-
Friday, 21 August 2020، 02:26 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شام سے امریکہ و اسرائیل کا ایک پرانا اختلاف رہا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس تنازعہ و اختلاف کی وجہ کیا ہے؟ شام مشرقی بلاک کے ٹوٹنے سے قبل سوویت یونین کے حلیفوں اور متحدوں میں شمار ہوتا تھا، لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب دنیا ایک قطبی ہو گئی تو امریکہ نے کوشش کی کہ شام کو علاقے میں اپنے متحدین میں شامل کر لے، لیکن اس درمیان جدید روس کے ساتھ ہم پیمان ہونے سے ہٹ کر ایران و عراق کے مابین آٹھ سالہ جنگ میں عراق کے ساتھ اختلاف کی بنیاد پر شام، ایران کو اسلحوں کے ذریعہ امداد پہونچاتا رہا اور یہ بات ایران کی امریکہ سے دشمنی کے چلتے امریکہ کو پسند نہ آئی، البتہ یہ وہ باتیں ہیں جو صہیونی حکومت کے بارے میں امریکہ و شام کے ما بین اختلافات سے ہٹ کر ہیں ۔
شام اور اسرائیل کے ما بین اختلافات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی حکومت کی امریکہ و برطانیہ کی حمایت میں تشکیل کے بعد، شام بھی دیگر عربی ممالک کی طرح جہان عرب کی قیادت کے دعوے کے پیش نظر اسرائیل کے ساتھ شدید مخالفت کرنا شروع کر دیتا ہے، صہیونی حکومت اور شام کے ما بین اختلافات جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضہ سے اور بھی شدید ہو جاتے ہیں اور یہ اختلافات صیہونی حکومت اور شام کے ما بین خطے میں ایک دائمی مشکل میں ڈھل جاتے ہیں۔ مغربی ایشیاء میں بہار عربی کے شروع ہونے کے ساتھ شام میں بھی داخلی طور پر جنگ چھڑ جاتی ہے اور شام داخلی خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے، اور داعش کے اس جنگ میں کود پڑنے کے بعد حالات نہ صرف شام کے لئے بلکہ پورے خطے اور خاص کر امریکہ و اسرائیل کے لئے تشویشناک ہو جاتے ہیں، باوجودیکہ داعش اسرائیل و امریکہ کے ذریعہ وجود میں آتی ہے اور انہیں کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے اسے علاقے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ انکے کنڑول سے نکل جاتی ہے ۔
اس لحاظ سے کہ شام کی علاقے میں ایک اسٹراٹیجک حیثیت ہے، یہ تمام آشوب و مارکاٹ اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ ترکی، روس، ایران اور عراق جیسے ہم پیمان اور پڑوسی ملک راست طور پر فوجی مداخلت کرنا شروع کر دیں اور یہ مداخلت شروع بھی ہو جاتی ہے، اگرچہ فی الوقت داعش تیزی کے ساتھ کمزور پڑ رہی ہے اور اسد رجیم نے اپنی کھوئی ہوئی پاور اپنے حامیوں کی مدد سے دوبارہ حاصل کر لی ہے لیکن اسکے باوجود ،یہ مذکورہ ممالک حکومت مخالف عناصر اور داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے بچے کچے لوگوں سے مقابلہ آرائی میں مشغول ہیں، اور یہ مسئلہ اس بات کا سبب بنا ہے کہ حالات و شرائط چنداں اسرائیل و اسکے متحدین کے حق میں نہ ہوں ۔
