-
Friday, 4 September 2020، 01:10 AM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آغاز اسلام کے دور کے اہم ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہود و نصاریٰ کے ساتھ برتاو تھا جس کی طرف قرآن کریم کی بعض آیتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ آغاز اسلام میں پیغمبر اکرم(ص) پوری طاقت و توانائی کے ساتھ یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کرتے تھے اور کبھی بھی ان کے سامنے اپنی کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ (ص) ایسا نہ کرتے تو یہود و نصاریٰ کی سازشیں اور فتنہ انگیزیاں اسلام کو سخت نقصان پہنچاتیں۔
اس موضوع کے حوالے سے ہم نے حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی سے گفتگو کی ہے امید ہے کہ قارئین کرام کے لیے مفید واقع ہو گی۔
س۔ قرآن کریم میں سیاسی موضوعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا بطور کلی قرآن کریم کو سیاسی زاویہ نگاہ سے بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے یا صرف اخلاقی اور عقیدتی اعتبار سے ہی قرآن کریم کو دیکھنا چاہیے؟
قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں مختلف مسائل جن میں ثقافتی، اخلاقی، عقیدتی حتیٰ سیاسی بھی شامل ہیں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم کبھی تاریخ حقائق کو بیان کرتا ہے، کبھی حیوانوں کی سادہ مثالیں پیش کرتا ہے، کبھی بہت گہری اور دقیق مثالیں بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: إِنَّ اللَّهَ لاَیَسْتَحْیی اَن یَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا؛ اللہ اس بات میں شرم محسوس نہیں کرتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کمتر کی مثال پیش کرے۔
قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں ہے لیکن تاریخی مثالیں اور داستانیں بیان کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں ہدایت کا ایک پہلو، سیاسی پہلو ہے کہ قرآن کریم نے اس کے بارے میں بھی مثالیں پیش کی ہیں۔ اس لیے کہ انسانی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ قرآن میں صرف اخلاقی موضوعات کو بیان کیا گیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے سیاسی مسائل کی طرف بھی قرآن کریم میں اشارات ملتے ہیں۔
س۔ قرآن معجزہ ہے لہذا سیاسی مسائل کا قرآن کے اعجاز سے کیا تعلق ہے؟
قرآن کریم کا اعجاز دو طرح کا ہے ایک قرآن کریم فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے جو اس کے الفاظ و ادبیات سے مربوط ہے۔ دوسرا قرآن کریم مطالب اور مفاہیم کے اعتبار سے بھی معجزہ ہے۔ اگر چہ ظاہر قرآن بھی معجزہ ہے لیکن اس فصیح و بلیغ کتاب میں موجود مطالب بھی اپنی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے معجزہ ہیں۔
اعجاز ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے مطالب نئے، تازہ اور بدیع ہیں۔ اگر چہ قرآن کریم ۱۴ سو سال قبل نازل ہوا لیکن ابھی بھی اس کے مطالب تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ گویا آج ہی نازل ہوئے ہیں۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ کیا کچھ اہم سیاسی مسائل جن سے آج ہمارا معاشرہ روبرو ہے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا نہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ قرآن کریم کی آیتوں کی روشنی میں کیا ہم اسلامی معاشرے کے سیاسی مسائل کا تجزیہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر آج کے ہمارے معاشرے کا اہم ترین مسئلہ، جوہری معاہدہ یا ہمارے اوپر لگائی گئی ظالمانہ پابندیاں ہیں جن کا براہ راست تعلق یہود و نصاریٰ سے ہے۔ اس موضوع کو ہم آغاز اسلام میں بھی درپیش آئے مشابہ مسائل سے تجزیہ و تحلیل کر سکتے ہیں جن کے پیچھے بھی یہود و نصاریٰ کا تھا۔ در حقیقت یہ ایک اعتبار سے قرآنی گفتگو بھی ہے اور ایک اعتبار سے تاریخی بھی۔ اور آغاز اسلام کے مسائل اور اس دور میں بھی مسلمانوں پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو آج کے مسائل سے ناطہ جوڑ کر بخوبی یہ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ جب بھی حقیقی اسلام نے سر اٹھایا تو یہود و نصاریٰ نے اسے کچلنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۵۱ اور ۵۲ آیتوں میں مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کرتا ہے ارشاد ہوتا ہے:
«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَىأَوْلِیَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛
“اے ایمان والوں یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہو جائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔”
آیت نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناو یعنی ان کے ساتھ معاملات میں خود کو کمزور مت سمجھو، البتہ آیت یہ نہیں کہتی کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات نہ کرو، ان کے ساتھ بالکل تعلقات نہ رکھو، بلکہ آیت میں تاکید اس بات پر ہے کہ ان کے مقابلے میں خود کو ضعیف مت سمجھو یعنی اگر تم انہیں اپنا سرپرست بنا لو گے تو تم ان کے سامنے کمزور اور ضعیف ہو جاو گے اور وہ تمہارے سر پر سوار ہو جائیں گے لہذا ان کے مقابلے میں خود کو قوی اور مضبوط کرو۔
آیت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ؛ یہ ایک دوسرے کے سرپرست اور ولی ہیں ایک دوسرے کے دوست ہیں اگر تم یہ سوچو کہ ہم عیسائیوں سے دوستی کر لیں گے اور وہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے یہ غلط ہے یہود و نصاریٰ دونوں ایک ہیں بظاہر ممکن ہے ان کے بھی آپس میں اختلافات ہوں لیکن تمہارے ساتھ دشمنی کے مقام پر دونوں یک مشت ہیں۔
اس آیت نے ہمارے لیے موقف واضح کر دیا ہے کہ ان کے ساتھ اپنی گفتگو اور مذاکرات میں یہ پیش نظر رہے کہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور دشمن کو دشمن سمجھ کر اس سے گفتگو کرنا چاہیے، پوری ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ ان سے گفتگو کرنا چاہیے تاکہ تمہیں کبھی وہ دھوکا نہ دے دیں، تمہارے اوپر سوار نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْإِنَّ؛ جو بھی تم میں سے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا ان ہی میں سے ہو جائے گا۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ کی طرف اشارہ ہے اگر تم نے دشمن پر بھروسہ کر لیا تو تم بھی دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ دشمن دشمن ہوتا ہے اس پر اعتماد کرنے والا اسلامی معاشرے سے دور ہو جاتا ہے۔ آیت یہ سمجھا رہی ہے کہ یہ بہت خطرناک موقع ہے یہاں پر لغزش اور گمراہی کا بہت امکان ہے۔ اگر دشمن کی باتوں میں آگئے اور اس پر بھروسہ کر لیا تو دشمن کی صف میں شامل ہو جاو گے۔ اور آخر میں ہے کہ «إِنَّ اللَّـهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ خدا ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔
س۔ کیا قرآن کریم میں ایسے مسلمانوں کے حوالے سے بھی کچھ بیان ہوا ہے جو دشمن پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں اور حکم خدا کی خلاف ورزی کر دیتے ہیں؟
قرآن کریم بعد والی آیت یعنی سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۲ میں اسلامی معاشرے کی فضا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض مسلمان دشمنوں کے مقابلے میں کیسا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: «فَتَرَى الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیهِمْ یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ “پیغمبر آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جا رہے ہیں اور یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ ہمیں گردش زمانہ کا خوف ہے”۔
آیت کا یہ کہنا ہے جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے وہ جلدی یہود و نصاریٰ کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں تم نے اتنا جلدی دشمن کی باتوں پر بھروسہ کر لیا تو کہتے ہیں: «یَقُولُونَ نَخْشَى أَن تُصِیبَنَا دَائِرَةٌ؛ ہم گردش زمانہ سے ڈرتے ہیں۔ یا آج کی زبان میں کہا جائے کہ ہم پابندیوں سے ڈرتے ہیں۔ ایسے افراد کا ایمان ضعیف ہوتا ہے خدا پر ایمانِ کامل نہیں رکھتے۔ ایسے افراد کا کہنا ہے کہ دشمن ہمیں نقصان پہنچائے گا، ہم اس سے گفتگو کرنے جاتے ہیں مذاکرات کرنے جاتے ہیں تاکہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کبھی ہمارے اوپر حملہ نہ کر دے کبھی ہمارے اوپر پابندیاں نہ عائد کر دے۔
آیت اس کے بعد مسلمانوں کو دلاسہ دیتی ہے اور فرماتی ہے: «فَعَسَى اللَّـهُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛ پس عنقریب خدا اپنی طرف فتح یا کوئی دوسرا امر لے آئے گا تو یہ اپنے دل کے چھپائے ہوئے راز پر پشیمان ہو جائیں گے۔
آیت کا یہ حصہ مسلمانوں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا سے ناامید نہ ہوں خدا اپنی طرف سے کچھ ایسا کرے گا کہ ان کی مشکلات حل ہو جائیں گی تم اپنی مشکلات کے حل کے لیے دشمن کی طرف مت جانا دشمن تمہاری مشکلات حل نہیں کر سکتا بلکہ مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اور جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دشمن کے ساتھ خفیہ قرار دادیں باندھتے ہیں لیکن بعد میں جب ظاہر ہوتا ہے تو پشیمان ہوتے ہیں۔ فَیُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِی أَنفُسِهِمْ نَادِمِینَ؛
یعنی بعض لوگ جب معاشرے پر دشمن کی طرف سے دباو پڑتا ہے تو یہود و نصاریٰ کے ساتھ خفیہ تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعد میں جب یہ تعلقات کھل کر سامنے آتے ہیں تو شرمندہ اور پشیمان ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دشمن پر کبھی بھی بھروسہ نہ کرنا، اس کے ساتھ گفتگو کرنے میں اس بات کی طرف توجہ رکھنا کہ وہ تمہارا دشمن ہے اور دشمن کبھی بھی تمہارا نفع نہیں چاہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کی بین الاقوامی روابط کے حوالے سے بالکل یہی پالیسی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ دشمن کی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا اس گفتگو کر سکتے ہیں لیکن اس کے سامنے دب کر نہیں، خود کو کمزور سمجھ کر نہیں۔ آپ ایک طرف سے معاہدے کے احترام پر تاکید کرتے ہیں اور دوسری طرف سے عہد شکن کے ساتھ سخت رویہ اپناتے ہیں، یہ دونوں نکات قرآن کریم کی روشنی میں ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ عہد شکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آو، اور اگر انہوں نے عہد شکنی کر دی تو تم اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا۔
رہبر انقلاب کے فرمودات کوئی ان کے ذاتی نظریات نہیں ہیں بلکہ قرآنی مبنیٰ پر قائم ہیں۔ آپ نے متعدد بار کہا کہ ہم قدس کے غاصب اسرائیل کہ جسے ہم تسلیم نہیں کرتے کے علاوہ ہر کسی سے گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن گفتگو میں ہمارے ہوش و حواس سالم رہنا چاہیے، ہوشیاری سے کام لینا چاہیے کسی کو دشمن سے دوستی اور محبت کی تمنا نہیں ہونا چاہیے۔ دشمن کا کام دشمنی کرنا ہے یعنی دشمنی کا تقاضا ہی فتنہ افکنی، مکاری اور ضرر رسانی ہے لہذا ہمیں ہوشیاری سے کام لینا چاہیے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۴۲