-
Monday, 21 September 2020، 02:18 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی کارستانیوں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے، پورے پورے الیکشن سے لیکر کسی بھی ملک کی دفاعی پالسیی تک پر سوشل میڈیا کا اثر انداز ہونا ایک عام بات ہے۔
اگر ہم سوشل نیٹ ورک کی سائٹس پر ایک معمولی سی نظر ڈالیں گے تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ کہنے کو تو یہ سوشل میڈیا ہے لیکن اسکا پورا پلیٹ فارم ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو کہیں نہ کہیں سے استعمار و سامراج کے ہاتھوں کھلونے بنے ہوئے اسکے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں ، کہیں یہ کھلونے استعماری مفادات کے حصول کو یقینی بنا رہے ہیں تو کہیں خود سامراج کھلم کھلا اپنے شطرنجی مہرے سجائے لوگوں کے ذہن و دل و دماغ کو مختلف بہانوں سے کنڑول کر رہا ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کا اصل پلیٹ فارم سامراج کے ہاتھوں میں ہے اور سماجی رابطوں کی زیادہ تر سائٹس بھی وہیں سے آپریٹ ہوتی ہیں وہ لوگ بہت ہی سادہ ہیں جو یہ مان کر چلتے ہیں کہ سوشل میڈیا محض اطلاع رسانی کا ایک ذریعہ ہے اور اسکے ذریعہ ہم ایک دوسرے سے جڑ تے ہیں ، حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ تر سوشل میڈیا کی سائٹس عالمی سامراج کے ہاتھوں میں ایک ایسے آلے اور ذریعہ کے طور پر کام کر رہے ہیں جنکے ذریعہ استکباری مفادات کے حصول کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اپنی خاص اسٹراٹیجی کے تحت یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ لوگ خود چل کر سامراج کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں ہم کسی دیوتا پر پھول چڑھا رہے ہیں ، چنانچہ آپ دیکھیں ایک طرف داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے سلسلہ سے کھلا نظر آتا ہے تو دوسری طرف انکی مذمت کرنے والے اور انکے خلاف مواد فراہم کرنے والوں کی پوسٹیں بھی گردش کرتی نظر آ رہی ہیں چنانچہ ،مغرب کی جانب سے دہشت گرد عناصر کے سوشل میڈیا کے دھڑلے سے استعمال پر خاموشی اس فرض کی تقویت کا سبب ہے کہ آج عالمی سامراجیت دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے شئیر کئے جانے والے مفاد کو اپنے حق میں دیکھ رہی ہے اسی لئے انکے پھیلاو کو لے کر کوئی ٹھوس قدم اٹھتا نہیں دکھتا ۔آپ تکفیری گروہوں کو ہی لے لیں جنہوں نے زیادہ تر شدت پسندانہ کاروائیوں کو سوشل میڈیا پر پھیلایا ہے جبکہ یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ ہر پیج اور ہر سائٹ کے قوانین میں یہ بات ہے کہ کسی بھی طرح کے شدت پسندانہ مواد کو شائع نہیں ہونے دیا جائے گا ، آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ شدت پسندانہ تنظیموں کی طرف شک کی سوئی گھوم جانے کی بنیاد پر مختلف اکاونٹس کو بلاک کر دیا گیا خاص کر اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق سپاہ پاسداران سے جڑے اکاونٹس یا حزب اللہ سے جڑے پیجز جبکہ ان اکاونٹس میں ایسا مواد کہیں نظر نہیں آئے گا جہاں وسیع پیمانے پر اجتماعی پھانسیوں کے مناظر ، موت کے گھاٹ اتارے جانے کے مناظر ،اپنے ہی علاقے ،یا مقبوضہ علاقے کے لوگوں کے اور اسیروں کے سروں کے اتارنے کے مناظر ، انکے اعضا کو کھانے اور چبانے کے مناظر دکھا کر لو گوں میں دہشت پھیلائی جا رہی ہو ۔ کیا یہ اپنے آپ میں عجیب نہیں ہے کہ ایک طرف تو داعش جیسی تکفیری تنظیموں کے لئے اتنی فراخدلی ہے کہ ہر طرح کے ویڈیوز آپکو ہر جگہ معمولی سرچ پر مل جائیں گے جبکہ دوسری طرف انہیں تہذیب و تمدن کے دیوتا بنے مغربی ممالک نے ایسے اکاونٹس کو بند یا بلا ک کر دیا جن کے بارے میں انہیں لگا کہ اسکا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے ۔ آپ ثبوت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ایسے پیجز ہیں جنہیں محض اس بنیاد پر بند کیا گیا ہے کہ انکا تعلق ایران سے ہے [۱] چنانچہ آپکو حزب اللہ ،و حماس کے بعض بہت سے ایسے پیجز مل جائیں گے جو اب دسترس میں نہیں ہیں ۔