بوڑھا سامراج اور استعماری طاقتیں

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ ان سامراجی اور استعماری طاقتوں میں سے ایک ہے جس نے برصغیر کے سرمایے کو لوٹنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سالہا سال اس علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے برصغیر کا سارا سرمایہ غارت کر لیا لیکن آخر کار ہندوستان کے عوام نے انقلابی تحریک وجود میں لا کر انگریزوں کو بظاہر اپنی سرزمین سے باہر کیا اور برصغیر سے سامراجی نظام کا خاتمہ کیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صہیونی دانشور اور سیاست دان سامراجی عناصر کے ہمراہ، قدیم الایام سے اپنے عالمی تسلط کے نظریے کے تحت برصغیر پر قبضہ جمانے کے لیے تزویری اقدامات انجام دینے کے قائل تھے اور برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے دوران اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور سامراجی طاقت بھی اس راہ میں انہیں تعاون فراہم کرتی رہی۔ در حقیقت برطانیہ نے جب ہندوستان کو چھوڑا تو اسرائیل کے لیے ہندوستان میں مکمل فضا قائم ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی شور شرابے کے برطانیہ ہندوستان میں اپنا جانشین چھوڑنے پر کامیاب ہوا تاکہ قدس کی غاصب ریاست برصغیر مخصوصا بھارت کے سکیورٹی نظام میں اپنا گہرا نفوذ حاصل کر سکے۔
دوسری جانب سوویت یونین نے جب افغانستان پر اپنا تسلط ختم کیا تو امریکہ کو اس علاقے میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے، پاکستان میں اپنی امداد رسانی شروع کر دی۔ اور سوویت یونین کی شکست اور خاتمے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسے ٹولے وجود میں لاکر علاقے میں اپنی موجودگی کے لیے ایک نیا بہانہ تراش لیا۔ لہذا ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد پاکستان بھی علاقے میں دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ پاکستان پر جوہری تجربات کی بنا پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے علاقے میں اپنی موجودگی کو بحال رکھنے کے لیے بعض مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
تیسری جانب سعودی عرب نے برصغیر میں اہل سنت کی تمایلات اور رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہابیت کو پھیلا دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت کہ جو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے دوران آغاز ہوئی، سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے حوزہ ہائے علمیہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
علاوہ از ایں علاقے میں اسلامی انقلاب کے نفوذ کو روکنا بھی امریکی سعودی پالیسیوں کا ایک حصہ تھا۔
تنازعہ اور کشمکش
ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران برصغیر کا اکثر علاقہ ایک ہی جیوپولیٹک علاقہ شمار ہوتا تھا صرف نیپال اور بوٹان کے کچھ علاقے انگریزیوں والے ہندوستان سے باہر تھے۔ لیکن برطانیہ کے تسلط کے خاتمہ اور برصغیر کی تقسیم کے بعد، یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ ہند و پاک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، سری لنکا جو ۱۹۴۸ میں آزاد ہوا تقریبا دو دہائیوں سے تامل بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ کی علیحدگی پسند تحریک کی بغاوت سے دوچار ہے۔ اس علاقے میں بنگلادیش حکومت نے بھی ایسے دور میں جنم لیا کہ مشرقی بنگال پاکستان کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱، ۷۲ کی جنگوں میں پاکستان سے الگ ہوا جس میں تقریبا پانچ سو افراد کا قتل عام ہوا۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی سیاسی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ اصلاح کرنے کے لیے باقی ہے۔ برصغیر کا علاقہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو تشکیل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خستہ حالی اور غربت و مفلسی دنیا کے لیے مثالی تصویر بن چکی ہے۔ ہند و پاک کا سارا بجٹ سرحدوں کے تحفظ اور عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف اندرونی حالت یہ ہے کہ مذہبی اختلاف اور قومی فرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کا باعث بن رہے ہیں کہ برصغیر کے ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہوں اور آپسی اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے جبکہ علاقائی سطح پر اپنی شناخت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔

 

آراء: (۰) کوئی رائے ابھی درج نہیں ہوئی
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی