-
Thursday, 30 April 2020، 03:44 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عصر حاضر میں صہیونیزم مکڑے کے جال کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور حتیٰ ان ملکوں جو عرصہ دراز سے اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرائی میں فرنٹ لائن پر تھے میں بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس حوالے سے حماس کے سابق رکن اور محقق ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف الداوی کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے۔ الداوی غزہ پٹی کے رہنے والے ہیں اور تاحال ۹ مرتبہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں۔
سوال؛ اسلامی ممالک میں اسرائیل کس حد تک اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے کیا آپ اس حوالے سے کچھ وضاحت کریں گے۔
۔ اس میں کوئی شک نہیں فلسطین کے غصب ہونے اور صہیونی ریاست کی تشکیل پانے کے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک کا یہ پیریڈ اس حکومت کے لیے ایک سنہری پیریڈ تھا۔ اس لیے کہ دشمن یہ احساس کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہ میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو دھیرے دھیرے ختم کر رہا ہے اور عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور مزاحمتی محاذ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
دشمن کو یہ بھی سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اب اسے بہت سارے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برملا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔
دوسری جانب عرب ممالک بھی اپنی سیاسی، ثقافتی اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں اسرائیل کو شرکت کی دعوت دینے میں کسی شرم و حیا کا احساس نہیں کر رہے ہیں اور اسرائیل کا پرچم عرب ممالک میں دیگر ملکوں کے پرچموں کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کا قومی ترانہ بھی عرب ملکوں میں گایا جانے لگا ہے! اسرائیلیوں کا عربی دار الحکومتوں میں والہانہ استقبال ہونے لگا ہے!، اس کے علاوہ اسرائیل تاجروں کا عرب تاجروں کے درمیان بغیر کسی خوف و ہراس کے لین دین شروع ہو چکا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام طرح کے تعلقات اور روابط سرکاری سطح پر ہیں عرب ملکوں کے عوام ان سے فی الحال بیزار ہیں۔
حکومتیں اور حکمران ہمیشہ سے خیانتوں کا ارتکاب کرتے اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے رہے ہیں۔ صہیونی دشمن اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ عرب قوموں اور اسلامی ملتوں کی جانب سے مزاحمت اور مخالفت اپنی جگہ پر پوری قوت کے ساتھ باقی ہے اور تاحال وہ ان ملتوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ ابھی تک وہ جس میدان میں کامیاب ہوئے ہیں وہ صرف عرب حکام کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک معمول پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بھی ان عرب حکمرانوں کے ساتھ جو یہ سوچتے ہیں کہ صہیونی ریاست ان کی دوست ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان چھکڑنے کو تیار ہے۔
جاری