اب ہر انسان کے سامنے ایک سوال ہے کہ آخر معاملہ کیا ہے ؟ کیوں اسلامی جمہوریہ ایران ہی ٹارگٹ پر ہے، اسے ہی ایک بھوت کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے جس سے مقابلہ نہیں کیا تو یہ سب کو کھا جائے گا ، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ایران نواز افراد یا ایک ہی مسلک کے لوگوں کو کھٹکتی ہو بلکہ ایسی چیز ہے جسے خود وہی لوگ اپنے آپ بیان کر رہے ہیں جو استعمار و سامراج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور خود کو دنیا میں حقیقت پسند و منصف مزاج کہتے ہیں ، ابھی کچھ دنوں قبل ہی بی بی سی نے ایک تجزیہ اس عنوان کے تحت پیش کیا تھا کہ[۲] Why the WhatsApp spies may have eyes on Iran ’’ واٹس ایپ جاسوس ایران پر کیوں نظریں گاڑے ہوئے ہیں؟‘‘ اس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں پر کس طرح ایران کا بھوت سوار ہے آپ ذرا بی بی سی بیورو چیف واشنگٹن، پال دانهار[۳] کا یہ تجزیہ ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے خاص کر واٹس اپ کے سلسلہ سے کیا ہے
وہ لکھتے ہیں :
’’اخبار فائنینشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہیکرز نے واٹس ایپ کی سکیورٹی میں پائی جانے والی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند صارفین کے موبائل فونز اور دیگر ڈیوائسز تک رسائی حاصل کر کے ان میں نگرانی کے سافٹ ویئر انسٹال کیے۔
اس حملے کی تصدیق واٹس ایپ نے بھی کی اور تسلیم کیا کہ کچھ ’مخصوص صارفین‘ کو نشانہ بنایا گیا ۔اطلاعات کے مطابق یہ حملہ ایک اسرائیلی سکیورٹی فرم ’این ایس او گروپ‘ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر سے کیا گیا ہے۔
اب اس سارے معاملے میں کڑیاں ملانے کا وقت ہے۔واٹس ایپ کا ہیک ہونا، متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں دو سعودی آئل ٹینکرز کو ‘سبوتاژ’ کرنے کی کوشش، اخوان المسلمین پر پابندی لگانے کی امریکی کوشش اور خلیج فارس میں امریکی فوجی بیڑے کا تعینات ہونا۔۔۔ یہ سب ایک ہی کہانی کی کڑیاں ہیں اور مشرق وسطیٰ میں تنازع کے مرکزی کردار اسرائیل، ایران اور سعودی عرب ہیں۔‘‘
بظاہر تو جس طرح سے وہ کڑی سے کڑی ملا رہے ہیں اس حساب سے ایران کا بھوت کافی خطرناک دکھ رہا ہے اس لئے کہ اسرائیل و سعودی عرب تو ایک ہی مقام پر ہاتھ میں ہاتھ دئیے کھڑے ہیں رہ جاتا ہے ایران جو دونوں ہی کی یلغار کی زد پر ہے لیکن یہاں پر کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ جب حملہ اسرائیلی ساخت کے سافٹ وئیر سے انجام دیا گیا ہے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ سافٹ وئیر حملہ آوروں تک کیسے پہنچا ؟ کیا اسرائیل اتنا بھولا ہے کہ کسی بھی سافٹ وئیر کو کسی کے بھی حوالے کر دے ؟
حملہ کیسے ہوا ؟
واٹس پر حملے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں :
فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں ہیکرز نے واٹس ایپ کی وائس کال سروس کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کے آلات کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں کال نہ بھی اٹھائی جائے تو بھی سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے گا اور فون سے اس کال کا ریکارڈ بھی غائب ہو جائے گا۔واٹس ایپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی سکیورٹی ٹیم نے پہلے اس خامی کی شناخت کی جس کے بعد یہ معلومات انسانی حقوق کی تنظیموں، چند سکیورٹی فرموں اور امریکی محکمہ داخلہ کو بھی دی گئیں۔کمپنی نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’اس حملے میں اس نجی کمپنی کی مہرِ تصدیق موجود ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے جاسوسی کے نظام پر کام کرتی ہے جو موبائل فون کے آپریٹنگ سسٹم پر قابو پا لیتا ہے۔‘
فرم نے سکیورٹی کے ماہرین کے لیے ہدایات بھی شائع کیں جس میں ان خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔جبکہ اسرائیلی این ایس او گروپ، جو ماضی میں ’سائبر آرمز ڈیلرز‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا، کا ایک بیان میں کہنا تھا ’این ایس او کی ٹیکنالوجی لائسنس یافتہ ہے اور اسے حکومتوں اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا اختیار ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔ ان کا کہنا تھا ’ادارہ اس سسٹم کو نہیں چلاتا اور لائسنسنگ اور چھانٹی کے کڑے مراحل کے بعد خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ عوامی تحفظ کے مشن کے دوران کیسے ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے۔ ہم غلط استعمال کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو کارروائی بھی کرتے ہیں جس میں نظام کی بندش بھی شامل ہے۔‘ ‘
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس لائسنس اور سسٹم کی بات ہو رہی ہے اس کے کرتا دھرتا اب تک اس حملے کی وجوہات بتانے میں ناکام کیوں ہیں ؟ جبکہ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں تک سافٹ وئیر بنانے والی کمپنی کا سوال ہے تو اسی تجزیہ میں پال دانهار[۴] لکھتے ہیں : ’’این ایس او گروپ ہیکنگ کے سافٹ ویئرز بناتی ہے اور اسے حکومتوں کو بیچتی ہے تاکہ وہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹ سکیں۔مگر یہ بھی اہم ہے کہ ان کو اس ٹیکنالوجی کو دیگر ممالک کو بیچنے کا برآمدی لائسنس اسرائیلی حکومت سے صرف اس صورت میں ملتا ہے جب یہ باور ہو جائے کہ اس کی فروخت سے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا‘‘۔ خود ہی بی بی سی کے یہ تجزیہ نگار مختلف آگے چل کر اعتراف کرتے ہیں کہ ’’اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں ایران اور خلیجی ممالک کو اس کی فروخت نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ ماضی میں خلیجی ریاستوں کا فلسطین اسرائیل تنازع میں اسرائیل کے خلاف ہونا ہے۔عرب سپرنگ کے بعد خلیجی ریاستوں (ماسوائے قطر) نے مسئلہ فلسطین کو ترک کر دیا اور ایران کے خلاف اسرائیل کی طرف ہو گئے۔اس سست رفتار تبدیلی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب اور ان کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور مشیر قومی سلامتی جون بولٹن جیسے متعدد ایران مخالف نمائندوں کی تعیناتی سے تیز کر دیا تھا۔
اس متعلق بہت سی قیاس آرائیاں ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے خلیج میں اپنے نئے دوستوں سے تعلقات بنانے کے لیے این ایس او گروپ کو اپنے ان ہیکنگ سافٹ ویئرز کو خلیجی ممالک کو بیچنے کی اجازت دی ہو گی۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اتفاق نہیں ہے کہ اطلاعات کے مطابق اس واٹس ایپ ہیکنگ حملہ کا نشانہ بننے والے وہ وکلا تھے جو خلیجی ریاستوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے تھے۔ جن میں ایک سعودی نژاد اور دوسرا قطری شہری ہے۔‘‘
مذکورہ بالا جملوں سے واضح ہے کہ دبے الفاظ میں پال دانهار کو بھی اعتراف ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور حقیقت میں اس حملے کے تانے بانے اسرائیل سے جا کر جڑتے ہیں یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی توجہات کو ہٹانے کے لئے بیک وقت مکمل طور پر فوکس ایران کی طرف ہو گیا ہے اور اسے ایسے خطرناک بھوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو لوگوں کی نجی زندگی میں بھی داخل ہو سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس پر نظر رکھی جائے اور اس نظر رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جتنے بھی سوشل رابطے کے ذرائع ہیں سب کنٹرول میں رہیں ۔ان تمام باتوں کی وجہ بھی اسرائیل کا وہ خوف ہے جو پیر سے دانتوں تک مسلح ہونے کے بعد بھی اسے نہیں چھوڑ رہا چنانچہ پال دانهار خود اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا واحد مقصد ایران کو محدود کرنا بنا لیا ہے۔ اور وہ اسے اسرائیل کی سالمیت کے لیے واحد خطرہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
یہاں تک تو بات اسرائیل کی ہے اسے ایران کو ایک بھوت کے طور پر اس لئے پیش کرنا ہے کہ اس کے لئے تو حقیقت میں ایران ایک بھوت سے کم نہیں جو بھوت اسے دکھ رہا ہے وہ سبکو دکھانا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ یہ بھوت اگر ہم پر حملہ آور ہو سکتا ہے کہ کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ درمیان میں سعودی عرب کا معاملہ کیا ہے تو سعودی عرب کے سلسلہ سے وہ اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ’’سعودی حکمرانوں کو دو خطرات کا سامنا ہے، ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ بیرونی خطرے میں ایران جبکہ اندرونی خطرہ اخوان المسلمین سے ہے۔سعودی حکمران ایران کی فوجی قوت سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ اخوان المسلمین سے بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان کی حکمرانی کے متبادل کے طور پر سیاسی اسلام پیش کرتے ہیں.‘‘ سعودی اور اسرائیل کی جانب سے ایران سے ڈر اور خوف کے چلتے ایسی فضا کی فراہمی تو واضح ہے جس میں یہ دونوں ہی ملک مشترکہ خطرے سے مقابلہ کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کریں اور دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی دستورات کو نظر انداز کرتے ہوئے فی الوقت ایران کی بڑھتی طاقت کو لگام دینے کی کوشش کریں لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں پر امریکہ کو کیا حاصل ہے ؟ اور وہ کیوں ان دونوں ملکوں کے ساتھ ایران کے پیچھے پڑا ہے ، تو اسکا جواب ایک الگ اور مستقل تحریر کا طالب ہے فی الحال مختصر طور پر اتنا ہی کہ اسرائیل امریکہ کی ناجائز اولاد ہے جسے بڑی مشکل سے امریکہ نے پال پوس کر خطے میں بڑا کیا ہے ، اب اگر اس پورے خطے میں امریکہ کی اس اولاد کو کسی سے خطرہ لاحق ہے تو وہ ہے ایران علاوہ از ایں امریکہ کی چودراہٹ کے سامنے بھی اگر کوئی ملک ڈٹا ہوا دکھتا ہے تو بھی ایران ہی ہے دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ یوں تو ہر امریکی حکومت کی پالیسی ایران کے خلاف ہی رہی ہے لیکن بقول پال دانهار’’
ٹرمپ انتظامیہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو ایرانی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور ہر غلط چیز کو ایران سے منسلک کرتے ہیں‘‘۔
پال دانهار موجودہ صورت حال کو اناوں کی جنگ کا نام دیتے ہوئے آگے لکھتے ہیں کہ ’’، اس نئی ’اناؤں کی جنگ کے محور‘ میں سب ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتے ہوئے خود کو مجموعی طور پر ایران کے خلاف مکمل طور پر متحد کر رہے ہیں[۵].‘‘
اناوں کی جنگ کی جہاں تک بات ہے تو ہمیشہ ہی رہی ہے لیکن اس میں اتنی شدت کیوں ہے اس سے پردہ ہٹاتے ہوئے پال دانهار لکھتے ہیں :’’کچھ ہتھیاروں کی تجارت کر رہے ہیں، کچھ تیل اور گیس کی قیمت میں ملوث ہیں اور چند سیاسی تجارت میں مصروف ہیں جیسا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے کر رہا ہے جب اس نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوشش کی‘‘۔
اب وہی ہو رہا ہے جو عراق پر حملے سے قبل ہوا تھا۔ جو بھی خفیہ معلومات ایران کے خلاف گھما پھرا کر استعمال کی جا سکتیں ہیں انھیں ایران پر دباؤ یا قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔حالات بھی ویسے ہی بنائے جا رہے ہیں جیسے عراق جنگ کے وقت بنائے گئے تھے۔اب فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جو اس جزوی نظریے کے حامی تھے کہ یہ ان کی قسمت ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت لائیں۔ اور اس میں صدام حسین کو نکالنا شامل تھا۔مگر امریکہ کے موجودہ صدر بالکل بھی نظریاتی شخصیت کے مالک نہیں۔ ان کے دور صدارت میں امریکی سیاست لین دین کے تعلق پر چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کی خارجہ امور پالیسی میں ’سب سے پہلے امریکہ‘ ہے اور اگر انھیں اکسایا نہ جائے تو وہ مشرق وسطی میں ایک اور جنگ شروع نہیں کریں گے‘‘۔
