-
Saturday, 29 August 2020، 03:08 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایک سوال ہر محقق اور مؤرخ کے ذہن میں اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ امت مسلمہ میں یہودی اثر و رسوخ کا آغاز کب سے ہوا؟ تو جواب یہ ہے کہ اگر تاریخ سے رجوع کیا جائے تو بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہودی ـ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ولادت سے باخبر تھے، اور انہیں معلوم تھا کہ آپ مدینہ ہجرت کریں گے اور آگے کیا ہوگا اور قرآن کریم کی گواہی کے مطابق تو “وہ لوگ جنہیں اللہ نے کتاب دی ہے، اس رسول کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بلاشبہ ان میں ایک جماعت دانستہ طور پر حق کو چھپاتی ہے”۔ (۱) چنانچہ تاریخ بیان کرتی ہے کہ یہودی علماء نے رسول اللہ(ص) کی ولادت کے وقت مکہ مکرمہ میں حاضر ہوکر آپ کے بارے میں تحقیق کی اور حتی کہ آپ کی زیارت بھی کی۔
مروی ہے کہ حضرت محمد(ص) کی ولادت کے بعد، ایک روز ایک یہودی عالم دارالندوہ میں حاضر ہوا اور حاضرین سے پوچھا کہ “کیا آج رات تمہارے ہاں کسی فرزند کی ولادت ہوئی ہے؟”، سب نے نفی میں جواب دیا۔ کہنے لگا کہ اگر نہیں ہوئی ہے تو فلسطین میں ہوئی ہوگی، ایک لڑکا جس کا نام “احمد” ہے اور یہود کی ہلاکت اسی کے ہاتھوں ہوگی۔ پوچھ گچھ کے بعد معلوم ہؤا کہ عبداللہ بن عبدالمطلّب کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت ہوئی ہے۔ یہودی عالم کی درخواست پر اسے نومولود کے پاس لے جایا گیا۔ وہ طفل کو دیکھتے ہی بےہوش ہوگیا۔ جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا: خدا کی قسم نبوت قیامت تک بنی اسرائیل سے چھین لی گئی۔ یہ وہی شخص ہے جو بنی اسرائیل کو نیست و نابود کرے گا۔ قریش نے یہ خبر سن کر خوشی کا اظہار کیا تو اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! جو سلوک یہ بچہ تمہارے ساتھ کرے گا مشرق اور مغرب والے اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ (۲)
اس کے بعد یہودیوں نے جس طرح کہ حضرت ہاشم، حضرت عبدالمطلب اور حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب پر قاتلانہ حملے کئے تھے، جب آپ اپنی رضاعی ماں کے پاس تھے تو آپ کے قتل کا بھی بندوبست کیا اور ساتھ ہی مدینہ میں وہ اوس و خزرج سے کہتے رہے کہ ایک نبی کا ظہور ہورہا ہے جس کی ہم حمایت کریں گے۔۔۔ لیکن جب آپ مدینہ تشریف لائے تو ان کی سازشیں شروع ہوئیں اور جنگ بدر کے بعد تمام جنگوں میں قریش کو اکساتے رہے؛ جنگ احزاب قریش اور مسلمانوں کی آخری جنگ ثابت ہوئی اور اس کے بعد مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی براہ راست جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا جو فتح خیبر تک جاری رہا۔
مذکورہ بالا سطور سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں نے عرب اور قریش کے درمیان کافی اثر و رسوخ بڑھایا تھا اور جن مشرکین کو وہ مسلمانوں کے خلاف لڑاتے رہے تھے وہی بعد میں طوعاً یا کرہاً مسلمان ہوئے لیکن یہودیوں سے ان کے تعلق کے خاتمے کی کوئی خبر تاریخ میں درج نہیں ہوئی چنانچہ سوال کا جواب یہ ہوگا کہ امت مسلمہ میں یہودیوں کا نفوذ اور اثر و رسوخ تاریخ اسلام سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
بایں حال جب ہم اموی اور عباسی منشیوں اور مستوفیوں کی لکھی ہوئی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو بڑے بڑے لکھاری یہودی نفوذ کی پردہ پوشی کرتے نظر آتے ہیں اور چلتے چلتے یہ تاریخ جب کربلا اور عاشورا تک پہنچتی ہے تو سرکاری منشیوں اور درباری علماء کی لکھی تاریخ میں یہودیوں کا کردار چھپانے کے لئے بطور مثال شیعوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ گوکہ یہودی کردار چھپانے کے ساتھ ساتھ اموی کردار کو بھی چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے یا یوں کہئے کہ یہ دو کردار اس قدر یکسان ہیں کہ ایک کے کردار کو چھپاتے ہوئے دوسرے کے کردار کو بھی چھپایا جاسکتا ہے، لیکن تاریخ جس کی بھی لکھی ہوئی ہو، کچھ حقائق ادھر ادھر سے مل ہی جاتے ہیں جو گوکہ تاریخ کربلا کے ضمن میں بیان نہیں ہوئے لیکن دوسرے واقعات کے تذکرے میں ان کا پتہ مل ہی جاتا ہے۔
(جاری ہے)
حواشی
۱۔ الَّذِینَ آتَیْنَاهُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِیقاً مِّنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ (سورہ بقرہ، آیت ۱۴۶)
۲۔ کلینی، الکافی، ج۸، ص۳۰۰؛ طوسی، الامالی، صص ۱۴۵ و ۱۴۶۔