اسرائیل کے وزیر دفاع موشہ یعلون کا ماننا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے احتمالی نتائج تین حالتوں سے باہر نہیں ہیں ، ۱۔ بشار اسد کی کامیابی، ۲۔ بشار اسد کے مخالف دھڑے اور شدت پسندوں کی کامیابی، ۳۔ شام کی ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا ہر صورت میں اسرائیل کو نقصان اٹھانا پڑے گا، اگر اسد کو کامیابی نصیب ہوتی ہے تو نئی حکومت ہر وقت سے زیادہ موجودہ حالات میں خود کو ایران کا مقروض تسلیم کرے گی ، اور شدت پسند و افراطی گروپس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتاکہ انکا موقف کیا ہوگا ؟ اگر شام کے ٹکڑے ہوتے ہیں تو بھی کلی طور پر دو حصے ہونا نا گزیر ہیں۔ ۱۔ افراطی و شدت پسند ۲۔ ایران کا طرفدار ، چاہے شام ٹوٹنے کے بعد شدت پسندوں کے ہاتھوں جائے یا ایران کی طرف جھکاو رکھے دونوں ہی صورتوں میں اسرائیل ہی کو نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ لہذا اسرائیل کی کوشش ہے کہ اس جنگ میں سنجیدہ طور پر حصہ نہ لے، لیکن چونکہ وہ حزب اللہ، اور ایران کی شام میں سرگرمیوں کو لیکر لاتعلق نہیں رہ سکتا ،اسی لئے وقتا فوقتا شام میں موجود ایران اور حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہتا ہے لیکن خیال رکھتا ہے کہ یہ حملے محدود پیمانے پر اس طرح ہوں کہ اسرائیل پر حملے کا سبب نہ بنیں، اور ایران و اسرائیل کے ما بین ڈائریک جنگ کے احتمال کو کم سے کم پر پہنچایا جا سکے ، ان تمام باتوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس تنازعہ میں اسرائیل ۴بڑے اہداف کو لیکر چل رہا ہے ۔
۱۔ ایران کو کنڑول کرنا اور ایرانی اسلحوں کو لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ تک پہنچنے سے روکنا
۳۳ روزہ لبنان کی جنگ اور ۲۲ روزہ غزہ میں اسرائیل کی بری طرح شکست ، صہیونی حکومت کے طاقت کے غرور کے ٹوٹنے اور علاقے میں اسکے جعلی شان و شوکت کے محل کے زمیں بوس ہونے کے علاوہ اس بات کا سبب بھی ہوئی کہ جنگ کا دائرہ اسرائیلی شہروں تک کھنچتا چلا جائے، یہ بات سبب بنی کہ یہ لوگ شیعت کے ہلال کے خطر ے کی طرف متوجہ ہوں اور اسی بنا پر شام ایک غیر معمولی رول ادا کرنے کے سبب انکی توجہات کا مرکز بنا ، یہی سبب ہے کہ اسرائیل اور اسکے متحدین و حلیفوں نے مزاحمتی محاذ کو الگ تھلک کرنے کے لئے اور ایران کو علاقے میں تنہا کرنے کے لئے داعش کی داغ بیل ڈالی ، لیکن یہ لوگ نہیں جانتے تھے انکا یہ کام انکے گلے کی ہڈی بن جائے گا اور علاقے میں ایران اور مزاحمتی محاذ کے مزید اثر و رسوخ کے پھیلنے کا سبب بنے گا ، اور یہی ہوا داعش کی شکست کے بعد شام میں ایران کا اثر و رسوخ مزید بڑھ گیا اور مزاحمتی محاذ تک اسلحوں کا پہنچانا اور بھی آسان ہوتا چلا گیا اور عسکری سازو سامان و اسلحوں کی ترسیل مزید آسانی کے ساتھ انجام ہوتی گئی، اسکے علاو ہ ایران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ محاذ و سرحد کا حامل ہو گیا، اور یہ وہ چیز تھی جو اسرائیل کے شدید اضطراب کا سبب تھی ، اس لئے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کے شمالی شہروں پر حملوں کا امکان فراہم ہو گیا ہے اور ایران آسانی کے ساتھ اسرائیل پر اپنا شکنجہ کس سکتا ہے اور اسرائیل پر دباو بنانے کے ساتھ اسرائیل کے احتمالی حملوں کے سلسلہ سے ایک دفاعی رول ادا کر سکتا ہے ، اور اپنی عسکری طاقت کے بل پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کا سبب بن سکتا ہے ۔
۲۔روس کے سیاسی اور عسکری نفوذ و اثر کو کم سے کم کرنا
شام میں روس کی عسکری موجودگی کا ایک سبب “طرطوس “کی بندرگاہ ہے ایسی بندرگاہ جو کہ مدتوں پہلے سے ہی روسی بحریہ کے اس ملک کے ساحلوں پر موجودگی کا ضامن ہے ، دوسرا سبب روس اور امریکہ کے درمیان اختلاف کا پایا جانا ہے ، امریکہ دنیا میں یک قطبی نظام کا خواہاں ہےاور اسی سبب مغربی ایشیاء کے مسائل میں دخالت کرنے کے لئے اسے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے ، اور بغیر روک ٹوک وہ جہاں چاہتا ہے دخالت کرتا ہے اسکے مقابل روس نے علاقے میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے مقصد کے تحت اپنے ہم نواوں و ہم پیمانوں یعنی ایران اور شام کے ساتھ تعاون کی حکمت عملی اختیار کی ہے ۔
روس کا شام میں عسکری وجود اسرائیل کے لئے شدید طور پر سر درد کا سبب ہے ، کیونکہ روس، ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اسد حکومت کی حمایتوں کا تسلسل اسد کی حکومت کی کامیابی اور شام میں ایک شیعہ طاقت کے اقتدار میں آنے کا سبب ہوگا، وہ بھی ایسی حکومت جو شدید طور پر اسرائیلی حکومت کے خلاف ہے ۔
دوسری طرف اسرائیل نہیں چاہتا کہ حزب اللہ یاخونت جیسے اینٹی کشتی کروز میزائل اور پی ۸۰۰ جیسے اینٹی طیارہ میزائل سے لیس ہو جسے روس نے اسد کی فوج کو دے رکھا ہے، اسی طرح صہیونی حکومت کی کوشش ہے کہ عسکری سازو سامان و اسلحے حزب اللہ تک نہ پہنچ سکیں، اور ان سب کے درمیان روسی افواج کی شام میں موجودگی نے اسرائیل سے آزادی عمل کو سلب کر رکھا ہے، اس لئے کہ اسرائیل کے ممکنہ اقدامات جان بوجھ کر یا بھولے بھٹکے روسی افواج سے سیدھی مڈبھیڑ کا سبب بن سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ۲۴ نومبر ۲۰۱۵ء میں نیتن یاہو نے روس کا سفر کیا تاکہ ایک فضائی، بحری اور مقناطیسی معاہدہ کرکے راست طور پر آپسی مڈبھیڑ سے پرہیز کیا جاسکے، اس لئے کہ روس کے موقف اور اسکے فیصلوں میں تبدیلی کو لیکر اسرائیلی وزیر اعظم کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
۳ ۔اسد کی متزلزل حکومت کی ایک نسبی حمایت
اسرائیل کے سامنے موجودہ راہ حلوں میں ایک یہ ہے کہ اسد رجیم کی مخالفت کے ساتھ اس حکومت کے گرنے سے ممانعت کی جائے اور ایسا کچھ نہ ہو کہ یہ رجیم سقوط کر جائے، اس لئے کہ اسکے گرتے ہی یہ علاقہ بری طرح نا امن ہو جائے گا اور اسرائیل پر حملہ کا احتمال زیادہ ہو جائے گا ، دوسرے الفاط میں کہا جا سکتا ہے کہ اسد اور ایران کی فورسزکے بارے میں تو تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں لیکن تکفیری و سلفی عناصر کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتاہے کہ وہ کیا کر بیٹھیں ۔ البتہ اس حمایت کا مطلب اسد رجیم سے موافق ہونا یا ااسکی حمایت کرنا نہیں ہے ۔
بلکہ یہ اس لئے ہے کہ وہاں پر خانہ جنگی چلتی رہے کیونکہ اسد کی فورسز اور تکفیریوں یا اسد مخالف فورسز کے بارے میں جنگ و لڑائی اس بات کا سبب ہوگی کہ مشرق وسطی میں اسرائیل توجہات کے مرکزیت سے خارج ہو جائے گا اور اسکا تحفظ یقینی ہو جائے گا ۔
۴۔ جولان کی پہاڑیوں کے سلسلہ سے شام کے دعوے کی قانونی حیثیت کو بے دم کرنا