یہاں تک توساری کہانی سمجھ میں آتی ہے کہ لین دین کی سیاست میں جہاں ٹرنپ کو فائدہ نظر آ رہا ہے اسی ڈگر پر پوری امریکی سیاست کا رخ مڑتا جا رہا ہے لیکن یہ چو طرفہ طور پر ایران کا بھوت سب پر کیوں سوار ہے تو ظاہر ہے جب ایران سے مقابلہ کی بات ہے تو یہ مقابلہ کسی بھی عنوان سے ہو سکتا ہے اور کوئ بھی رخ اختیار کر سکتا ہے جنگ بھی اسکا ایک مفروضہ ہے ایسے میں ضروری ہے کہ اس مفروضے پر عمل کی صورت میں کوئی ایسا کام کیا جائے جو کسی ممکنہ جنگ کا جواز بن سکے اس کے لئے اپنے سر پر سوار بھوت کو ہر ایک کے سر پر سوار کرنا ضروری ہے اور یہ دکھانا ضروری ہے کہ ہم ایران پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سب ساری دنیا کے لئے فائدہ کے لئے ہے ،ایران کا بھوت میڈیا کے ذریعہ بنا کر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر خطرناک حادثہ کو ایران سے جوڑا جائے ،جیسا کہ ابھی سعودی اور امارات کے آئل ٹکینکروں پر حملوں کے بعد ہوا اور شک کی سوئی ایران کی طرف گھما دی گئی جبکہ ایران نے واضح الفاظ میں اسکی مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں تحقیقات کا مطالبہ رکھ دیا جس نے واضح کر دیا کہ جھوٹ پر مبتنی سیاست کبھی سچائی کے مقابل نہیں کھڑی ہو سکتی
ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ جھوٹ کو اتنا پھیلاو کہ سچ لگنے لگے اور اب یہی ہو رہا ہے اسی لئے واٹس اپ پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے کہ جو کچھ بھی ایران کے خلاف ملے اسے اکھٹا کر لو آگے کام آ سکتا ہے پال دانهار نے بھی اپنی تحریر کے آخری حصے میں ، ایران کو دنیا کے سامنے ایک خطرہ کے طور پر پیش کرنے اور ممکنہ جنگ میں دھکیلنے کے لئے سوشل میڈیا و واٹس کی جاسوسی کو ایک حربے کے طور پر پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’اس کے لیے تہران پر کسی بہت برا الزام لگانے ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا بہترین طریقہ انٹیلی جنس جمع کرنا ہے اور انٹیلی جنس جمع کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے اتحادیوں کے لیے خطے کے بہت سے لوگوں پر جاسوسی کرنے کی کوشش کریں۔ایسا کرنے کا بہترین طریقہ ٹروجن ہارس نامی وائرس کی مدد سے ہمارے سمارٹ فونز ہیک کرنا ہے جن کو ہم سب رضاکارانہ طور پر ساتھ لیے گھومتے ہیں[۶]‘‘۔
ٹروجن ہارس کا وائرس ہو یا دیگر جرثومے یہ ایک حقیقت ہے کہ سچائی اور حقیقت کو کسی چیز سے بدلا نہیں جا سکتا ہے اور حق کو کسی بھی طرح دبایا نہیں جا سکتا ہے جس طرح کل ساری دنیا تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کو کامیابی سے نہ روک سکی آج بھی اسلامی انقلاب کے سورج کی کرنوں کو دنیا میں پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ دن اب دور نہیں جب لوگ بھوت آیا بھوت آیا کہنے والے بھوت کو ٹروجن ہارس جیسے وائرس کے ساتھ دھر دبوچیں گے ۔
حواشی
[۱] ۔ فرصت¬ها و تهدیدات اطلاعاتی امنیتی شبکه¬های اجتماعی مجازی، مرتضی روشنی ، ص۹۸٫
[۲] ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۳] ۔ By Paul Danahar BBC Washington Bureau Chief ، نامہ نگار پال دانهار واشنگٹن میں بی بی سی امریکہ کے بیورو ایڈیٹر ہیں اور سنہ ۲۰۱۰ سے ۲۰۱۳ کے درمیان بی بی سی مشرق وسطی کے بیورو چیف بھی رہ چکے ہیں
[۴] ۔ https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۵] ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
[۶] ۔ https://www.bbc.com/urdu/science-48277352
https://www.bbc.com/news/world-us-canada-48271986
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد/