امریکی سلطنت یا ابھی یا کبھی نہیں

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں سے میں بات چیت کرتا ہوں، ان میں سے بہت سوں کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کا تعلق جمہوریت، قومی سلامتی یا شاید دہشت گردی یا آزادی یا خوبصورتی یا کسی اور چیز سے ہے۔ عجیب خیال ہے یہ، یہ سارے واشنگٹن کے حبدار ہیں۔ کچھ تو واضح طور پر حیران و پریشان ہیں جنہیں امریکہ کے بین الاقوامی رویوں میں کوئی نمونہ عمل نظر نہیں آتا لیکن اس صورت حال کی وضاحت آسان ہے۔
البتہ اس صورت حال کا سبب “سلطنت” ہے جس کی طرف رغبت بنی نوع انسان کے فکری مجموعے کا قدیم اور ذاتی جزء ہے: سلطنت اشکانیان (یا سلطنت پارثاوا یا پارت یا پارث)، (۱) سلطنت روم (۲)، آزٹیک سلطنت (۳)، سلطنت ہیبسبرگ (۴) اور سلطنت برطانیہ اور ان سلطنتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست۔
جب سوویت اتحاد کا خاتمہ ہوا تو امریکہ ایسی پوزیشن میں تھا کہ حقیقتا ایک عالمی سلطنت قائم کرسکتا تھا؛ ترقی یافتہ ممالک عملی طور پر امریکہ کے خراج گزار تھے اور ان میں سے بہت سے امریکی سپاہیوں کے قبضے میں تھے؛ جیسے: پورا یورپ، کینیڈا، جاپان، جنوبی کوریا، لاطینی امریکہ، سعودی عرب اور آسٹریلیا۔ اسی اثناء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ زبردست معیشت اور سب سے بڑی فوجی طاقت کا مالک تھا؛ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (۵)، نیٹو (شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم)، (۶) ڈالر اور سوِفٹ، (۷) الغرض سب کچھ اس کے کنٹرول میں تھا اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا؛ روس افراتفری کا شکار تھا اور چین ایک نقطہ تھا دور افتادہ افق میں۔
)یہودی لابیوں کے سب سے اہم ادارے( آیپیک (۸) جیسے طاقت کے مراکز نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا لیکن اصل یلغار عراق پر حملے سے شروع ہوئی۔ نہ کہتے ہوئے بھی ظاہر ہے کہ امریکہ کی موجودہ خارجہ پالیسی کرہ ارضی پر تسلط کی حکمت عملی پر مرکوز ہے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس موضوع سے بےخبر ہیں۔
دنیا کا دارومدار تیل پر ہے۔ تیل کے سودوں پر کنٹرول، ان ممالک پر تقریبا مطلق قابو رکھنے پر منتج ہوتا ہے جن کے پاس تیل نہیں ہے۔ (بطور مثال اگر جاپانیوں کو تیل کی منتقلی رک جائے تو وہ بہت جلد ایک دوسرے کو کھا لیں گے۔) سعودی عرب امریکہ کا ایک زیر حمایت ملک (۹) ہے، اور عراق پر گذرنے والی صورت حال کو دیکھ کر وہ بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگر وہ تیل کی پیداوار اور فروخت بند کردے تو ممکن ہے کہ امریکہ کے زیر قبضہ آجائے۔ امریکی بحریہ [بقول مضمون نویس] آسانی کے ساتھ آبنائے ہرمز سے بعض ممالک یا تمام ممالک کی طرف جانے والے تیل بردار جہازوں کا راستہ روک سکتی ہے۔
۱۱۔ عراق کی تباہی کا ایک اصل مقصد اس ملک کے تیل کو اپنے ہاتھ میں لینا اور تیل پیدا کرنے والی ایک اہم طاقت “ایران” کی سرحدوں پر اپنی فوج کی تعیناتی سے عبارت تھا۔ ایرانیوں پر بھوک مسلط کرنے کی موجودہ کوشش ایران میں ایک کٹھ پتلی حکومت کو برسر اقتدار لانے کی غرض سے ہورہی ہے۔ حال ہی میں جنوبی امریکی ملک ونزویلا (۱۰) میں بغاوت کروانے کا مقصد بھی تیل کے عظیم ذخائر کے حامل ایک اور ملک پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ یہ عمل لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کے خوفزدہ کرنے کے لئے بھی ہوسکتا ہے اور اس طرح سے انہیں دکھایا جاسکتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے ہر ملک کے اندر رونما ہوسکتا ہے جو واشنگٹن کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہے۔ امریکی فوجی نائجیریا میں کیا کرتے ہیں؟ آپ اندازہ لگائیں کہ نائیجریا میں ایسی کونسی چیز ہے؟
یاد رکھیں کہ عراق اور ایران، تیل کے ذخائر کے ساتھ ساتھ، جُغ سیاسی (۱۱) لحاظ سے بھی ایک عالمی سلطنت کے لئے حیاتی اہمیت رکھتے ہیں؛ علاوہ ازیں امریکہ میں یہودیوں کی بہت طاقتور موجودگی بھی اپنے مقاصد کے لئے مشرق وسطائی جنگوں کی حمایت کرتی ہے گوکہ اسلحہ تیار کرنے والی کمپنیوں کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ “خدا کے تمام فرزند سلطنت کے عاشق ہیں”۔
بڑی سلطنت کے غلبے کے لئے، روس اور چین ـ جن میں مؤخر الذکر ملک حیرت انگیز رقیب بھی ہے ـ کو بےاثر کرنا چاہئے۔ کارزار کا نتیجہ روس کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے توڑ دینا ہے۔ اسی اثناء واشنگٹن اپنی کرائے کی ملیشیا “نیٹو” پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اپنا دائرہ مشرق کی طرف پھیلا دے؛ پولینڈ میں امریکی افواج کو تعینات کرنا چاہتا ہے اور ایک خلائی کمان قائم کرنے کے درپے ہے جس کا واحد مقصد روس کو خوفزدہ یا بلیک میل کرنا اور درمیانی فاصلے سے تک مار کرنے والے میزائلوں کے معاہدے (۱۲) سے الگ ہونا چاہتا ہے، علاوہ ازیں وہ اپنے یورپی خراج گزاروں کو روس کے ساتھ تجارتی تعلقات وتعاون سے بھی بازرکھنا چاہتا ہے۔
اس کے باوجود، چین امریکی سلطنت کے پھیلاؤ کی راہ میں کلیدی رکاوٹ ہے: چنانچہ اسے چین کی ساتھ تجارتی جنگ کی طرف بڑھنا چاہئے؛ امریکہ کو چین کی معیشت اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا راستہ روکنا چاہئے اور ہاں اب “اسی وقت” اسے یہ کام سرانجام دینا چاہئے کیونکہ اسے مزید کوئی بھی موقع نہیں ملے گا۔
موجودہ دور سلطنت امریکہ کے لئے ایک اہم تاریخی موڑ ہے۔ امریکہ تجارت کے لحاظ سے بھی ـ اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بھی ـ چین کے ساتھ رقابت کی صلاحیت نہیں رکھتا اور واشنگٹن اس حقیقت سے واقف ہے۔ چینی معیشت کی امتیازی خصوصیات بہت بنیادی ہیں: بہت بڑی آبادی اور بہت باصلاحیت اور مستعد افرادی قوت، ایک بڑی معیشت منافع کمانے کے لئے، جو اندرونی سطح پر بھی اور بیرون ملک بھی، بہت بڑی سرمایہ کاریوں کے امکانات فراہم کرتی ہے۔ ایک مستحکم حکومت جو مستقبل کے لئے بہت مناسب منصوبہ بندیاں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکہ کیا ہے؟ اس سے کہیں زیادہ ٹوٹتی ہوئی طاقت، جو یہ نظر آتی ہے۔ امریکہ کسی وقت اقتصادی لحاظ سے بھی، بہتر مصنوعات کے لحاظ سے بھی اور بہتر قیمتوں کے لحاظ سے بھی فوقیت رکھتا تھا، عظیم فاضل تجارتی آمدنی سے بہرہ ور تھا اور بہت کم کہیں اسے اپنے راستے میں کوئی رقیب نظر آتا تھا۔ آج اس ملک میں صنعتی انہدام کاری ہوچکی ہے۔ اسے ایک عظیم تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور یہ سارے مسائل ایک حد سے زیادہ اور قابو سے باہر قرضوں کا سبب بنتا ہے۔ اس ملک میں تیار کردہ مصنوعات ـ جو دنیا والے کسی دوسرے ملک سے کم قیمت پر فراہم نہیں کرسکتے ـ بہت محدود ہیں۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ کی تجارتی طاقت ایک پیداواری قوت سے ایک صارف کی سطح تک تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔ واشنگٹن تمام ممالک سے کہتا ہے کہ “اگر جو ہم چاہتے ہیں نہ کرو تو تمہاری مصنوعات نہیں خریدیں گے”۔ ایک اٹل (۱۳) [کہلوانے والے] ملک کو ایک اٹل منڈی بھی ہونا چاہئے۔ چند ممالک ایسے ہیں کہ جہاں امریکی مصنوعات اہمیت رکھتی ہیں لیکن اگر آج امریکہ اپنی مصنوعات چین کو بیچنا بند کردے تو چین بمشکل کوئی امریکی مصنوعات کی کمی محسوس کرے گا جبکہ اگر چین سے خریداریاں بند کرے تو چین کی معیشت سست پڑ جائے گی۔ قابل غور ہے کہ محصولات میں اضافہ، چینی مصنوعات کی عدم خریداری کا صرف ایک راستہ ہے۔
چونکہ امریکہ کی مسرف اور فضول خرچ منڈی دوسرے ممالک کے لئے بنیادی عنصر سمجھی جاتی ہے، تو وہ ویسا ہی عمل کرتے ہیں جیسا کہ ان سے کہا جاتا ہے تاہم ایشیائی منڈیاں ترقی کررہی ہیں اور ایشیائی مصنوعات کے مالکان بھی ترقی کررہے ہیں۔
امریکہ کی مسابقت پذیری (۱۴) میں کمی آنے کے بعد، واشنگٹن آہنی مکے کے حربوں کا سہارا لیتا ہے اور اس ملک کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس صورت حال کا ایک اہم نمونہ پانچویں نسل کا انٹرنیٹ ہے، ایک بہت بڑا سودا، جس میں ہواوی (۱۵) کمپنی آگے آگے ہے۔ واشنگٹن اچھی قیمت پر بہتر مصنوعات پیش کرنے سے عاجز ہے اور انتہائی عاجزی کی حالت میں اپنے خراج گزار ممالک کو ـ اپنی مصنوعات کے نہ بکے جانے کی مصیبت کے پیش نظر ـ ہواوی کے ساتھ لین دین سے باز رکھتا ہے۔ امریکی ناامیدی، عاجزی اور بےبسی کو آپ یہاں بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ واجب الوجود یا اٹل (۱۶) [کہلوانے والا] ملک اپنے خراج گزار اور فرمانبردار ملک کینیڈا کو مجبور کرتا ہے کہ ہواوی کمپنی کے بانی کی بیٹی کو حراست میں لے لے۔
مد و جزر سلطنت امریکہ ہی کی طرف پلٹ آتا ہے۔ دو عشرے قبل یہ بات مہمل لگتی تھی کہ چین ٹیکنالوجی کے لحاظ سے امریکہ کے ساتھ مسابقت کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے؛ لیکن آج چین انتہائی تیزرفتاری سے ترقی کررہا ہے۔ یہ ملک سوپر کمپیوٹرز، چاند پر اترنے والی مشینوں (۱۷) کی تیاری اور پانچویں نسل کے انٹرنیٹ کے سلسلے میں امریکہ کے شانہ بشانہ بڑھ رہا ہے اور جینیات (۱۸) کے شعبے میں نیز عالمی درجے کی چپ سیٹس (۱۹) نیز اسمارٹ فون کی تیاری میں پہل کارانہ کردار کا حامل ہے۔ ایک دو عشرے مزید گذریں گے تو امریکہ اس میدان میں بالکل پیچھے رہ جائے گا۔
امریکی انحطاط و زوال زیادہ سے زیادہ اسی ملک سے جنم لے چکا ہے۔ امریکہ اپنی حکومت عام انتخابات کے بجائے ریاستی نمائندوں کے درمیان مسابقت کے ذریعے منتخب کرتا ہے۔ امریکہ کا تعلیمی نظام سماجی انصاف کے شعبے کے بوالہوسوں کا شکار ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید تباہی کی طرف گامزن ہے۔ واشنگٹن اپنے بنیادی ڈھانچے اور اقتصاد کی بہتری کے بجائے فوجی قوت پر خرچ کرتا ہے یہ سلسلہ سیاسی حوالے سے انارکی اور افراتفری کا باعث بنتا ہے، اس ملک کی کوئی ثابت سیاست نہیں ہے اور ہر نئی حکومت اس کی پالیسیوں کو تبدیل کردیتا ہے۔
سلطنت (۲۰) کا سب سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ “اپنے دشمنوں کو متحد نہ ہونے دو”؛ لیکن واشنگٹن کے مسلسل دباؤ کے تحت، روس، چین اور ایران امریکی سلطنت کے خلاف ایک اتحاد قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ایران، یورو ـ امریکی معاشی دنیا سے قریب تر ہوتا تو حالات بہت بہتر ہوتے لیکن یہودی ریاست (اسرائیل) امریکہ کو ہرگز ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہی رویہ روس کے ساتھ بھی روا رکھا گیا ہے، ایسا ملک جو نسلی لحاظ سے یورپ سے قریب تر ہے نہ کہ چین سے۔ امریکہ عملی طور پر اور بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ سائبریا کے نہایت وسیع اور خالی علاقوں کی سرحدیں گنجان آباد چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ واشنگٹن نے یکسان طور پر اپنے دشمنوں اور اتحادیوں کو پابندیوں کا نشانہ بنا کر عالمی معیشت سے ڈالر کے حذف کئے جانے کے عمل کی رفتار تیزتر کررہا ہے اور اس حقیقت کی عملی تصدیق کررہا ہے کہ امریکہ کسی کا اتحادی نہیں بلکہ “آقا” ہے۔
یا ابھی یا پھر کبھی بھی نہیں
اگر امریکہ اپنی عظیم مگر رو بہ زوال طاقت کی مدد سے پوری دنیا کو اپنا پابند بنانے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے تو ایشیا کی ابھرتی طاقتیں اس کو ڈبو دیں گی۔ حتی کہ بھارت بھی بڑے سے بڑا ہوتا جارہا ہے۔۔۔ صورت حال یہ ہے کہ یا تو امریکی اقتصادی پابندیاں دنیا کو زیر کرلیں گی؛ یا امریکہ عالمی جنگ کا آغاز کرے گا؛ یا پھر امریکہ مختلف ملکوں میں بٹ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فارسی ماخذ: http://fna.ir/brykcd
انگریزی ماخذ:  unz.com/freed/the-empire-now-or-never
نویسنده: فریڈ ریڈ  (FRED REED) اخبارنویس، مصنف و مترجم
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Parthian Empire
۲۔ Roman Empire
۳۔ Aztec Empire
۴۔ Habsburg Empire
۵۔ International Monetary Fund [IMF]
۶۔ The North Atlantic Treaty Organisation [NATO]
۷۔ Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication [SWIFT]
۸۔ امریکی ـ اسرائیلی تعلقات عامہ کمیٹی “آی پیک” (American Israel Public Affairs Committee [AIPAC])
۹۔ Protectorate
۱۰۔ Venezuela
۱۱۔ Geopolitical
۱۲۔ Intermediate-Range Nuclear Forces Treaty [INF treaty]
۱۳۔ Indispensable
۱۴۔ Competitiveness
۱۵۔ Huawei
۱۶۔ Indispensable
۱۷۔ Moonlanders
۱۸۔ Genetics
۱۹۔ Chipsets
۲۰۔ Empire
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/ت/۱۰۰۰۱

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی