-
Monday, 14 December 2020، 02:34 AM
گوکہ آج کل کئی مسلم ممالک پر مسلط حکمرانوں نے امریکی ـ اسرائیلی بساط پر جوا کھیلتے ہوئے اسرائیل نامی یہودی ریاست کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانا شروع کی ہیں لیکن اس سے یہود کی ازلی ابدی دشمنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا صرف اتنا ہوا ہے کہ یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کو تقویت ملی ہے اور زیادہ آسانی سے اپنے مقاصد حاصل کررہے ہیں اور اس وقت ان کا سب سے بڑا مقصد فلسطین پر قابض یہودی ریاست کا بچاؤ ہے جس کے زوال کی پیشینگوئیاں اب تل ابیت تک بھی پہنچ چکی ہیں۔
آج یہود امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی کی بدولت زیادہ اعلانیہ انداز سے تمام انسانی حدود کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھ رہے ہیں؛ یہاں تک کہ جہاں بھی مسلمانوں پر دینی امتیاز کی بنا پر اور حتی کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر کوئی ظلم ہورہا ہے، جہاں بھی انہیں تنگ کیا جارہا ہے، ان کی معیشت تنگ کی جارہی ہے یا انہیں دہشت گردی جیسے اقدامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہودیوں کا نقش پا بوضوح نظر آتا ہے۔
یہودی بطور خاص اسرائیل نامی غاصب اور طفل کش اور نسل پرست ریاست کے ظلم و ستم کا ایک نمایاں ترین نمونہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم ہے جو سالہا سال سے جاری اور سیاسی اور ابلاغی حلقوں کی زینت ہے۔ ایسا ظلم جس کی طرف سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ امام سید روح اللہ خمینی (قدس سرہ) نے دی۔ انھوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے ہی نہیں بلکہ 1963 میں تحریک اسلامی کے آغاز سے مسلمانوں کے درمیان یہودی ریاست کے مظالم کے فراموش ہونے کے سلسلے میں خبردار کیا، مسلمانان عالم کو یہودی صہیونیت کی ریشہ دوانیوں کے سامنے فروعی اختلافا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہونے کی دعوت دی اور اس امر کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے رمضان المبارک کے آخری روز جمعہ [جمعۃ الوداع] کو یوم القدس منانے کا اعلان کیا جو سال بسال وسیع سے وسیع تر سطح پر منایا جارہا ہے اور فلسطینی ملت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کی بیداری کا سبب بنا ہؤا ہے۔
یہودیوں نے ـ غیر دینی اور غیر انسانی اقدامات اور مسلم ممالک کے استبدادی حکام کو امریکہ اور یورپ کی مدد سے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرکے مسلم اقوام اور محاذ مزاحمت کے خلاف اندرونی محاذ قائم کرکے اور بظاہر مسلمان دہشت گردوں کی ہمہ جہت مدد و حمایت کرکے ـ علاقے کو حساس بحرانی صورت حال سے دوچار کردیا ہے اور اور علاقائی بحران کو صرف اپنی مذموم اور موذی بقاء کی خاطر بین الاقوامی بحران میں تبدیل کردیا ہے۔ اگرچہ بہت سے یہودیوں کا کہنا ہے کہ ان کا صہیونیت اور اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے دور میں بھی تھے ایسے منصف یہودی جو بعد میں مسلمان ہوگئے یا مسلمانوں کے ساتھ ان کا رویہ دشمنی پر مبنی نہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں دونوں قسموں کے یہودی کردار ایک جیسے تھے اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے اور پھر قرآن نے یہود کو مؤمنین کا شدید ترین دشمن قرار دیا ہے اور کسی بھی منبع نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ آیت کسی خاص زمانے تک محدود تھی اور اس کی افادیت کا دور گذر چکا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں یہود کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُواْ؛ یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے"۔ (1)
جی ہاں، یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن اس دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟ مسلم امت اور قوم یہود کے درمیان ایسا کیا مسئلہ گذرا ہے کہ اسلام کو 14 صدیوں سے اس قدر شدید یہودی غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟ اور آخر کار یہ کہ اسلام کے ساتھ یہودی عداوت کی جڑ کیا ہے؟
اس مقالے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور مؤمنین کے ساتھ یہود کی دشمنی کو قرآن کی روشنی میں زیر غور لانے کی کوشش ہوئی ہے؛ کہ یہ قوم ـ جو حضرت موسی علیہ السلام کی تعلیمات اور تورات کے متن کی روشنی میں صدیوں سے سرزمین حجاز میں آپ(ص) کے ظہور کا انتظار کرتی رہی تھی ـ آپ(ص) کی بعثت کے بعد آپ(ص) سے دشمنی کیوں کرنے لگی، اور بکثرت رکاوٹیں کھڑی کرکے اسلام کے فروغ کا راستہ روکنے کے لئے کوشاں ہوئی، یہاں تک اللہ تعالی نے مذکورہ بالا آیت میں اسے مشرکین کے برابر مسلمانوں کا بدترین اور شدید ترین دشمن قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد
...........
1۔ سورہ مائدہ، آیت 82۔