-
Sunday, 27 December 2020، 02:52 AM
حسد زوال کا سبب
حسد الحاد اور دین سے فررار کی جڑوں میں سے ہے اور اس کو دنیا پرستی کا ایک شعبہ سمجھا جاسکتا ہے، یہاں تک امام جعفر صادق علیہ السلام اس کو کفر کی جڑ قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
*"وَاِیَّاکُمْ اَنْ یَحْسُدَ بَعْضُکُمْ بَعْضاً فَإِنَّ الْکُفْرَ أَصْلُهُ الْحَسَد؛*
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی دوسرے پر حسد برتے کیونکہ کفر کی جڑ حسد ہے۔ (2)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت سے قتل یہودی ایسے پیغمبر کا انتظار کررہے تھے جن کے سائے میں وہ مستقبل میں اپنی سیادت و زعامت کی توقع رکھے ہوئے تھے۔؛ چنانچہ وہ کفار سے کہا کرتے تھے "کہ ہم بہت جلد خاتم الانبیاء کی نبوت تسلیم کرکے تم پر فتح پائیں گے"؛ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت ہوئی تو انھوں نے آپ(ص) کی بیعت قبول کرنے سے انکار کیا اور حیلوں بہانوں سے کام لینے لگے۔ چنانچہ خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
*"وَلَمَّا جَاءهُمْ کِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَکَانُواْ مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِینَ کَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ کَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْکَافِرِینَ؛*
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آگئی جو ان کے پاس والی کتاب (تورات) کی تصدیق کرتی ہے باوجودیکہ اس کے آنے سے پہلے خود یہ لوگ کافروں کے خلاف اس کے ذریعے سے فتح و ظفر طلب کیا کرتے تھے۔ مگر جب وہ (پیغمبر) ان کے پاس آگئے جنہیں وہ پہچانتے تھے تو اس کے منکر ہوئے۔ پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو"۔ (3)
اس آیت کریمہ میں خداوند متعال یہودیوں کی ہٹ دھرمیوں اور ہواپرستیوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے وہ یہ کہ یہ لوگ تورات کی بشارتوں کی روشنی میں پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ کے منتظر تھے اور حتی کہ ایک دوسرے کو بھی فتح و نصرت کی خوشخبریاں دے رہے تھے اور مدینہ میں ان کے قیام کا ایک سبب بھی یہی تھا کہ وہ جانتے تھے کہ پیغمبر خاتم (ص) اسی شہر میں ہجرت کرکے تشریف فرما ہونگے؛ لیکن جب اسلام کا طلوع ہوچکا اور پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ و آلہ نے ظہور فرمایا اور یہودی آپ(ص) کی حقانیت سے بھی آگاہ ہوئے اور دین اسلام کو تورات کی نشانیوں کے موافق پایا تو منکر ہوگئے۔ (4)
اگلی آیت میں خداوند متعال یہودیوں کے کفر کا سبب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
*"بِئْسَمَا اشْتَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن یَکْفُرُواْ بِمَا أنَزَلَ اللّهُ بَغْیاً أَن یُنَزِّلُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَى مَن یَشَاء مِنْ عِبَادِهِ فَبَآؤُواْ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُّهِینٌ"؛*
[سو] کس قدر بری ہے وہ چیز جس کے عوض ان لوگوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالی ہیں کہ ناروا انداز سے ضد اور سرکشی کی بنا پر اللہ کی اتاری ہوئی آیات کا انکار کردیا اور معترض تھے کہ خداوند متعال کیوں اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنی آیات اتارتا ہے، تو وہ اس رویے کے نتیجے میں (خدا کے ) غضب بعد از غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لئے خوار کردینے والا عذاب ہے۔ (5)
اس سلسلے میں روایات و احادیث بھی موجود ہیں جن میں سے یہاں دو نمونوں پر اکتفا کرتے ہیں:
الف) "جب عیسائی راہب بحیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کو طفولت میں ہی پہچان لیا تو ابوطالب علیہ السلام کو شام کا سفر جاری رکھنے سے منع کیا اور کہا: اس کو یہود سے بچائے رکھیں کیونکہ وہ عرب ہیں اور یہودی چاہتے ہیں کہ نبی موعود بنی اسرائیل سے ہوں چنانچہ وہ ان پر حسد کریں گے"۔ (6)
ب) مورخین اور مفسرین ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہود اسلام سے قبل اوس و خزرج سے کہا کرتے تھے: "ہم پیغمبر خاتم یا پیغمبر موعود کے واسطے سے تم پر غلبہ کریں گے؛ لیکن پیغمبر(ص) کی بعثت کے بعد اپنی ہی بات کے انکاری ہوئے۔ معاذ بن جبل اور بشر بن براء نے ان سے کہا: تقوا سے کام لو اور اسلام قبول کرو! کیونکہ تم خود ہی ـ اس وقت جب ہم مشرک تھے ـ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی شخصیت کی توصیف کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ مبعوث ہونگے اور ان کی مدد سے ہم تم پر غلبہ پائیں گے۔ سلام بن مشکم یہودی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا: جس کی بات ہم کرتے تھے وہ محمد(ص) نہیں ہیں، وہ ہمارے لئے کوئی ایسی چیز نہیں لائے ہیں جو ہمارے لئے جانی پہچانی ہو! یہیں سورہ بقرہ کی آیت 89 نازل ہوئی۔ (7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ علامه مجلسی، بحار الأنوار، مؤسسة الوفاء، بیروت - لبنان، 1404ھ ج 78، ص 217۔
3۔ سورہ بقرہ، آیت 89۔
4۔ تفسیر نور، قرائتی محسن، مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن، تهران، چاپ یازدهم، 1383، ج 1، ص345۔ به نقل از تفسیر نور الثقلین۔
5۔ سورہ بقرہ، آیت 90 ۔
6۔ الطبقات الکبری، محمد بن سعد بن منیع أبو عبدالله البصری الزهری، دار صادر، بیروت، ج1، ص123۔
7۔ سیرة ابن هشام، ج1، ص547؛ التبیان، ج1، ص365؛ درالمنثور، ج1، ص 196۔ به نقل از پیامبر و یهود حجاز،ص 99۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو اسد