-
Monday, 24 August 2020، 03:06 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، ٹرمپ نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے سے وابستہ کچھ عرب حکام کی مدد سے قدس شریف کو یہودی ریاست کا حصہ قرار دے کر امریکی سفارتخانے کی وہاں منتقلی کا اعلان کیا؛ بعد ازاں امریکی وزیر خارجہ کے دورہ مقبوضہ فلسطین کے دوران پامپیو نے ٹرمپ کو یہودیوں کی مدد کے لئے اللہ کا بھیجا ہوا سورما قرار دیا جس کے بعد ٹرمپ نے باقاعدہ طور پر ـ ایک بار پھر بین الاقوامی قواعد و اخلاقیات کو کچلتے ہوئے ـ شام کی گولان پہاڑیوں کے یہودی ریاست کی قلمرو میں ضم کرنے کے نیتن یاہو کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے اس علاقے پر غاصب ریاست کے قبضے کو تسلیم کیا ہے۔ جس کے بعد ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا ہے جو در حقیقت صدی کی ڈیل ـ یعنی ٹرمپ ڈیل ـ کا حصہ ہے۔ اس موضوع کو مختلف پہلؤوں کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے:
پہلا پہلو:
ٹرمپ گولان [جولان] کے مقبوضہ علاقے پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے جس کو نصف صدی سے مسلسل تقویت ملی ہے اور وہ یہ کہ “گولان شام کا اٹوٹ انگ ہے جس پر یہودی ریاست نے قبضہ کر رکھا ہے”، یہ مسئلہ [یعنی گولان پر یہودی ریاست کا غیر قانونی قبضہ] اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں ـ اور سب سے بڑھ کر سنہ ۱۹۸۰ع میں منظور شدہ قرارداد نمبر ۴۹۷ نیز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں سے ثابت ہے۔
دوسرا پہلو:
ٹرمپ کو گولان پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے مخالفتوں کی ایک عظیم عالمی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے حتی کہ امریکہ کے یورپی حلیف ان کے اس اقدام کی شدید مذمت کررہے ہیں۔ امریکہ ـ جسے پہلے ہی عالمی بداعتمادی کا سامنا ہے ـ کی عالمی اعتمادی میں مزید شدت آئے گی۔
تیسرا پہلو:
ٹرمپ نے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اس فیصلے سے پہلے موضوع کا اچھی طرح سے جائزہ لیا تھا اور یہ کہ ان کے اس فیصلے کا سبب یہ تھا کہ یہودی ریاست شام میں ایران کے مقابلے میں اپنے دفاع کا پورا حق رکھتی ہے؛ لگتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ اس اقدام کے ذریعے عالمی سطح پر اپنے رقیب ملک “روس” کے ساتھ ایک مسابقتی کیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اگلے مرحلے میں متعدد نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں:
پہلا نتیجہ:
گولان پر غاصب یہودی ریاست کی حکمرانی تسلیم کرنے کے سلسلے میں ٹرمپ کا فیصلہ خطے ـ یا حتی کہ شام میں ـ امریکی مفادات کے لئے ناگزیر ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ جیسا کہ رپورٹوں سے ظاہر ہے، یہ فیصلہ غاصب یہودی ریاست کے اگلے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے لئے ایک تحفہ ہے ایک دوست اور حلیف [ٹرمپ] کی طرف سے ایک دوست اور حلیف [نیتن یاہو] کے لئے۔
یقینا نیتن یاہو اگلے انتخابات میں ترپ کے اس پتے سے ضرور فائدہ اٹھائے گا اور ساتھ ہی ٹرمپ غاصب یہودی ریاست کے مفادات کے سب سے بڑے نگہبان کے طور پر ابھریں گے؛ اور جو کچھ یہ غاصب ریاست امریکہ کے ساتھ ستر سالہ دوستانہ تعلقات سے حاصل نہیں کرسکی ہے، ٹرمپ یہودی لابیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے وہ سب کچھ یہودیوں کو تحائف کے طور پر پیش کریں گے اور یہ تحائف عالمی سیاست کی سطح پر امریکہ کا اعتبار مخدوش سے مخدوش تر کریں گے۔