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا شام میں داخلی جنگ کے شروع ہونے سے پہلے اسد اور اسرائیل کی فورسز جولان کی پہاڑیوں پر ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھیں ،ایک جنگ کو چھیڑنا اور اسد کے مخالفوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ذکر شدہ باتوں کے علاوہ ایک ایسا بہانہ تھا کہ شامی فورسز اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے جولان کی پہاڑیوں کو چھوڑ دیں اور اسرائیل کی سرحدیں پر سکون و محفوظ ہو جائیں [۱]۔
حاصل کلام
جو کچھ ہم نے بیان کیا اسکی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران اور مزاحمتی محاذ سے مقابلہ کے لئے بہت زیادہ آپشنز نہیں بچے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی کوشش ہے کہ ایران کے دشمنوں جیسے سعودی عرب کے ساتھ مشرکہ تعاون کو بڑھا کر اور شمالی سپر جیسے آپریشنز کو انجام دے کر مزاحمتی محاذ اور ایران کی شام میں دخالت کو کم کرے اور دوسری طرف اسد مخالف گروہوں کو اسلحوں ، خفیہ معلومات ، اور فوجی تربیت وغیرہ کی فراہمی کے ذریعہ شام کی داخلی جنگ کی آگ کو بھڑکائے رکھا جا سکے [۲] البتہ یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل سے ایران و لبنان کی جنگ کا احتمال موجودہ شرائط میں نا ممکن نظر آتا ہے ، ایران کے اپنی داخلی معیشتی مشکلات ،اور شام میں ایک تھکا دینے والی جنگ ، نیز اقوام متحدہ میں یمن کےحوثیوں کو میزائلوں کی فراہمی کی فائل کا کھلا ہونا یہ وہ اسباب ہیں جنکے پیش نظر ایران اسرائیل کے ساتھ ایک نئی جنگ نہیں چھیڑے گا ، دوسری طرف اسرائیل بھی لبنان کی حزب اللہ کی میزائلی طاقت، اور نامنظم و گوریلا جنگوں میں حزب اللہ کی صلاحیت و طاقت کے پیش نظر نیز ، باختری وغزہ ،شام ، اور لبنان کی شکل میں موجودہ سہ رخی محاذ کی بنا پر جنگ چھیڑنا نہیں چاہے گا ، کیونکہ یہ سہ رخی محاذ خود بخود اسرائیل کی جانب سے جنگ چھیڑے جانے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا [۳]۔
[۱] ۔ موسسه رند، ترجمه: مرکز بررسی های استراتژیک ریاست جمهوری، «منافع و گزینه های اسرائیل در سوریه»، لَری هانور، ترجمه: محسن محمودی، جواد عرب یار محمدی، انتشار ۲۰۱۶م.
[۲] ۔۲۳۳۴http://theinternational.ir/west-of-asia/item/
[۳] ۔ https://iramcenter.org/fa/israels-policy-towards-hezbollah-after-the-end-of-the-syrian-war/
– فصلنامه پژوهشهای انقلاب اسلامی، نقش قدرتهای تاثیرگذار در بحران سوریه و تحلیل ژانوسی از منافع ملی ایران، اختیار امیری، رضا، دوست محمدی، حسین، تابستان۹۶، شماره ۲۱، ص۶۹-۴۱٫
– فصلنامه مطالعات منطقهای، تاثیرات تضعیف سوریه بر امنیت اسرائیل، رابینویچ، ایتمار، ترجمه: منصور براتی، زمستان۹۵، شماره ۶۳، ص۹۴-۷۳٫
۴- فصلنامه پژوهشهای انقلاب اسلامی، نقش قدرتهای تاثیرگذار در بحران سوریه و تحلیل ژانوسی از منافع ملی ایران، اختیار امیری، رضا، دوست محمدی، حسین، تابستان۹۶، شماره ۲۱، ص۶۹-۴۱٫
۵- فصلنامه مطالعات منطقهای، تاثیرات تضعیف سوریه بر امنیت اسرائیل، رابینویچ، ایتمار، ترجمه: منصور براتی، زمستان۹۵، شماره ۶۳، ص۹۴-۷۳٫
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