-
Wednesday, 2 September 2020، 12:33 AM
بقلم میلاد پور عسگری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سولہویں صدی عیسوی تک ایشیا میں تجارت مسلمان تاجروں کے ہاتھ میں تھی۔ یہاں تک کہ مغربی بازار بھی ایشیائی تجارت سے بے حد متاثر تھے۔ اس درمیان جینوا اور وینس کے تجار اور اٹلی کے یہودی سب سے زیادہ دلالی کا کام کرتے تھے اور مسلمانوں کے تجارتی سامان کو مغربی بازار میں منتقل کرتے تھے۔
ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت کے صرف تین بنیادی راستے تھے اور اٹلی سے جڑے ہوئے تھے اور یورپ کے دیگر ممالک کو ایشیائی سامان خریدنے کے لیے اٹلی ہی جانا پڑتا تھا بلکہ یوں کہا جائے کہ اٹلی یورپ کو ایشیا سے ملانے والا تنہا ملک تھا۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنی کہ یہ ملک اپنے زمانے میں مغربی سیاست اور کلچر کے مرکز میں تبدیل ہو جائے۔ ایک جرمن محقق ’’زیگریڈ ہونکہ‘‘ کے بقول اگر مسلمانوں کی تجارت نہ ہوتی تو مغرب، آج مغرب نہ ہوتا۔
تجارت کے ان راستوں میں ایران اپنی دوبندر گاہوں؛ ہرمز اور کیش کی وجہ سے رابطہ کردار ادا کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ایران اس تجارت کے قلب میں واقع تھا۔ اسی وجہ سے بعد میں پرتگالیوں اور ہالینڈیوں نے ایران کی طرف بھی ہاتھ بڑھانا شروع کر دئے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ صدی وہ صدی ہے جس میں مغرب کی تجارت یہودیوں کے ذریعے عروج پکڑ رہی تھی۔
الزبتھ اول کا دور (۱۶۰۳-۱۵۵۸) برطانوی نوآبادی سلطنت کی شروعات تھی۔ اسی دور میں سلطنتی خاندان نے مغرب میں ’غلاموں‘ کا تجارت کا کاروبار شروع کیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے برطانوی دربار میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ملکہ سے خود کو اتنا نزدیک کیا کہ وہ عبری زبان سیکھنے کی شوقین ہو گئی۔
جب الزبتھ نے برطانیہ کی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تھی تب اس ملک کی معیشت انتہائی بدحالی کا شکار تھی لہذا درباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے سمندروں میں تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا یا پھر غلاموں کی تجارت کے ذریعے اپنے اخراجات پورے کئے جاتے تھے۔ اس دور میں ’’سر جان ہاوکینز اور سر فرانسیس ڈریک‘‘ ملکہ کے نزدیک دو اہم افراد شمار ہوتے تھے، ہاوکینز نے برطانیہ اور جنوبی امریکہ کے درمیان تجارتی سلسلہ کی بنیاد رکھی علاوہ از ایں الزبتھ کے ذریعے انجام پانے والی غلاموں کی تجارت کی سرپرستی بھی ان کے ذمہ تھی۔ ’ڈریک‘ بھی ان ایام میں ملکہ کا درباری کتا تھا جو ان کے حکم سے تجارتی کاروانوں پر ڈاکہ ڈالتا تھا۔
برطانیہ کی سمندری ڈاکہ زنی ۱۵۷۸ سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ امریکہ کی سرحد تک جڑا ہوا تھا۔ یہ چیز باعث بنی کہ اس ملک خصوصا ملکہ کے دربار کو فراوان مال و دولت حاصل ہو سکے۔ برطانیہ کی یہ غارتگری اور اقتدار میں وسعت اس بات کا سبب بنی کہ ہسپانیہ کا بادشاہ، ایشیا اور امریکہ کے درمیان اپنے تجارتی واسطہ کا تحفظ کرے جو البزتھ کے نزدیک سخت دشمنی کا باعث بنا۔
ہسپانیہ کے زیر تسلط مغربی علاقوں میں ملکہ الزبتھ کے شرانگیز کارنامے سبب بنے کہ ۱۵۸۵ میں ان دوملکوں کے درمیان بیس سالہ طولانی جنگ کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ بیس سال جنگ کے بعد برطانیہ کی بحریہ ہسپانیہ کی طاقتور کشتی ’آرماڈا‘ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ برطانیہ کا ایشیا اور آدھی دنیا کی تجارت پر سوسالہ قبضے کا نقطہ آغاز تھا۔
منبع: زرسالاران یهودی و پارسی، شهبازی، عبدالله، موسسه مطالعات و پژوهشهای سیاسی، تهران، چاپ اول: ۱۳۷۷، ص۷۰-۴۱٫