دوسرا نتیجہ:
امریکی انتظامیہ نے [ٹرمپ کے دعوے کے برعکس] یقینی طور پر اس اقدام کے عواقب اور انجام کا جائزہ نہیں لیا ہے؛ ایسی انتظامیہ جس کے پاس کوئی راستہ ہی نہیں ہے سوا اس کے کہ ان تمام منصوبوں پر عملدرآمد کرے جن کا تعلق یہودی ریاست اور نیتن یاہو کے مفادات سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں؛ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ گولان پر یہودی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے ٹرمپ کے اقدام کا انجام امریکہ کے لئے بھی اور ٹرمپ کے لئے بھی بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔
تیسرا نتیجہ:
اگر ٹرمپ اس اقدام کو فلسطین کے سلسلے میں صدی کی ڈیل کی تمہید کے طور پر استعمال کرنا چاہیں اور قدس اور جولان کے بعد ـ تیسرے مرحلے کے طور پر ـ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق بھی چھیننا چاہیں تو یقینا حالات مزید بحران اور تناؤ کا شکار ہوجائیں گے اور یہ تناؤ ایک فوجی تقابل کی صورت میں نمایاں ہوسکتا ہے، اور عین ممکن ہے کہ یہودی ریاست ایسے کسی تقابل کی صلاحیت نہ رکھتی ہو اور ایسے کسی تقابل سے پیدا ہونے والے حالات کو قابو میں نہ لا سکے۔
اور اگر امریکہ گولان کے مسئلے کو شام کے سلسلے میں روس کے خلاف دباؤ کا ذریعہ بنانا چاہے، تو بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ باوجود اس کے کہ روس اور شام کے بہت سے مفادات مشترک ہیں؛ تاہم ترپ کا پتہ ماسکو کے ہاتھ میں نہیں بلکہ دمشق اور تہران کے ہاتھ میں ہے۔
علاوہ ازیں، دائمی ابدی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ گولان ایک شام کا حصہ ہے جس پر قبضہ ہوا ہے اور جس کو آزاد ہونا چاہئے۔ چنانچہ ٹرمپ کا یہ اقدام روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ـ بغیر کسی اضافی خرچ کے ـ کو ایک ترپ کا پتہ بطور تحفہ دے گا جسے وہ یوکرین کے ساتھ جزیرہ نمائے کریمیا کے تنازعے میں استعمال کریں گے۔ بےشک گولان پر یہودی ریاست کی حکمرانی کو تسلیم کرکے، معقول نہیں ہوگا کہ ٹرمپ پیوٹن سے جزیرہ نمائے کریمیا ترک کرنے کا مطالبہ کریں!
ان ساری باتوں کے علاوہ، ٹرمپ ٹرمپ نے اپنے دوست نیتن یاہو کو مدد فراہم کرکے اپنے آپ کو بھی اور نیتن یاہو کو بھی عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے؛ یہودی ریاست کو گولان سے انخلاء کے حوالے سے عالمی دباؤ کا سامنا نہیں تھا اور گولان پر یہودی قبضے کے سلسلے میں تقریبا خاموشی تھی اور صرف شامی حکومت گولان کی آزادی پر زور دیتی رہی تھی جبکہ اس وقت نیتن یاہو بھی اور ٹرمپ بھی الزامات کا نشانہ بن رہے ہیں اور عالمی سطح پر گولان پر یہودی ریاست کے قبضے کے خاتمے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں اور حالات وہ ہرگز نہیں ہیں جن کی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو توقع تھی۔
ان مسائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے اقدام کا الٹا انجام شاید توقعات سے کہیں زیادہ بڑا ہو اور انہیں مستقبل قریب میں حالات سدھارنے کے لئے کچھ بڑی پسپائیاں کرنا پڑیں جن کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
العالم ٹی وی نیٹ ورک
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