-
Sunday, 19 April 2020، 10:45 PM
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں ظاہری ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ایسے جراثیم استعمال کیے جاتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف بڑھ سکتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں، سانس کے ذریعے پھیل سکتے ہوں یا ایک دوسرے کو چھونے کے ذریعے۔ گزشتہ دور سے دشمن ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کی مثالیں کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں پھیلی یا پھیلائی گئی اس بیماری کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک قسم کی حیاتیاتی جنگ ہے۔ اس حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب نے اپنے فقہ کے درس کے دوران ایک تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے جس کو مختلف حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے؛
کتاب و سنت کی روشنی میں کسی بھی چیز کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں مکمل طور پر آشنائی حاصل کر لیں۔ اگر ہم جنگ کے احکام معلوم کرنا چاہیں، جہاد اور دفاع کے احکامات معلوم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے دشمن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی قسموں کو پہچانیں پھر ان کا مقابلہ کرنے کے راستوں کو جان سکتے ہیں اور اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں؛ ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔
ابتدائی جہاد کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام کی دعوت دینا اور عدالت برقرار کرنا کے معنی میں ہے جس میں جنگ کے آغاز گر مسلمان ہوتے ہیں اور مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کی گسترش ہوتی ہے، یہ جہاد اہل تشیع کے نزدیک امام معصوم کے عصر غیبت میں منتفی ہے چونکہ ابتدائی جہاد کے لیے نبی یا امام معصوم کا حکم ضروری ہے۔
لیکن دفاعی جہاد مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں موجود ہے اور ہر انسان پر فرض ہے۔ دشمن کے حملے کے مقابلے میں اپنے جان و مال اور اپنے دین و وطن کی حفاظت کرنا ایسا مسئلہ ہے جو عقلی اعتبار سے ثابت ہے اور آیات و روایات میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن دفاعی جہاد کرنے سے پہلے دشمن کے حملوں کو پہچانا ضروری ہے کہ دشمن کتنے طریقے سے ہمارے اوپر حملہ ور ہو سکتا ہے۔ بطور کلی اگر دیکھا جائے تو دشمن نے ابھی تک چار طرح کی جنگیں کی ہیں؛
۱۔ ہتھیاروں کی جنگ؛ ہتھیاروں کی جنگ ہر دور میں متعارف ہے اور زمانہ قدیم سے آج تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے ہی لڑی گئی ہیں صرف فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیر و کمان تھے لیکن آج میزائل اور ایٹم بم ہے۔ گزشتہ دور کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو آپس میں لڑنے کے لیے میدان جنگ کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن آج گھر بیٹھے بیٹھے شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کو اتنے ہی قوی ہتھیار بنانے پڑتے ہیں جتنے اس کے دشمن کے پاس ہیں اور یہ چیز متعارف ہے اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے وہ ایسے ہتھیار بنا اور استعمال کر سکتا ہے جن سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے لیکن ایسے ہتھیار بنانے اور ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا جن سے اجتماعی قتل و بربادی ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔
جاری