-
Saturday, 29 August 2020، 03:10 AM
ایام اور مہینے اور مناسبتیں آتی ہیں اور ہم ان سے گذر جاتے ہیں لیکن ہم ان سے غفلت برتتے ہیں، رمضان سے، عید قربان سے، عید غدیر سے اور محرم سے، اسباب کے انکشاف کی طرف توجہ نہیں دیتے، صرف تکریم و تعظیم شعائر کو مقص قرار دیتے ہیں؛ خوشی مناتے ہیں یا پھر سوگ مناتے ہیں، اسی وجہ سے ہم انفعالیت کا شکار ہیں، اور واقعات و حوادث کے حلقے کھو جاتے ہیں۔
ہم انسان کے آنے اور جانے کے سلسلے میں اللہ کی تقدیر عام اور الہی منصوبے سے بےخبر ہیں، اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں اور عوام کی غفلت [منشیوں اور مستوفیوں کی لکھی ہوئی تاریخ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے اور انسان کی حیات و ممات کے لئے اللہ کی متعین کردہ تقدیر عام سے بےخبر] صاحبان قلم اور واعظین و خطباء کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ اسی وجہ سے عوام واقعات کی ظاہری صورت کو مطمع نظر قرار دیتے ہیں اور واقعات کی حقیقت کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ روایات و احادیث میں اللہ کی تقدیر عام اور عام منصوبہ واضح ہے اور انبیاء اور اولیاء کی میراث کے طور پر اسلاف سے اخلاف کی طرف منتقل ہوکر آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ ـ جو دین کی تکمیل کے لئے آئے ہیں ـ تک پہنچ چکا ہے اور بالآخر بالواسطہ طور پر اوصیائے نبی علیہم السلام کے توسط سے پیغمبر کے وصی آخرالزمان تک ـ جو کہ صالحین کی عالمی حکومت کو قائم کرنے والے ہیں ـ تک منتقل ہوچکا ہے۔
ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام دین اسلام کے بانی ہیں، اور یہ دین دوسرے قدم میں، بعثت محمدی(ص) کے ذریعے مکمل طور پر ظہور پذیر ہوا ہے۔
ابراہیم(ع) کے زمانے میں بنی نوع انسان کے مسقبل کے سلسلے میں ظہور کے زمانے اور صالحین کی عالمی حکومت کے قیام تک کا الہی منصوبۂ عام بیان ہوا اور چند خاص اعمال اور مناسب کے ذریعے اس کی ابتدائی بنیادیں استوار ہوئیں جو آج بھی بطور یادگار زندہ ہیں لیکن تاریخ کے اسی حصے میں اس کے خلاف بنی اسرائیل اور یہود کی سازشوں کا بھی آغاز ہوا۔
ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ گذشتہ اور موجودہ حالات کی شناخت کے سلسلے کا کلیدی نکتہ ہے لیکن یہود نے اس الہی منصوبے کو منحرف کرکے ذبح اسماعیل کو ذبح اسحاق(ع) کے عنوان سے پیش کیا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ذبح اسماعیل(ع) کا واقعہ منیٰ میں رونما ہوتا ہے، لیکن یہودیوں نے اس موضوع کو بدل کر بیت المقدس کو مقام واقعہ قرار دیا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ جیسا کہ متون اور منابع میں بیان ہوا ہے، خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا کام ابراہیم(ع) اور اسماعیل(ع) نے سرانجام دیا اور یوں انھوں نے عالمی دین کے مرکز کا تعین کردیا، لیکن پھر بھی یہودیوں نے واقعات اور تاریخ میں تحریف اور ہیراپھیری کرکے اورشلیم (یا یروشلم) کو عالمی حکومت کے مرکز کے طور پر متعارف کرایا۔
اس زمانے میں حضرت اسماعیل(ع) حجر اسماعیل میں دفن ہوئے تا کہ بنی اسماعیلی عالمی حکومت کا قطب اور مرکزی نقطہ متعین ہوجائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں بنی اسرائیل کے کانوں میں سرگوشی ہوتی ہے کہ عالمی حکومت کا مرکز اورشلیم اور ہیکل سلیمانی کی قربانگاہ ہے۔ اسی بنا پر آج یہودی اور صہیونی عیسائی بنی اسرائیل کی ظالمانہ عالمی حکومت کے قیام کے لئے اورشلیم کے معبد کی تعمیر کے درپے ہیں اور ہرمجدون (Armageddon ) کی لڑائی کی تمہیدیں فراہم کررہے ہیں اور وہ سب کچھ جو وہ آج کررہے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہودیوں کے پاس ـ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر رسول اللہ(ص) کی بعثت تک ـ ۶۰۰ سال کی فرصت تھی کہ وہ نبی آخر الزمان(ص) کے استقبال کے لئے تیاری کریں لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ عالمی حکومت کی تاسیس کا اختیار بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوجائے گا، لہذا انھوں نے حسد سے کام لے کر اپنی پوری قوت مجتمع کرکے نبی آخر الزمان کی ولادت، اسلام کامل کی تشکیل اور نبی اکرم(ص) کے اوصیاء کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔
آج جو کچھ بھی مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ، عراق، لبنان، شام، فلسطین اور یمن میں ہورہا ہے، پورا کا پورا بنی اسرائیل کے تحریفی منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ بنی اسماعیل کے تمام مواقع اور طاقت کے مراکز کو غصب کرکے تاریخ کا رخ بدلنا چاہتے ہیں اور تاریخ کے مختلف مواقع ـ بالخصوص آج کی تاریخ میں جبکہ حق و باطل کے چہرے بالکل عیاں ہوچکے ہیں ـ میں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور اٹھا رہے ہیں۔
عید قربان، عید غدیر، ایام عزاء و محرم و صفر میں ہمیں حقائق کی یاددہانی نہ کرائی جائے اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا راز بیان نہ کیا جائے تو ہماری تمام زحمتیں بےسود ہونگی اور ہمارے جشن اور ہماری عزاء کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ عاشوراء کے واقعے میں یزید اصلی کردار نہیں ہے وہ تو ظالموں اور ستمگروں کا ایک معمولی سا گماشتہ ہے، چنانچہ ہمیں آگے جاکر واقعۂ عاشورا کے اصل کرداروں کو تلاش کرنا پڑے گا اور پوری تاریخ کا جائزہ لے کر اصل مجرموں کی شناخت کرنا پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یقینا جب ہم عزاداری کے ایام میں واقعۂ عاشورا کے اسباب کو جان لیتے ہیں تو یہودی کردار پہلے سے بہت زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور ہم بہ آسانی جان لیتے ہیں کہ عاشورا کی تاریخ میں تحریف کا اصل مقصد یہ ہے کہ یزید کے آقاؤں کے کردار کو چھپایا جائے ورنہ تو شیعیان کوفہ کو شہادت حسین(ع) کا ملزم نہ ٹہرایا جاتا، بات یہ ہے کہ کوفہ میں ہزاروں یہودیوں کی سکونت کو تاریخ کے صفحے سے مٹا دیا جائے اور کربلا کے واقعے میں ان کے کردار کو خفیہ رکھا جائے ورنہ تو مسلمان خلیفہ کے عنوان سے حکومت کرنے والے یزید اور اس کے اسلاف کی رسوائی ہوگی۔
۔۔۔۔
ڈاکٹر شفیعی سروستانی / ترجمہ: فرحت حسین مہدوی