتیٰ کہ اس کی تسخیر کی بنا پر بھی کوئی ادعا نہیں کیا تھا، جس کی رو سے فلسطین کو کسی اور کے حوالے کرنے کا اس کو حق پیدا ہوتا۔
۱۹۱۷ میں یہودی فلسطین کی سات لاکھ آبادی کے صرف آٹھ فی صد پر مشتمل تھے۔ مشہور برطانوی مورخ پروفیسر آرنالڈ ٹائن بی نے اعلان بالفور کی اجرائی کے پس پشت کا فرما برطانوی ذہن کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
“ہم نے اپنی ذمہ داری سمجھ لی ہے کہ ہم ایسی چیز دوسروں کو دے ڈالیں جو کہ ہماری نہیں ہے۔ عرب ملک میں فلسطینیوں کے کسی قسم کے حقوق کو تیسرے فریق کے دینے کا اہم وعدہ کر رہے تھے”۔
مشہور یہودی مصنف آرتھر کوسٹلر نے سوچے سمجھے اور فریب آمیز اعلان بالفور کو مختصر طور پر ایک ایسی دستاویز سے تشبیہ دی ہے جس میں ایک قوم نے دوسری قوم کو ایک تیسرا ملک دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اعلان بالفور کے پیچھے مختلف النوع محرکات کار فرما رہے ہیں، یہ بین الاقوامی صہیونی تحریک کے لیے جو خصوصا امریکہ میں بہت زیادہ پروان چڑھ رہی تھی ایک قسم کی رشوت تھی۔ بہترین توقعات کے باوجود یہ ایک مبہم سا اعلان تھا اور جزوی طور پر خود متناقض بھی اور اس کی سب سے بڑی حماقت اس کے یہ طنز آمیز یہودی فرقوں میں سے صرف ایک فرقہ بن کر رہ گئے!۔
اعلان بالفور کے نتیجہ میں صورتحال بہت تیزی سے اور خطرناک طور پر خراب ہوتی گئی، مختلف حیثیتوں سے فلسطینی عربوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں بہت بدتر پایا۔ برطانیہ نے مصر اور عراق کو اور فرانس نے شام اور لبنان کو اپنا زیر نگیں کر لیا۔ اور اس بات کا بھی پورا پورا امکان تھا کہ مسٹر بالفور کی مخلصانہ دعوت پر یہودی فلسطین میں اس قدر کثیر تعداد میں آباد ہو جائیں کہ عرب خود اپنے ملک میں اقلیت بن کر رہ جائیں۔ اس امکان کو صرف فلسطین ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں غم و غصہ کے ساتھ دیکھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۴۲

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی