-
Saturday, 15 August 2020، 08:35 PM
عرب دنیا کے مشہور تجزیہ کار اور مصنف نے امریکہ کے تحت نظر متحدہ عرب امارات اور صہیونی ریاست کے مابین انجام پائے معاہدے کو "غداری کا عروج" قرار دیا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب دنیا کے ایک مشہور تجزیہ کار اور مصنف "عبدالباری عطوان" نے لکھا ہے کہ اس سے قبل جتنے بھی معاہدے انجام پائے ان پر مصر، اردن اور فلسطینی اتھارٹی کے دستخط تھے اور آئندہ بھی تمام معاہدے جن کا ڈونلڈ ٹرمپ اور جرڈ کوشنر نے وعدہ کیا ہوا ہے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔
عطوان نے لکھا: "یہ واقعی تکلیف دہ بات ہے کہ کچھ لوگ اس معاہدے پر خوشی منا رہے ہیں اور اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ" تاریخی معاہدہ " ہے اور عرب دنیا کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ لیکن میرا ایک سوال ہے،قدس، مسجد الاقصیٰ اور تمام اسلامی عربی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطین کو بیچ ڈالنا کیا ایک ’تاریخی دن‘ ہے؟ کیا اسرائیل ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے جو ایک عرب سنی رہنما کی تاج پوشی کر رہا ہے ایک نئے دور کا آغاز ہے؟ کیا یہ انصاف کے قیام کی طرف ایک بڑا قدم ہے؟ کونسا انصاف پسند معاہدہ ہے جس میں نہ قدس کا تذکرہ ہے، نہ فلسطین کا ذکر ہے، نہ عرب منصوبے کا نام ہے؟ برائے مہربانی اگر آپ ہمارے جذبات کا احترام نہیں کرتے تو کم سے کم ہمارے ضمیر کی توہین نہ کریں۔
اخبار " رائ الیوم " کے مطابق عطوان نے مزید لکھا: ہاں یہ اماراتی-اسرائیلی معاہدہ فلسطینی کاز کے لیے ایک دائمی امن کا باعث بنے گا اور وہ ہے ’فلسطینی کاز کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ‘ ، اور شاید اس کی بہترین وضاحت خود نیتن یاہو نے کی جو کہا کہ "وہ اپنے تعلقات ہمارے ساتھ معمول پر لا رہے ہیں چونکہ ہم طاقتور ہیں اور وہ کمزور‘‘ ۔ لیکن نیتن یاہو ان عربوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے ساتھ انہوں نے تعلقات اچھے بنا لیے ہیں یا مستقبل میں بہتر بنائیں گے نہ کہ وہ عرب جو اسرائیل کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹے رہے اور غزہ کی پٹی سے نیتن یاہو پر بارش کی طرح میزائل برسائے جب وہ انتخاباتی مہم کے دوران تقریر کر رہے تھے اور اپنی جان بچا کر چوہے کی طرح بل میں گھس گئے۔
عرب دنیا کے اس مصنف نے مزید لکھا ہے کہ کچھ لوگ ٹیکس یا انعام کے طور پر واشنگٹن اور ٹرمپ کو نقد رقمیں ادا کرتے ہیں یا حمایت کے بدلے ان سے ہتھیار خریدتے ہیں اور اب یہی لوگ بالخصوص خلیج فارس کے ممالک خوف اور دھشت کے مارے یہی ٹیکس اور انعامات نیتن یاہو کو دیں گے تاکہ وہ انہیں ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھیں۔
عطوان نے مزید لکھا: "ہم جانتے ہیں کہ نتن یاہو اور ٹرمپ ، جو خود بحران زدہ ہیں ، اس معاہدے کے فاتح ہیں، خواہ یہ وقتی ہی کیوں نہ ہو ، لیکن اس معاہدے پر دستخط کرنے سے متحدہ عرب امارات کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات جو تیل سے مالا مال ایک ملک ہے اس نے فرانس ، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور اس کی سرزمین پر ان کے متعدد فوجی اڈے ہیں ۔ایک ہفتہ قبل اس کے وزیر خارجہ نے اپنے ایرانی ہم منصب سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے خوشگوار ماحول میں ملاقات کی تھی۔
دنیائے عرب کے ممتاز تجزیہ کار نے یہ ذکر کرتے ہوئے کہ عام طور پر امن معاہدوں پر دشمنوں کے ساتھ جنگ یا تناؤ کے بعد دستخط ہوتے ہیں یہ سوال اٹھایا کہ کیا متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں تھا یا ایسی جنگ میں داخل ہونے جا رہا تھا جس سے ہم لاعلم تھے۔
انہوں نے مزید کہا: "آج ہم عراق، لیبیا ، یمن اور شام کی تباہی اور فلسطینی عوام کی بھوک اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ساتھ غداری کی وجوہات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں‘‘۔
عبد الباری عطوان نے آخر میں یہ لکھا کہ سن 1982 میں لبنانی شکست نے اسلامی مزاحمت کو جنم دیا ، اور جون 1967 میں فلسطینی مزاحمت تشکیل پائی اور 2000 میں کیمپ ڈیوڈ کے سازشوں سے دوسرا مسلح انفتاضہ شروع ہوا۔ یہ امت ایک پختہ اور مستحکم اعتقاد کی مالک ہے اور مستقبل میں بھی کسی قیام سے گریز نہیں کرے گی۔