-
Wednesday, 26 August 2020، 02:26 AM
خیبر تجزیاتی ویب گاہ: واقعہ کربلا اگر چہ سن ۶۱ ہجری میں رونما ہوا اور طلوع آفتاب سے لیکر عصر عاشور کا سورج ڈھلنے سے پہلے پہلے سب کچھ ختم ہو گیا لیکن عاشور کا یہ ایک دن دنیا زمانے پر محیط ہو گیا اور ایک مشعل فروزاں کی صورت تاریخ میں درخشاں و تابندہ ہے اور کوئے حق و حقیقت کو تلاش کرنے والوں کے لئے نور افشانی کر رہا ہے ۔
سید الشہداء علیہ السلام نے حق پرستوں کے باطل پرست طاقتوں سے تقابل کی ایسی حکمت عملی اپنے خون شہادت سے حیات انسانی کے لوح زریں پر رقم کر دی کہ رہتی دنیا تک حق پرستوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ اور تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی اکثریت کو خون کی دھار سے مات کر دینے کا عزم سکھاتی رہے گی ، شک نہیں کہ شہید قلب تاریخ ہے اور تاریخ کے دل ہونے کا مطلب ہے اس کے بغیر تاریخ مردہ ہے ۔ اس کے بغیر تاریکی ہی تاریکی ہے شہید وہ نور ہے جو ظلمت میں چمکتا ہے تو ظلمت کدے ویران ہو جاتے ہیں وہ فریاد ہے جو سکون و جمود میں بلند ہوتی ہے تو تہجر و جمود کے پہاڑ پانی پانی ہو جاتے ہیں اور ہر طرف حرکت ہی حرکت ہوتی ہے ۔
کربلا کی یہ آفاقیت ہے کہ ماہ و سال گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ اسکا رنگ پھینکا نہیں پڑتا بلکہ ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اور نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے ۔ اور ہر آنے والا موسم عزا پچھلے سال سے با رونق و با عظمت ہوتا ہے اس لئیے کہ ہرآنے والا عزا کا موسم اپنے ساتھ زندہ قدروں کو لیکر آتا ہے جس میں کربلا سے جڑے واقعات ہمیں عالی ترین انسانی قدروں کے تحفظ کا درس دیتے ہیں ۔
حق و باطل کے مقابلہ میں مکتب شہادت کی جاودانگی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دنیا کے تمام مکاتب فکر کے درمیان اپنے اس لازوال مکتب سے تعلق خاطر پر فخر کریں اور کوشش کریں کہ اس کی تعلیمات کو عام کیا جا سکے ۔
تحریک کربلا انسانیت کے لئیے لا زوال نمونہ :
تاریخ انسانیت میں جتنی بھی الہی تحریکیں رونما ہوئی ہیں جنکے اندر ایک پاکیزگی و تقدس کا عنصر شامل رہا ہے اور انہوں نے انسانیت کے لئے کچھ کیا ہے، چاہے وہ تحریک ابراہیمی ہو یا فرعون وقت کے مقابل جناب موسی کا انقلابی آہنگ ان ابتداء آدم سے آج تک رونما ہونے والی ہر تحریک کا اگر کہیں نچوڑ نظر آتا ہے تو وہ کربلا ہے، اور اسکی دلیل کربلا کی یہ چار بنیادیں ہیں
۱۔ عشق الہی ونفاذ عدالت :
اس لئیے کہ یہ وہ تحریک ہے جس میں محض اور محض ذات پروردگار محور قرار پائی اور اسی لئیے اس کی بنیاد عدالت پر ہے اور کیوں نہ ہو جب انسان عشق الہی میں ڈوب کر بندگی کی راہوں میں قدم رکھے گا تو اسکا لازمہ ہی ظلم و ستم سے مقابلہ اور توحید کے پرچم کو بلند کر کے دنیا میں عدل و انصاف قائم کرنے کی صورت میں سامنے آئے گا ۔
۲۔آفاقیت وجاودانگی :
کربلا کوئی ۶۱ ہجری کا واقعہ نہیں آج بھی نظام ظلم کے خلاف اس کی گھن گرج کو سنا جا سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت و وحشت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بجلی کی مانند کہیں گرج و روشنی دکھائی دیتی ہے تو کربلا پر منتہی ہوتی ہے۔
۳۔ مفاد پرستی کے مقابل حق پرستی کی منطق :
آج جب لوگ عقل و منطق کی لگام ہر اس جگہ چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے مفادات عقل و منطق و اصولی بات سے ٹکرا جائیں اسی مقام پر کربلا اعلان کرتی ہے کہ ہرگز حق پرستی کا سودا کسی بھی چیز سے ممکن نہیں کہ حق پرستی سے بڑھ کر قیمتی کچھ نہیں ہے اس لئیے کہ کربلا بندگی کا وہ مزاج حاکم ہے جہاں خود کو آگے رکھ کر بندگی نہیں بلکہ خود پر دوسروں کو مقدم کر کے اللہ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے یہاں کہیں وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ [۱] کی عملی تصویر ملتی ہے تو کہیں ویطعمون الطعام علی[۲] حبہ کا مزاج حاکم ہے۔
مفاد پرستی کا گزر یہاں کہاں، یہاں تو سب کچھ قربان کر دینے کے بعد بھی احساس ندامت رہتا ہے کہ مالک قربانی تو دے دی لیکن معلوم نہیں حق ادا ہوا یا نہیں ؟
۴۔ بصیرت و عمق :
بصیرت و گہرائی کربلا کی وہ بنیاد ہے جو اس تحریک کو ہر دیگر واقعہ و تحریک سے ممتاز بناتی ہے اس لئے کہ جس عمق و بصیرت کا مظاہرہ کربلا والوں نے کیا اس کی نظیر کہیں اور نظر نہیں آتی یہ وہ بصیرت جسے کہیں قرآن نے جناب ابراہیم کے لئے رشد[۳] کی حیثیت سے بیان کیا ہے تو کہیں سورہ کھف میں و زدناھم ھدی [۴]کے ذریعہ اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی بنیاد پر یہ واقعہ گزر زمان کے ساتھ پرانا نہیں ہوتا بلکہ ہر نیا طلوع ہونے والا سورج اس کی تازگی وطراوت کا سبب بنتا ہے۔
کربلا کی یہ وہ چار بنیادیں جنکی بنا پر آج ہر عدل و انصاف پر مبتنی دنیا میں اٹھنے والی ہر تحریک اپنے اندر وہ جوالا مکھی لیکر آتی ہے کہ قصر ستم و جور پر لرزا طاری ہو جاتا ہے ۔
ہمارے لئے کربلا کا وجود ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو حقیقی تصور حیات سے آشنا کر کے ہمیں کیڑے مکوڑوں کی زندگی سے علیحدہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ہر اس جگہ کھڑے نظر آتے ہیں جہاں کسی پر ظلم ہو رہا ہو کوئی ہو یا نہ ہو کربلائی تعلیمات ہم سے یہ کہتی ہیں کہ وہاں تم سب سے پہلے پہونچو جہاں انسانیت کو تمہاری ضرورت ہو اور رخسار ستم پر پڑنے والا سب سے پہلا طمانچہ بھی تمہارا ہی ہونا چاہیے ۔
کربلا سے باطل پرست طاقتیں اس لئے ڈرتی اور گھبراتی ہیں کہ کربلا ان کے چہرے نقاب الٹ کر انکی حقیقت کو ظاہر کرنے والی تحریک کا نام ہے کل بھی دشمنوں نے کربلا کی آواز کو دبانےکی کوشش کی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔
آج ایک بار پھر کربلائی مزاج کا ہم سے مطالبہ ہے دشمنوں کے حیلوں اور انکی نیرنگی چالوں سے نہ گھبراتے ہوئے جہاں بھی ظلم ہو ظالم کو بے نقاب کرنا تمہاری ذمہ داری ہے ۔ میانمار و میں روہنگیائی مسلمانوں کے قتل عام پر دیگر لوگوں نے بھی زبانی جمع خرچی کی اور کربلائی طرز فکر نے بھی اسکی مخالفت کے ساتھ عملی چارہ جوئی کی جہاں کربلائی فکر حاکم تھی وہاں سے ضرورت مندوں کے لئے رسدبھی ارسال کی گئی، حکومتی پیمانہ پر ہم نوا ملک کے ساتھ مل کر لائحہ عمل بھی بنا پارلیمنٹ سے لیکر وزارت خارجہ تک نے سلامتی کونسل و اقوام متحدہ اور ان کے مربوط اداروں میں مکاتبات بھی کئے اور سوچی جیسی سفاک کے چہرہ سے یہ کہہ کر نقاب بھی الٹی گئی کہ اس بے رحم عورت کی بے رحمی نوبل انعام کا خون کر دیا اور اسکی بے رحمی کو بھی واضح کیا گیا لیکن افسوس چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر بکھیڑا کھڑا کر دینے والا میڈیا خاموش رہا اور اسے زبانی جمع خرچ کرنے والے ایسے ممالک تو ضرور نظر آئے جو پہلے ہی امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں اور اس کے اشاروں کے بغیر ان کے یہاں پتہ بھی نہیں ہلتا لیکن انہیں کربلائی فکر رکھنے والا وہ ملک نظر نہیں آیا جس نے حکومت کی ہر سطح پر میانمار کے سلسلہ سے عملی اقدامات کئیے جسکا ایک ثبوت بنگلا دیش کو بھیجی جانے والی امدادی کھیب ہے جو روہنگیائی مسلمانوں ہی کے لئیے بھیجی گئی جو بنگلا دیش میں انتہائی بری حالت میں اپنے بھائیوں کی مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ علاوہ از ایں یمن کے مظلوم عوام کی مدد ہو، کہ غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی پرسان حالی وہی ملک آگے نظر آتا ہے جسکا انقلاب کربلا سے فروغ حاصل کرنے کے بعد آج دنیا کا تنہا انقلاب ہے جو اپنے بل پر تمام محاصروں کے بعد کھڑا ہوا توحید پروردگار کا ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے ۔ اور یہ محض خاص انقلاب کی بات نہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق ہو بلکہ جہاں بھی کربلا ہے وہاں یہی چیز حاکم ہے کربلائی مزاج ہم سے جہاں ظالموں سے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے او ر مظلوم کے ساتھ دینے اور مظلومین جہان کی حمایت میں اٹھ کھڑے رہنے کا مطالبہ کرتا ہے وہیں ہم سے یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے اطراف میں رونما ہونے والی دشمن کی شاطرانہ چالوں پر نظر رکھو اور ہرگز انہیں اپنے ہدف میں کامیاب نہ ہونے دو کہ کربلا کی بنیادوں میں ایک اہم عنصر بصیرت و عمق ہے جسکا فقدان یزیدیت کے مسلط ہونے کا سبب بنتا ہے ۔
حواشی :
[۱] ۔ َوالذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۰ۭۣ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰىِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ , ترجمہ : اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں ۔ سورہ حشر آیت ۹
[۲] ۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَـتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا
اِنَّمَا نُـطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُکُوْرًا
۔ اور اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں ۔
۔ (وہ ان سے کہتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔ ۸،۹ سورہ انسان
[۳] ۔ وَلَـقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰہِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ
اور بتحقیق ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے کامل عقل عطا کی اور ہم اس کے حال سے باخبر تھے۔ انبیاء ۵۱
[۴] ۔ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَہُمْ بِالْحَقِّ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًى
وَّرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا
۔ ہم آپ کو ان کا حقیقی واقعہ سناتے ہیں ، وہ کئی جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے انہیں مزید ہدایت دی۔
۔ اور جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا پس انہوں نے کہا: ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے، (اگر ہم ایسا کریں ) تو ہماری یہ بالکل نامعقول بات ہو گی۔ ۱۳ ۔ ۱۴ کھف
بقلم سید نجیب الحسن زیدی