-
Friday, 24 April 2020، 10:43 PM
گزشتہ سے پیوستہ
آیت اللہ طائب:
۲۔ نفسیاتی جنگ؛ اس جنگ میں کسی ظاہری ہتھیار کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ فلموں، ڈراموں، میڈیا، سوشل میڈیا، شبہات اور جھوٹ فراڈ وغیرہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ و فراڈ کی ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ انسان خود بخود منفعل ہو جاتا ہے اور کسی اقدام کی اس میں توانائی نہیں رہتی۔ فلموں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کی سوچ کو چھین کو اپنی سوچ دی جاتی ہے۔ اسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ میں دشمن بہت آگے نکل چکا ہے پورا میڈیا دشمن کے پاس ہے، تمام ذرائع ابلاغ دشمن کے قبضے میں ہیں، جو وہ چاہتے ہیں وہ لوگوں تک پہنچ پاتا ہے تو ایسی صورت میں تقریبا نفسیاتی جنگ میں اس وقت دشمن جیت چکا ہے اور ہم مسلمان ہار چکے ہیں۔ اس لیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں، جوانوں، عورتوں سب کی فکروں پر دشمن کی سوچ حاوی ہو چکی ہے۔
۳۔ کیمیائی جنگ؛ کیمیائی جنگ سے مراد کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے کی جانے والی جنگ نہیں ہے وہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ کے ذمرے میں آ جاتی ہے یہاں پر کیمیائی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو زہریلے مواد کے ذریعے اپنے دشمن کو پسپا کرنے کے لیے کی جاتی ہے مثال کے طور پر گزشتہ دور میں جس بستی یا گاؤں کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اس بستی کے پانی کو زہر آلود کر دیا جاتا تھا، اور آج مثلا اس بستی کی فضا کو زہرآلود کر دیا جاتا ہے۔
۴۔ حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار؛ کسی بیماری کو کسی علاقے میں پھیلا کر یہ جنگ لڑی جاتی ہے گزشتہ دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ دشمن اپنے حریف کی کسی بستی میں متعدی بیماری پھیلا دیتا تھا اور جس سے بستی کی بستیاں اجڑ جاتی تھیں۔
تاریخ میں طاعون کی بیماری کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس کے ذریعے بہت سارے لوگ لقمہ اجل بن جاتے رہے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی یہ بیماری موجود تھی اور بعد اسلام بھی حالیہ سالوں تک موجود رہی ہے، ۱۸ ھجری قمری کو دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے بہت سارے اصحاب رسول جیسے معاذ بن جبل موت کا شکار ہو گئے۔ ۸۷ ہجری میں بھی عبد اللہ بن زبیر کے دور حکومت میں پھیلی اور کئی بستیوں کو اجاڑ دیا۔
لیکن ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور اس طرح کی مسری اور متعدی بیماریاں کیسے وجود پاتی ہیں۔ لیکن طول تاریخ میں مسلمانوں کو جس قوم پر شک رہا ہے وہ یہودی قوم ہے۔ چونکہ گزشتہ دور میں بھی اکثر یہ بیماری مسلمان بستیوں یا عیسائی بستیوں میں پھیلتی تھی اور یہودی اس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ شام میں یہودی بھی ان علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے جہاں طاعون کی بیماری پھیلی تھی مگر یہودی بہت کم اس بیماری کا شکار ہوئے۔ یوریشیا کے علاقے میں یہ بیماری پھیلی لیکن یہودی وہاں صحیح و سالم بچ گئے اسی وجہ سے یہودی ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ کہیں یہ انہی کی کارستانیاں تو نہیں۔
انیسویں صدی میں اس وائرس کا انکشاف ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد طاعون کے وائرس کو طاقتور ملکوں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جاپان نے طاعون کے وائرس سے تیار کیے بم اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے۔ لہذا اس طرح کی جنگ کو حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیک وار کہتے ہیں۔
جاری