-
Sunday, 23 August 2020، 02:06 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودیوں اور یورپی حکمرانوں کا آپسی رشتہ ۹ ویں صدی عیسوی کی طرف پلٹا ہے۔ لیکن یہ رشتہ اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب دسویں اور گیارہویں صدی میں ان کے باہمی تجارتی امور بین الاقوامی سطح تک پھیل جاتے ہیں۔ سن ۱۰۸۴ میں جرمنی کے شہر ‘اسپیر’ کا حاکم یہودیوں کو اس شہر میں اقامت پذیر ہونے کی اجازت اور سماجی اور اقتصادی میدان میں سرگرمیوں کی مطلق آزادی دے دیتا ہے یہاں تک کہ یہودیوں کے ساتھ ان کے دین یہودیت کے قوانین کے مطابق برتاو کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کے لیے یہ کھلی فضا اور ماحول اس بات کا سبب بنا کہ جرمنی میں رہنے والے یہودیوں نے بغداد اور اندلس میں بسنے والے یہودیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ جوڑ کر سود کی بنا پر تجارت کا ایک عالمی چینل قائم کیا۔
گیارہویں صدی کے اواخر میں صلیبی جنگوں کے آغاز سے ہی یہودیوں کے درمیان سود خوری کی بیماری تیزی سے پھیل گئی جس کی بنا پر وہ یورپ کی معیشت میں اپنا پنجہ گاڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مغربی فوجیں جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پیسے کے ضرورتمند تھیں۔ یہودی ان کی اس ضرورت کو پورا کرتے اور جنگوں کے بعد مال غنیمت سے سود سمیت اپنے اصلی سرمایہ کو واپس لے لیتے۔ لہذا اندلس پر حملے اور سمندر پار علاقوں پر ہسپانیہ اور پرتگال کی جارحیت میں یہودیوں کی سرمایہ کاری اہم کردار ادا کرتی تھی۔
در حقیقت مغربی یہودی، مشرقی یہودیوں کے ساتھ گہرے اور وسیع تعلقات کی بنا پر شہہ سواروں (۱) کی مالی امداد کرتے تھے اور مقابلے میں جنگوں سے حاصل شدہ مال غنیمت سے اپنا حصہ لیتے تھے یا جنگ کے بعد اپنے ابتدائی سرمایے کا سود دریافت کر لیتے تھے۔ البتہ شہہ سواروں کے لیے بھاری مقدار میں سود کی ادائیگی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھی۔ اس لیے کہ ان کے پاس لوٹا ہوا مال اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ وہ اصلی سرمایے کو سود کے ساتھ واپس لوٹانے کے علاوہ حکومت کے خزانوں کو بھی بھر دیتے تھے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ عیسائیوں اور غیر یہودیوں کو سود پر پیسہ دینے اور ان سے جتنا ممکن ہو سود کمانے کا جواز حتیٰ یہودیوں کی فقہ میں موجود ہے اور یہودی ربیوں “یعقوب بن مہ یر” اور ” داوود کہمی نور بونی” نے اس بارے میں فتاویٰ بھی دئے ہیں۔
لیکن یہ نکتہ حائز اہمیت ہے کہ سود خوری عیسائیت میں بھی اسلام کی طرح حرام اور ممنوع ہے۔ لہذا مغربی ممالک میں سود خوری عیسائیوں کے اندر اس وقت رائج ہوئی جب مغرب پر سیکولر نظام حکومت حاکم ہوا اور دین اور شریعت کو حکومتی سسٹم سے نکال باہر کر دیا گیا۔
ترجمہ؛ خیبر تحقیقاتی ٹیم
منبع: زرسالار یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، ج۲، ص۱۰۹-۱۰۶٫
۱۔ یہ ایک اعزازی خطاب ہے جو کسی بادشاہ یا سیاسی رہنما کی طرف سے کسی بھی ایسے شخص کو عطا کیاجاتاتھا جو بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج یا ملک کی خدمت بالخصوص فوجی خدمت انجام دیتاتھا۔ عمومی طور پر صلیبی جنگوں کے دوران ہیکل کے لیے جنگ لڑنے والوں کے لیے یہ لقب/خطاب استعمال ہوتاتھا۔ قرون وسطیٰ متوسط میں کمتر درجے کے اشرافیہ کو بھی بطور شہہ سوار خدمتگار تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم بعد کے زمانے میں یہ خطاب /لقب اعلیٰ پائے کے گھڑسواروں اور مسیحی جنگجوؤں کے لیے شاہی ضابطہءاخلاق/قانون کی صورت اختیار کرگیا۔ زمانہء جدید اولیٰ میں یہ خطاب خالصانہ طور پر ایسے لوگوں کو دیا جاتاتھا جو بادشاہ کے احکام کی تعمیل کرتے تھے بالخصوص برطانوی دربار میں بادشاہ کے لیے خدمت کرنے( خواہ وہ خدمت جنگ کی صورت میں ہو یا دیگر صورت میں ) والے افراد کو دیاجاتا تھا اور بدلے میں انکو جاگیریں عطاکی جاتی تھیں جہاں وہ لوگوں پر حاکم ہوتے تھے۔