-
Thursday, 6 August 2020، 02:31 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ عرب دنیا کے حکمرانوں اور اسرائیل کی قرابت میں آئے روز ہونے والا اضافہ جہاں ایک طرف فلسطینیوں کی بے مثال جدوجہد کو سبوتاژ کر رہا ہے، وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل کے لئے خطے میں کھلم کھلا بدمعاشی اور دہشت گردی کے راستے بھی کھول رہا ہے اور یہ دہشت گردی بالآخر خطے میں موجود اسرائیل کے قرابت دار عرب حکمرانوں کو بھی اپنی آگ میں لپیٹ لے گی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور بادشاہ اپنے انجام اور عاقبت سے بے خبر امریکہ و صہیونی کاسہ لیسی میں غرق ہوچکے ہیں۔ سابق اسرائیلی سفارتکار دورے گولڈ کا کہنا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے اسرائیل کی مشکلات میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہوچکا ہے۔ انہوں نے عرب دنیا اور اسرائیل کے مابین ملاقاتوں اور تعلقات کے راز کو افشا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ ملاقاتیں کوئی نئی بات نہیں ہیں بلکہ کئی برسوں کا تسلسل ہے اور اس طرح کی ملاقاتیں اسرائیل کے لئے کامیابی کی کنجی ہیں۔
اس تجزیہ نگار کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا کے حکمران اور اسرائیل کے حکمران اب ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن ماضی میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس ہو رہی تھی، تاہم اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ سابق اسرائیلی سفارتکار کے تجزیہ کے مطابق عرب خلیجی حکمرانوں کی اسرائیل کے قریب آنے کی ایک وجہ اسرائیل اور ان عرب ممالک کا ایران مخالف ہونا ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران پر قابو رکھنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں فلسطین اور اس کے عوام شدید خطرات سے لاحق ہو رہے ہیں، القدس خطرے میں ہے۔ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے رابطوں، نئے اتحادوں اور صدر ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد کہ وہ اسرائیل عرب تنازعے کو ختم کرنے کے لیے اس “صدی کا سب سے بڑا معاہدہ” کرانے کا منصوبہ رکھتے ہیں، فلسطینیوں کی فکرمندی میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔
فلسطینیوں کو خطرہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اْن پر دباؤ بڑھانے کے لئے سعوی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر علاقائی ریاستوں کی جانب دیکھ رہی اور یہ امریکی انتظامیہ فلسطینیوں کو ایک ایسے امن معاہدے پر مجبوراً رضامند کرانے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے ان کے دیرینہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ فی الحال صرف مصر اور اردن ہی وہ عرب ممالک ہیں، جو اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کا عمل بہت پہلے رک چکا ہے، لیکن گذشتہ سال اسے ایک اور دھچکا لگا۔ وہ فلسطینی عوام جو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں، انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے اسے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے یہ کہہ کر واشنگٹن سے اپنے تعلقات ختم کر لیے کہ یہ قدم تصفیہ کرانے والے کسی منصف کا نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس کے باوجود مشرق وسطیٰ کے لئے امریکہ کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم کے عمان کے دورے کے حوالے سے پرجوش بھی ہیں۔ اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ “یہ قدم ہماری امن کی کوششوں کے لئے نہ صرف مدد گار ہے بلکہ اسرائیل، فلسطین اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان استحکام اور خوشحالی کی فضا قائم کرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔” دوسری طرف عرب دنیا کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی میں سعودی عرب کو جو کردار دیا گیا تھا، وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد شکوک کا شکار ہوگیا ہے۔ اس بیان میں بنیامن نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اگرچہ خاشقجی کی ہلاکت ایک “ہولناک” خبر تھی، لیکن اس سے سعودی عرب کے اندر عدم استحکام پیدا نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ اصل اور بڑا مسئلہ ایران ہے۔ بحرین نے اسرائیل کی جانب سے اس “واضح موقف” کو اسی طرح سراہا ہے، جیسا اس نے گذشتہ دنوں عمان کو اسرائیلی وزیراعظم کی آمد پر سراہا تھا۔
اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ عرب ممالک جلد ہی اسرائیل کو پوری طرح گلے لگا لیں گے، اس لئے فی الحال ہمیں دونوں فریقوں کے درمیان ایسے دعوت ناموں اور پرجوش انداز میں ہاتھ ملانے کے مناظر کو ہی کافی سمجھنا پڑے گا، جن کے بارے میں ہم کل تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس تمام تر صورتحال پر اثر اب پاکستان پر بھی پڑنا شروع ہوچکا ہے کہ جو ماضی میں پاکستانی حکمرانوں کی اسرائیلی عہدیداروں کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں خفیہ ملاقاتوں کی صورت میں سامنے آیا تھا، تاہم دور حاضر میں تل ابیب سے پرواز کرکے آنے والا طیارہ کی اسلام آباد میں لینڈنگ ہو اور دس گھنٹے قیام ہو یا پھر سابق جنرل کا اسرائیل حمایت میں لیکچر یا پھر حکومتی جماعت کی رکن قومی اسمبلی کی طرف صہیونیوں کی حمایت اور اسرائیل کے لئے راہ ہموار کرنے جیسے بیانات اور تقریریں ہوں، سب کے سب ریکارڈ پر موجود ہیں اور ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
ایسے حالات میں خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ اب پاکستان نے جن ممالک کیلئے ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس میں اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو بھی پاکستانی ویزا دیا جائے گا، یہ انتہائی خطرے کی بات ہے اور پاکستان کے آئین اور نظریاتی بنیادوں سمیت بانیان پاکستان کی اساس سے انحراف کے مترادف ہے۔ چونکہ پاکستان کی سیاست اور آنے والی حکومتوں کے حکمران عام طور پر امریکہ کے بعد سعودی عرب اور امارات کو اپنا سب سے بڑا پیشوا اور مسیحا مانتے ہیں، تاہم اس مریدی میں یقیناً پاکستان پر انہی عرب ممالک کی طرف سے یہ دباؤ بھی ضرور ہوگا کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو نرم کیا جائے۔ بہرحال خلاصہ یہی ہے کہ حالیہ دور میں فلسطینی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، جو کہ مثالی ہے جبکہ عرب دنیا کے حکمران اسرائیل کے ساتھ قربتیں پیدا کرکے جس طرح سے نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہے ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جا رہاہے۔
اس صورتحال سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لئے مسلم دنیا اور عالم انسانیت کا خطرناک دشمن صہیونی جعلی ریاست اسرائیل ہے، جو عنقریب ان عرب قرابت داروں کو بھی اپنے شکنجہ میں دبوچ ڈالے گی اور اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ مقالہ کے اختتام پر سابق پاکستانی جنرل غلام مصطفیٰ کی بات کو دہراتا ہوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان تل ابیب میں بیٹھ کر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی چوکیداری بھی کر لے، تب بھی یہ اسرائیل پاکستان کو نہیں چھوڑے گا اور موقع ملتے ہی پاکستان کے خلاف اپنا ہر قسم کا وار کرے گا۔ اب پاکستان سمیت تمام عرب دنیا کے حکمرانوں کو اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیئے۔