-
Sunday, 16 August 2020، 02:16 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالات حاضرہ کے تناظر میں اس فورم پر نظریاتی افراد کے حوالے سے شاید یہ میری پہلی تحریر ہو، البتہ مزید پہلوئوں پر آئندہ لکھا جاسکتا ہے یا دیگر احباب بھی اس پر آراء پیش کرسکتے ہیں۔ امریکی سامراجیت پر ماضی میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اسکی تکرار کئے بغیر عرائض پیش خدمت ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ بائیں بازو کی سیاست کرنے والے نظریاتی اشتراکی دنیا کے ہر شر کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بحرالکاہل کی تہہ میں کوئی مچھلی بھی مرجائے تو سمجھو سامراج (امریکہ) کا ہاتھ ہے۔ ایک دور تھا کہ دنیا میں نظریاتی سیاست ہوا کرتی تھی، نظریاتی لوگ نظریئے پر تن من دھن قربان کر دیا کرتے تھے اور تب ہر نظریاتی بندہ یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ وہ جس نظریئے کا پیروکار ہے، بس وہی نظریہ انسانوں کی خوشحالی، خوش بختی و نجات کا ضامن ہے۔ نظریہ پاکستان کے بھی مخلص پیروکار ہوا کرتے تھے تو بین الاسلامی نظریہ بھی اپنے پیروکار رکھا کرتا تھا۔ لیکن آج کی صورتحال نظریات اور نظریاتی افراد کے حوالے سے برعکس ہوچکی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ماضی میں پسے ہوئے مظلوم و محروم طبقے کے حقوق کے لئے دیگر خواص کی طرح جدوجہد کرنے والے ایک سینیئر صحافی اور دانشور این جی او سے وابستہ ہوگئے تھے، انکے بارے میں پاکستان کے ایک علمی گھرانے کے فرزند اور پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت سے وابستہ موجودہ سینیٹر کا یہ جملہ بھی مجھے یاد ہے، جو انہوں نے مجھ سے بات چیت کے دوران اشارتاً کہا تھا کہ اب سامراج این جی اوز کے ذریعے عوام کے لئے اٹھنے والی آواز خاموش کر رہا ہے۔ شاید انہی ایام میں بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والے پاکستان کے مشہور مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے این جی اوز کو موضوع سخن قرار دیا تھا۔
نظریاتی افراد این جی اوز یا مغربی اداروں سے وابستگی کو سامراج کی غلامی قرار دیا کرتے تھے۔ انہی سینیٹر کا ایک اور جملہ بھی بہت یادگار ہے۔ کہنے لگے کہ جب وہ نوجوانی میں لکھنے لگے اور انکی تحریریں شایع ہونے لگیں تو وہ بڑے فخر سے داد وصول کرنے کی نیت سے اپنے والد محترم جو خود بیٹے سے زیادہ مشہور و معتبر دانشور و مذہبی عالم بھی تھے، کے سامنے اپنی تحریروں کا تذکرہ کرنے لگے تو انہوں نے بیٹے کو نصیحت کی کہ بیٹا لکھ بہت لیا، اب کچھ پڑھنا بھی شروع کردو! نظریاتی لوگ یوں ہوا کرتے تھے۔ اشتراکی نظریاتی طبقہ سوویت یونین کے سقوط کے ساتھ ہی یتیم ہوگیا۔ مال ختم نظریہ ہضم! اسلام کے نام پر نظریاتی طبقے ہائی جیک ہوئے، بے وقوف بنے یا اشتراکیوں کی طرح فروخت ہوگئے۔ نام نہاد افغان جہاد اس کی ایک مثال ہے اور پاکستان میں بھی بعض مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اس سلسلے کی زندہ مثالیں ہیں۔ اب ان میں سے کوئی ترکی کو مرکز مانتی ہیں تو کوئی سعودی عرب کو اور پھر نعرہ لگاتی ہیں، امریکہ مردہ باد جبکہ انکے دونوں مراکز کی نظر میں امریکہ و نیٹو و پورا مغربی بلاک حتیٰ کہ اسرائیل بھی زندہ باد ہے۔ یعنی اب ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ سہولیات کے ساتھ وقت گذاری کی کیفیت ہے۔
اگر بڑے پیمانے پر معروضی جائزہ لیں تو دنیا میں خالص نظریاتی طبقہ اب صرف ایران یا لاطینی امریکہ میں ہی پایا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ نظریات سے وابستگی ہی ان دونوں کا وہ جرم ہو کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ نے اپنی تمام تر توانائیاں انکے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ کتاب ’’اکنامک ہٹ مین‘‘ اور اس کے تسلسل میں دوسری کتاب ’’ہٹ مین کے اعترافات ‘‘میں جون پرکنز نے اپنی جو داستان بیان کی ہے، اگر وہ اپنی روداد نہ بھی لکھتے، تب بھی عالمی مالیاتی سامراج کے سرغنہ امریکہ کو دنیا ویسے ہی کردار کا حامل سمجھتی ہے، جیسا پرکنز نے لکھا۔ جو کوئی اسکی روداد سے آگاہ ہے، وہ آج وینزویلا کا حال دیکھ لے۔ امریکی سامراج کے خلاف مقاومت کی علامت ہیوگو شاویز کا وطن آج ٹرمپ حکومت تقریباً فتح کرچکی ہے۔ ایک امریکی منظور نظر نے اعلان کیا کہ وہ وینزویلا کا صدر ہے تو امریکی حکومت نے دنیا میں سب سے پہلے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ لاطینی امریکی ممالک اپنی تاریخ سے لاعلم نہیں، انہیں معلوم ہے کہ انکے خطے میں سی آئی اے کس طرح حکمران اور حکومتیں تبدیل کرواتی رہی ہے۔ صرف کیوبا اور میکسیکو نے امریکی منظور نظر کے اس اعلان کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ شاویز کے جانشین وینزویلا کے صدر ماڈورو نے امریکی سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے، جبکہ امریکی حکومت اس حکم کو ماننے سے انکاری ہے۔ یوں خطہ امریکہ میں ایک سنگین بحران جنم لے چکا ہے۔
ایران پر ایک پیچیدہ نوعیت کی امریکی جنگ پچھلے چالیس برسوں سے مسلط ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ امریکی بلاک ایران کے خلاف کوئی نئی سازش نہ کرتا ہو۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے آنے کے بعد کی صورتحال ہی دیکھ لیں۔ ایران کے خلاف مزید نئی کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔ پومپیو نے بیلجیم کا دورہ کیا، اسکے بعد بیلجیم نے ایران کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا۔ پومپیو کے ماتحت ڈیوڈ ہیل نے جرمنی کا دورہ کیا اور جرمنی نے ایران کی ماہان ایئرلائنز پر پابندی لگا دی۔ اب امریکہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ایران کے خلاف اجتماع منعقد کر رہا ہے، جس پر یورپی اتحادی کہتے ہیں کہ اس کا ایجنڈا تھوڑا تبدیل کر دیں اور شام و یمن و مشرق وسطیٰ کا نام استعمال کریں، ایران کا نام استعمال نہ کریں، حالانکہ یہ بھی ایک فریب ہے، ایران پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ امریکہ سے متفق نہیں، حالانکہ تاحال انہوں نے امریکہ سے عملی بغاوت نہیں کی ہے بلکہ خالی بیانات کے میزائل داغے ہیں۔ حتیٰ کہ پریس ٹی وی کی خاتون اینکر مرضیہ ہاشمی کی بلا جواز گرفتاری کے خلاف بھی حقوق انسانی و آزادی صحافت کے علمبردار مغربی بلاک کی طرف سے مجرمانہ خاموشی پر دنیا حیران پریشان تھی۔ خیر سے وہ اب رہا ہوچکی ہیں۔
پومپیو کے دورے کے بعد امریکی حکومتی عہدیداروں اور خاص طور پر زلمے خلیل زاد کا بار بار پاکستان آنا، سینیٹر لنڈسے گراہم کا وزیراعظم عمران خان کی مدح سرائی کرنا، اور عمران خان کا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور قطر کا دورہ کرنا، یہ سب کچھ کس لئے ہو رہا ہے، اس کا اصل سیاق و سباق کوئی خالص نظریاتی پاکستانی ہی سمجھ سکتا ہے۔ سب کچھ امریکی حکومت ہی کی خوشنودی کے لئے ہے۔ باقی سب قصے کہانیاں ہیں۔ امریکیوں کا لارا لپا نظریاتی پاکستانیوں کو اس کی بدنیتی سے غافل نہیں کرسکتا۔ سینیٹر لنڈسے گراہم کو اگر امریکہ کا شیخ رشید کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ یو ٹرن لینا کوئی ان سے سیکھے۔ ماضی میں ڈونالڈ ٹرمپ کے جس موقف کی مخالفت کرتے تھے، آج اسی کی حمایت پر کمربستہ ہیں۔ انکے دورہ پاکستان کی خبر آج اس وقت تک انکے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور انکی آفیشل ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے، لیکن پاکستان میں سرکاری ذرایع دعوے کر رہے ہیں کہ لنڈسے نے پاکستان اور امریکہ کے مابین آزاد تجارت کے معاہدے کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے، جبکہ امریکہ میں انہیں موقع پرست (با الفاظ دیگر ابن الوقت) قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو گدھا کہا تھا۔
ڈیوڈ ہیل کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے بھی لبنان کا دورہ کیا۔ موصوف پاکستان بھی آئے تھے۔ قطر بھی امریکی اتحادی ہے اور اس کے امیر لبنان میں عرب اقتصادی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوکر امداد کا اعلان کرچکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت بیک وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور قطر کے ساتھ تعلقات کو بہتر کر رہی ہے جبکہ قطر اور ترکی اخوانی سرپرست سمجھے جاتے ہیں، جبکہ سعودی و اماراتی حکمران قطر کے خلاف صف آراء ہیں اور ترکی کے خلاف بھی بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ سوائے اسکے کیا قدر مشترک ہے کہ یہ چاروں ملک امریکی اتحادی ہیں اور چونکہ ایران امریکی اتحادی نہیں ہے، اس لئے اس کے دورے کی باری آخر میں ہی آئے گی، حالانکہ زمینی و سمندری و فضائی ہر لحاظ سے ایران کا پڑوسی ہونے کے ناطے پہلا حق ہے۔ ایک پہلو تو یہ ہے جبکہ دوسرا یہ کہ پاکستان تا لبنان بذریعہ قطر و امریکہ بھی کوئی ربط پایا جاتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کاش کہ پاکستان سے مخلص نظریاتی افراد بھی اپنی موجودگی کا احساس دلائیں اور سامراجیت کے براہ راست اور بذریعہ بچہ پارٹی منصوبوں سے عوام الناس کو آگاہ کرکے ذمے داری کا احساس دلائیں اور ان منصوبوں کو ناکام بھی بنائیں۔
جعلی ریاست اسرائیل آج کل بیانات کے چوکے چھکے مار کر خوش ہو رہی ہے، وہ اپنی جھینپ مٹا رہی ہے۔ ایران کے خالص و مخلص نظریاتی طبقے نے اپنی چالیس سالہ جدوجہد میں کم از کم چار ملکوں یعنی لبنان، عراق، شام اور یمن کو مغربی بلاک کی سازشوں سے اس درجہ ضرور محفوظ کر دیا ہے کہ وہاں اب فرزندان زمین اپنی غیرت و حمیت کو امریکہ یا اس کی بچہ پارٹی کے قدموں میں رکھنے پر ہرگز تیار نہیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان فرزندان زمین نے حق و آزادی یا موت کا طبل مقاومت بجا رکھا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم اور فوجی ترجمان کبھی امریکہ کے یہودی کالم نگار تھامس فریڈ مین سے ہی پوچھ لیں کہ اسرائیل کے کٹر حامی فریڈ مین کو اسرائیلی حکام نے ایران و حزب اللہ (لبنان) کی فوجی طاقت کے حوالے سے کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ یہ تو اسرائیلیوں کو بھی معلوم ہے کہ ایران کی قوت و طاقت کیا ہے، مگر آج کل صہیونی حکومت خود ہی خود کو ڈھارس دے رہی ہے۔ شام پر حملے، شام میں ایرانی فوجی مشاورتی عملے پر حملے، ایران کو نقشے میں دکھانا، نفسیاتی جنگ کا وہ ہنر ہے، جس کو اب شاید داد دینے والے بھی نہ ملیں۔
فلسطین پر قابض جعلی ریاست امریکہ ہی کے آسرے پر ہے، ورنہ اس میں تو اتنا بھی دم خم نہیں کہ حماس و حزب اللہ و حزب جہاد اسلامی کے عام سپاہیوں کے سامنے ٹک بھی سکے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے سمجھنے کے لئے ایک خالص نظریاتی نظر چاہیئے۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم خالص و مخلص نظریاتی طبقے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، وہ عادل مزاج نظریاتی افراد کہ جو حق پر مبنی نظریہ پر پوری زندگی گزار دیتے ہیں، سرنگوں نہیں کرتے، خواہ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے۔ یہ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے حقیقی پیروکار ہیں کہ دشمن ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دے تب بھی یہ متعہد نظریاتی طبقہ اپنے آقا و مولا کی سنت کی پیروی پر ثابت قدم رہتا ہے۔ لاطینی امریکہ کے نظریاتی طبقے کو بھی ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے، ان کے مابین مکالمے کا نیا دور ہونا چاہیئے، تاکہ امریکہ کو امریکہ کے اطراف سے ہی اس کی سامراجیت کا اور زیادہ موثر جیسے کو تیسا جواب ملے۔ پاکستان، ایران، عراق، شام، یمن، بحرین، فلسطین، لبنان اور وینزویلا سمیت ہر ملک کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ امریکہ کے شر سے نجات دے۔